عمران خان عالمی ثالثی سے پہلے ملک کے منہ پر لگی کالک دور کریں


وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان چین اور امریکہ کے درمیان پل بنانے کا کام کرے گا تاکہ دنیا ایک بار پھر کولڈ وار کی مشکل صورت حال سے دوچار نہ ہوجائے۔ عمران خان نے دیگر باتوں کے علاوہ یہ ہوش ربا انکشاف اسلام آباد میں ایک سیمینار کے دوران کیا جس کا موضوع ’ پر امن اور خوش حال جنوبی ایشیا‘ تھا۔ اسی موقع پر وزیر اعظم نے ملک میں تھنک ٹینکس بنانے اور درست فکر کی بنیاد پر پاکستان کا امیج اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

عمران خان کا کہنا تھا’ یہ سوچ کر میرا دل کڑھتا ہے کہ امریکہ میں بیٹھے ہوئے تھنک ٹینکس جنہیں پاکستا ن اور اسلام کے بارے میں بنیادی معلومات بھی حاصل نہیں ہیں۔ یہ لوگ پاکستان کو انتہا پسندوں کا ملک قرار دیتے ہیں اور اسلام کو شدت پسندی کی وجہ بتاتے ہیں۔ خاص طور سے نائن الیون کے بعد یہ رجحان دیکھنے میں آیا ہے‘۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے اس گمراہ کن تاثر کو زائل کرنے کے لئے کوئی کام نہیں کیا گیا کیوں کہ ساٹھ کی دہائی کے بعد پاکستان نے عقلی بنیادوں کو ترک کردیا تھا ۔ سوچنے کے عمل اور عقل کے استعمال کو کم کردیا اور ہم ایک غیر حقیقی ملک بننا شروع ہوگئے۔ باہر سے آنے والے خیالات کو اپنانا شروع کردیا، ہماری اپنی اصل سوچ ہی ختم ہوگئی۔وزیر اعظم کی تان لے دے کے رحمت اللعالمین اتھارٹی کے ذکر پر ٹوٹتی ہے جو ان کے خیال میں ان کی حکومت کا ایک ایسا اچھوتا اقدام ہے جس سے پاکستان کے سب دلدر دور ہوجائیں گے۔

وزیر اعظم کی باتوں پر اگر غور کیا جائے تو ایک بات تو آسانی سے سمجھ آجاتی ہے کہ پاکستان اور یہاں رہنے والے لوگوں نے واقعی عقل و خرد سے دست بردار ہوکر ملک میں جذبات اور نعروں کی بنیاد پر ایک ایسا ماحول پیدا کیا ہے جس میں باہمی احترام، سائینسی ضرورت اور جدید اصلاحات سے دست کش ہونا ہی مطمح نظر قرار پایا ہے۔ دیانت داری کی بات تو یہ ہے کہ اگر غیر حقیقی، دلیل سے عاری اور ناقص جذبات سے لبریز یہ ماحول پیدا نہ ہوتا تو عمران خان آج بھی میانوالی کی نشست جیتنے کے لئے تگ و دو کررہے ہوتے۔ کبھی وہ وہاں سے ایم این اے منتخب ہوجاتے اور کبھی شکست کا سامناکرتے اور آئیندہ انتخابات میں پھر سے اکلوتی نشست جیتنے کی جد و جہد میں مگن ہوجاتے تاکہ کسی طرح قومی سطح پر انہیں بھی لیڈر تسلیم کیا جائے۔ ورنہ کیا عمران خان نے غور کیا ہے کہ کہ ان کا فکری، عقلی اور سیاسی تجربہ کا کل اثاثہ کیا ہے؟ ان کے پاس سوائے کرکٹ میں نام کمانے، لگے رہو منا بھائی کی طرز پر 1992 کا ورلڈ کپ جیت کر ’قومی ہیرو‘ کا رتبہ حاصل کرنے اور جھوٹے سچے نعروں کے بل بوتے پر پاکستانیوں کی نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کے سوا کیا زاد راہ ہے؟ کیا کسی بھی لحاظ سے عمران خان کے پاس کوئی ایسی تعلیم، تربیت یا تجربہ ہے کہ وہ پاکستان جیسے ملک کو گونا گوں سیاسی ، معاشی، سماجی اور سفارتی مشکلات سے نکال سکتے؟

اہل پاکستان کی ہیرو پرستی، غیر عقلی طرز عمل اور نعروں کے دھوکے میں عمران خان پر اعتبار کرنے ہی کا سبب تھا کہ پاکستان کو تحریک انصاف کی ایک ایسی حکومت نصیب ہوئی ہے جو اقتدار میں ساڑھے تین سال گزارنے کے بعد بھی ایسے نعرے تلاش کررہی ہےجن کی بنیاد پر وہ ایک بار پھر انتخابی کامیابی حاصل کرسکے۔ عمران خان قومی سطح پر کامیابی کی بات تو کرتے ہیں اور یہ شکوہ بھی ان کے نوک زبان رہتا ہے کہ دنیا میں پاکستان کی پہچان پیدا نہیں کی گئی اور غیرملکی ادارے پاکستان کے بارے میں جھوٹا تصور قائم کرکے ہمارے مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ تاہم دیگر تفصیلات میں جائے بغیر یہ تو پوچھا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ہفتہ کے دوران سیالکوٹ میں پریانتھا کمارا کے بہیمانہ قتل اور اس سے پیدا ہونے والے حالات میں پاکستان کو انتہا پسند اور وحشی معاشرہ نہیں کہا جائے گا تو اس کے بارے میں کیا تصویر سامنے آئے گی؟ کیا عمران خان تصور کرسکتے ہیں کہ اس وقت سری لنکا کے سوا دو کروڑ باشندے پاکستان کے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے؟ کیا وہ یہ یقین نہیں کئے بیٹھے ہوں گے کہ یہ ایسے خوں خوار وحشی لوگوں کا ملک ہے جن کے نزدیک انسانی زندگی کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔ ایک بے بنیاد نعرہ اور ناجائز الزام لگا کر وہاں کے لوگ انسانوں سے درندے بن جاتے ہیں جو انسانی خون سے اپنی پیاس بجھانے سے کم پر راضی نہیں ہوتے۔

اس صورت حال کو آنجہانی پریانتھا کمارا کے بھائی نے رائیٹرز سے بات کرتے ہوئی ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’انسان تو جانور کو مارتے ہوئے بھی اس بے دردی اور ظلم کا مظاہرہ نہیں کرتے، جس طریقے سے میرے بھائی کو پاکستان میں مارا گیا۔ بعض اطلاعات کے مطابق جب اس کی لاش کو آگ لگائی گئی تو وہ ابھی سانس لے رہا تھا‘۔ اس پکار کا جواب ایک نوجوان کو تمغہ شجاعت اور اعلیٰ کارکردگی کا سرٹیفکیٹ جاری کرکے نہیں دیاجاسکتا۔ نہ یہ اعلانات کافی ثابت ہوسکتے ہیں کہ اس قانون شکنی میں شامل سب لوگوں کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں گی۔ اس کے لئے قول و فعل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ پاکستانی اس گروہ سے علیحدہ قوم ہیں جس نے گزشتہ جمعہ کو ایک بے گناہ اور لاچار انسان کو بدترین درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ یہ بھی اسی کہانی کا حصہ ہے کہ اس موقع پر صرف احتجاجی مظاہرین ہی موجود نہیں تھے بلکہ تماشا دیکھنے کے لئے جمع ہونے والوں کی کثیر تعداد بھی شامل تھی جو سیلفیاں لینے میں مصروف رہے لیکن کسی نے آگے بڑھ کر ایک انسان کو ہلاک کرنے والوں کا ہاتھ نہیں روکا۔ ان تماشائیوں میں پولیس کی کچھ نفری بھی موجود تھی جن کا کہنا ہے کہ ان کی تعداد کم اور مظاہرین بہت زیادہ تعداد میں تھے اور مشتعل تھے۔ لیکن تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ توہین مذہب کے نام پر اقدام قتل کرنے والے کسی گروہ کو روکنا خود موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اس کا ادراک سیالکوٹ سانحہ کے روز پہنچنے والے پولیس والوں کو بھی ہوگا۔

عمران خان بتائیں کہ وہ کون سا ایسا تھنک ٹینک بنائیں گے جوایسے سانحات سے دنیا کی نگاہیں پاکستان کی ان خوبیوں پر مرکوز کرواسکے گا جن میں صلہ رحمی، انسانیت، ہمدردی، احترام اور دوسروں کی مدد کرنے کے عناصر نمایاں ہوں؟ وزیر اعظم کو جاننا چاہئے کہ یہ کہنا آسان ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے پاکستان کے بارے میں ایک منفی تصویر پیش کی ہے اور اسلام کو انتہاپسندی اور دہشت گردی سے ناجائز طور سے منسلک کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن اگر بیس سال قبل امریکہ میں دہشت گردی کی ان وارداتوں کے بعد سے امریکہ کے علاوہ یورپ یا دنیا کے بیشتر حصوں میں مذہب کے نام پر دہشت گردی کے واقعات پر غور کیا جائے تو ان میں حصہ لینے والوں کا کوئی نہ کوئی تعلق پاکستان سے نکلتا رہا ہے۔ یا تو یہ لوگ پاکستانی تھے یا دہشت گردی کی تربیت کے لئے اس کے قبائیلی علاقوں میں مقیم رہے تھے۔ براہ راست تشدد، ہلاکت خیزی اور دہشت گردی میں ملوث لوگوں کو الگ کرکے بھی دیکھا جائے تو مطالعہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں مذہبی و سماجی رہنماؤں نے ہمیشہ ایسے واقعات پر مغرب کو مورد الزام اور حملہ آوروں کی حمایت میں دلیل لانے کوشش کی ہے۔

حال ہی میں تحریک لبیک نامی ایک مذہبی ٹولے کو باعزت اور جائز سیاسی جماعت کے طور پر قبول کرنے کا ایک معاہدہ کیا گیا ہے۔ اس گروہ نے گزشتہ دو سال کے دوران فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنے کی بنیاد پر سیاست کی ہے اور حکومت سے تصادم مول لیا ۔ عمران خان بھی ا کتوبر 2020 میں توہین آمیز خاکوں کو تدریسی مقصد کے لئے استعمال کرنے پر ایک استاد کا سر قلم کرنے کے واقعہ کے بعد سے توہین مذہب اور اسلامو فوبیا کا مقدمہ مضبوط کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم یا مذہبی رہنماؤں نے سفاکانہ قتل پر غور کرنے، اس کی مذمت کرنے اور اسے مسترد کرنے کا تو اہتمام نہیں کیا لیکن انہیں توہین مذہب کے حوالے سے مغربی رویوں پر شدید تشویش لاحق رہی ہے۔ کیا عمران خان بتا سکتے ہیں کہ ایک انسانیت سوز قتل کو مسترد کئے بغیر پاکستان کا کون سا تھنک ٹینک پاکستانیوں کی خوشنما تصویر سامنے لاسکے گا؟

پاکستان اور اس کے لیڈروں نے خود کو انتہاپسند اور مذہبی شدت پسندوں کے طور پر شناخت کروانے کی روایت مستحکم کی ہے۔ عمران خان یہ سیدھا اور آسان اصول سمجھنے کی صلاحیت سے بھی بہرہ ور نہیں ہیں کہ امریکہ یا مغرب میں خبروں اور واقعات کی بنیاد پر رائے بنانے والے تھنک ٹینک یا دیگر ادارے کسی خود ساختہ کہانی کی بنیاد پر پاکستان کو قصور وار ٹھہرانے کا اہتمام نہیں کرتے بلکہ عملی طور سے جو حالات درپیش ہیں، ان ہی سے حاصل ہونے والی معلومات نے پاکستان کی یہ تصویر عام کی ہے۔ جب بھی شدت پسند گروہ مذہب کی سربلندی کا نعرہ لگاتے ہوئے، انسانوں کو مارنے، املاک کو نقصان پہنچانے، قانون کو نظر انداز کرنے اور حکومت کو للکارنے پر آمادہ ہوتے ہیں اور حکومت وقت ان کا مقابلہ کرنے کی بجائے ان کے سامنے دو زانو ہوکر مفاہمت کا راستہ تلاش کرنے پر مجبور ہوتی ہے تو دنیا بھر کے ملکوں میں یہی پیغام پہنچایا جاتا ہے کہ اہل پاکستان دلیل ، حجت یا اصول کو نہیں مانتے۔ وہ نعروں پر یقین کرتے ہیں اور گروہی طاقت کے زور پر بات منوانے کا مزاج راسخ ہوچکا ہے۔ وزیر اعظم بتائیں کہ اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے کون سے تھنک ٹینک کیاعقلی دلائل بروئے کار لائیں گے؟

وزیر اعظم چین اور امریکہ کی صلح کرواکے جنوبی ایشیا میں امن لانا چاہتے ہیں۔ وہ دنیا کو ایک نئی سرد جنگ سے بچانا چاہتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان ایران اور سعودی عرب کی ’صلح‘ کروانے کا عملی مظاہرہ کرچکا ہے۔ خود کو دھوکہ دینے کی بجائے بہتر ہوگا کہ ملک کا وزیر اعظم اس حقیقت پر غور کرلے کہ جس سعودی حکومت نے پہلے کبھی پاکستان کو دی گئی امدا دکا ’حساب‘ رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ، اس نے بھی اب پاکستانی اسٹیٹ بنک کے زرمبادلہ ذخائر کو سہارا دینے کے لئےجو 3 ارب ڈالر دیے ہیں، ان پر 4 فیصد سود لینے کا معاہدہ کیا ہے۔ اور پاکستانی حکومت سے تسلیم کروایا گیا ہے کہ اگر پاکستان یہ رقم ادا کرنے میں ناکام رہا تو وہ دنیا بھر میں پاکستانی اثاثوں کو ضبط کرنے کی کارروائی کرسکتا ہے۔ عمران خان کو اب جاننا چاہئے کہ دعویٰ کرنے اور عملی صورت حال میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

چین اور امریکہ کے درمیان پل بننے کے لئے کسی بھی ملک کو کم از کم اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی ضرورت تو ہوگی۔ پاکستان تو بجٹ کی کمی بیشی پورا کرنے کے لئے بھی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کی شرائط ماننے پرمجبور ہے۔ وزیر اعظم کو چاہئے کہ امریکہ یا چین کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کرنے سے پہلے وہ خود ملک کی اپوزیشن سے مذاکرات کریں تاکہ ان کی حکومت کے بارے میں شبہات کم ہوسکیں ۔ اور ہوس اقتدار میں انہیں پھر انہی سہاروں پر تکیہ نہ کرنا پڑے جو اقتدار کا سنگھاسن تو دیتے ہیں لیکن اختیار اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments