منٹو کا افسانہ ”ٹھنڈا گوشت“ اور ہمارا معاشرہ


سعادت حسن منٹو نے 1947 کے بٹوارے پر کئی افسانے لکھے جن میں سے ایک ”ٹھنڈا گوشت“ بھی ہے۔ مشہور شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی اس زمانے میں ایک رسالہ نکالتے تھے جس میں منٹو کے افسانے بھی چھپتے تھے۔

ایک مرتبہ منٹو کو افسانہ لکھ کر بھیجنے میں دیر ہو گئی۔ احمد ندیم قاسمی صاحب خود چل کر منٹو کے گھر پہنچے اور پوچھا افسانہ ختم کیا۔ منٹو نے جواب دیا ”ابھی ابھی ختم کیا ہے“ ۔ یہ کہتے ہوئے کچھ کاغذ کے پرچے قاسمی صاحب کو پڑھنے کے لیے دے دیے۔ قاسمی صاحب افسانہ پڑھنے لگے۔ جوں جوں وہ آگے بڑھتے گئے، ان کی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہوتے گئے۔

افسانہ پڑھنے کے بعد قاسمی صاحب نے منٹو کی طرف دیکھا۔ منٹو نے پوچھا، کیسا لگا؟ قاسمی صاحب نے جواب دیا، اچھا ہے لیکن چھپ نہیں سکتا۔

یہ افسانہ ٹھنڈا گوشت تھا جو کسی اور رسالے نے چھاپا۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ منٹو پر فحاشی پھیلانے کا مقدمہ چلا۔

مقدمے کے دوران جج نے پوچھا، آپ پر اپنی تحریروں کے ذریعے فحاشی پھیلانے کا الزام ہے جس پر منٹو نے جواب دیا ”جج صاحب! اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔ میں اس سوسائٹی اور تہذیب و تمدن کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔ اور اس کو کپڑے پہنانا میرا نہیں درزی کا کام ہے۔

اس مقدمے کے اختتام پر منٹو کو 6 ماہ قید اور تین سو روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔ منٹو کو اپنی تحریروں پر کل چھ مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ شاید یہی وہ بیج تھا جو ہم نے 1950 میں بویا تھا، جس کی فصل ہم عدم برداشت اور تنگ نظری کی صورت میں آج کاٹ رہے ہیں۔

پچھلے دنوں میں کچھ ایسے دلخراش واقعات رونما ہوئے تو مجھے رہ رہ کر منٹو اور ٹھنڈا گوشت یاد آ گیا۔ کم از کم ٹھنڈا گوشت کے افسانہ کے کردار ایشر سنگھ میں اتنی تو انسانیت تھی کہ اس رکیک اور مکروہ عمل کو کرنے کے بعد ، احساس ندامت سے وہ بھی ایک زندہ لاش اور ٹھنڈا گوشت میں تبدیل ہو گیا۔ اس پاپ کا اس پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ وہ دماغی اور جسمانی طور پر مر گیا، صرف روح نکلنا باقی تھی۔

منٹو کے کردار آج بھی ہمیں اپنے معاشرے میں ہر گلی کوچے میں مل جائیں گے لیکن آج کے معاشرے میں فرق یہ ہے کہ آج احساس ندامت بھی رخصت ہو گیا۔ انٹرویو میں بتایا جا رہا ہے کہ میرا نام محمد طلحہ اور محمد فرحان ہے اور ہم نے اس گستاخ کو جہنم واصل کر دیا ہے۔ اتنی نفرت ہمارے معاشرے میں کہاں سے آ گئی؟

”یہ کون ہیں؟“
”ہجوم ہے۔“
”ہجوم ہے؟ تو کس لیے ؟“
”نبی کے جانثار ہیں!
نبی کے پاسدار ہیں!
نبی کو مانتے ہیں یہ
نبی کے پیروکار ہیں! ”
”نبی میرے رحیم تھے!
نبی میرے کریم تھے!
”یہاں پہ کس کی لاش ہے؟
یہ کون ہے جلا ہوا؟
یہ کون ہے مرا ہوا؟
ہجوم نے جلا دیا؟
رحم جو تھا وہ کیا ہوا؟
کرم جو تھا وہ کیا ہوا؟
یہ کون سا ہجوم ہے؟
وہی جو پاسدار تھا؟
وہی جو جانثار تھا؟
وہی جو پیروکار تھا؟
نہیں۔ نہیں۔ نہیں۔ نہیں!
یہ وہ نہیں! یہ وہ نہیں!
(عدنان جعفری)

ایرانی مفکر علی شریعتی نے صحیح کہا تھا کہ مذہب کے نام پر ہمارے لوگ اتنی عبادت نہیں کرتے جتنی نفرت کرتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments