سانحہ سیالکوٹ۔ ایک چیلنج


یوں تو پاکستان مذہبی انتہا پسندی اور تشدد پسندی کی وجہ سے پوری دنیا میں کافی شہرت رکھتا ہے مگر سیالکوٹ کے المناک سانحہ نے اس شہرت میں اور اضافہ کر دیا کہ رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔ دنیا میں پاکستان کی بدنامی کو مزید پھیلنے سے روکنا حکومت کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس کا تدارک اسی طرح ممکن ہے کہ اس سانحہ کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دے کر تمام دنیا کے سامنے سر خر و ہو۔ اور یہ ثابت کرے کہ وہ تشدد پسندی کو روکنے میں واقعی سنجیدہ ہے۔

وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ تو کیا ہے کہ مجرموں کو سخت سزا دی جائے گی۔ ان کے ساتھ سیاسی و مذہبی جماعتوں، علماء کرام، حکومت، فوج کی طرف سے بھی شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ کچھ مین ماسٹر مائنڈ مجرم اور کئی دوسرے مجرموں کو پکڑا بھی گیا ہے۔ راجکو انڈسٹری کے پروڈکشن مینجر سری لنکن شہری کو بچانے کی کوشش کرنے والے عدنان ملک کی جرات کو سلام۔ ان کی جرات کے اعتراف میں انہیں خصوصی ایوارڈ سے نوازنا حکومت کا ایک اچھا قدم ہے۔

اور عدنان ملک کے دانشمندانہ فیصلے کو سلیوٹ ہے کہ انہوں نے اپنا ایوارڈ پریانتھا کمار کے بچوں اور سری لنکا کے نام کر دیا ہے۔ پاکستان میں ہونے والا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں جس میں توہین رسالت کا الزام لگا کر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہو۔ اس سے پہلے ایک مسیحی نوجوان ہریش مسیح کو سیالکوٹ جیل میں قتل کر دیا گیا تھا اور ثابت یہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ مجرم نے اپنی شلوار کے ناڑے سے خود کشی کر لی ہے۔

توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال سے ذاتی مفادات اور رنجش کا بدلہ لینے اور کچھ کیسز میں جائیداد ہتھیانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پورے پاکستان میں ایسے واقعات کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ جس کی پاداش میں مسیحی بستیاں جلا دی گئیں، چرچوں پر خودکش حملے ہوئے، شیعہ مسلک اور ہزارہ کمیونٹی کو کئی بار نشانہ بنایا گیا جس نتیجے میں ہزاروں بے گناہ موت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ مشہور زمانہ توہین رسالت کا کیس آسیہ بی بی، جسے سپریم کورٹ نے بے گناہ ثابت ہونے پر بری کر دیا۔

گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کر دیا گیا۔ کئی وکیلوں کو عدالت میں ہی قتل کر دیا گیا۔ مشال خان کو اس کے اپنی یونیورسٹی کے ساتھیوں نے تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔ شمع اور شہزاد کو اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلا دیا گیا۔ اس طرح کے واقعات پاکستان کی تاریخ میں بھرے پڑے ہیں جہاں لوگ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں۔ بعد ازیں بنیاد پرست مذہبی فوبیا زدہ ایسے مجرموں کی پشت پناہی کرتے ہیں اور انہیں رسول اللہ کا شیدائی قرار دیتے ہیں۔

یہی لوگ ایسے المناک واقعات کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہونے دے رہے۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ سری لنکن شہری کے زندہ جلانے پر عوام بلکہ ہر طبقہ ہائے فکر کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ زندہ جلائے جانے والا شخص ایک مظلوم غیر ملکی تھا۔ اور دنیا نے اس سانحہ کو باربیرین قرار دیا ہے اور پاکستان سے انصاف کا تقاضا کیا ہے۔ انصاف تو اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے کہ ماضی کو فراموش کرتے ہوئے ایسے واقعات پھر نہ دہرائے جائیں اور مذہبی تشدد پسندی کی روک تھام کے لئے قانون بنائے جائیں تاکہ اس کی جڑ کو ختم کیا جائے جو ملک کے لئے بدنامی، ذلت اور نقصان کا باعث ہے۔

پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کا تصور پاکستان سالمیت، بہتر فلاحی معاشرہ، باہمی بھائی چارہ اور اخوت کا پاکستان تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ مذہب ہر شخص کا اپنا فعل ہے۔ مذہب کا حکومتی امور سے کوئی تعلق نہیں اور پاکستان میں ہر کسی کو اپنے مذہب اور عبادت کرنے کی مکمل آزادی ہوگی۔ مگر بدقسمتی سے قائداعظم کی وفات کے فوراً بعد پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نے ہی مقاصد کے تحت اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بدل کر مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد رکھ دی۔

یوں ہر آنے والے حکمران نے چاہے وہ عوامی تھے یا فوجی حکمران، انہوں نے مذہب کا سہارا لیا۔ صدر ضیاء الحق نے مذہبی جماعتوں کو خوش کرنے کے لئے نظام مصطفی نافذ کرنے کا اعادہ کیا، تعلیمی سلیبس کو مذہبی رنگ دے دیا۔ بریلوی مسلک کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ جس کی وجہ سے شیعہ سنی جھگڑے ہوئے، صوبہ پنجاب کے شہر جھنگ میں سپاہ صحابہ کو مذہبی انتہاپسندی اور فرقہ پرستی پھیلانے موقع ملا۔ رہی سہی کسر 11 ستمبر کے واقعہ نے پوری کردی۔

انتہا پسندی کو مزید پنپنے موقعہ ملا۔ صدر مشرف نے تعلیمی سلیبس میں تبدیلی کرنے کی کوشش کی۔ لال مسجد آپریشن کی وجہ سے خود انہیں اپنے ساتھیوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ حقائق یہ ہیں کہ کسی بھی حکومت نے مذہبی انتہا پسندی اور مذہبی تشدد کے خاتمے کے لئے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھائے۔ اقلیتیں پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہوتی چلی گئیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت میں مذہبی و سیاسی بنیاد پرستوں کا غلبہ رہتا ہے۔

اسلام اور کافر کی شورش بلند ہوتی رہتی ہے۔ اسلامو فوبیا کی رٹ نے بنیاد پرستوں کے حوصلے بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایسے شر پسند عناصر جو جھوٹے الزام لگاتے ہیں۔ جو لوگوں کو جذباتی طور سے اکساتے ہیں اور انہیں قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر ابھارتے ہیں۔ انہیں سزا نہیں ملتی۔ اس کے برعکس مذہبی حلقوں میں انہیں ہیرو بنا دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ توہین رسالت کا الزام لگا کر ، قانون اپنے ہاتھ میں لے کر ، خود ہی الزام زدہ کی موت کا فیصلہ کر دیتے ہیں۔

پچھلے دو مہینوں میں ایک مشتعل ہجوم نے پشاور چارسدہ تحصیل تنگی کے علاقہ مندنی کے تھانہ کو آگ لگا دی اور گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا تھا۔ کیونکہ توہین رسالت کے مجرم کو ان کے حوالے نہ کیا گیا تھا۔ اور اب سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے سری لنکن شہری کو چند شر پسند عناصر کے کہنے پر زد و کوب کیا اور بعد ازیں اس پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی اور زندہ جلا دیا۔ مدعا یہ ہے کہ آخر کب تک۔ پاکستان کب تک دنیا کے آگے جوابدہ ہوتا رہے گا اور کب تک پاکستانیوں کی نظریں دوسروں کے سامنے جھکی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments