مائگریشن کا عالمی مسئلہ اور اس کا مستقل حل


جرمنی سمیت یورپی ممالک کو اس وقت جو مسائل درپیش ہیں ان میں سے ایک بڑا اور نمایاں مسئلہ مائگریشن کا ہے۔ اس کی اہمیت اس بات سے واضح ہے کہ حال ہی میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان، اسی طرح یورپی یونین اور بیلا روس کے درمیان اس مسئلہ پر شدید سفارتی بحران پیدا ہوا ہے۔ نوبت ایک دوسرے پر الزامات لگانے، طے شدہ ملاقاتوں سے انکار کرنے تک پہنچی۔ بعض ممالک یورپ کے خلاف مائگریشن کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔

اس وقت دنیا بھر میں قریباً تیس کروڑ انسان اپنے پیدائش کے ملک کی بجائے کسی دوسرے ملک میں رہ رہے ہیں۔ اس ہجرت کی تعداد کے لحاظ سے سب سے بڑی وجہ معاشی ہے جو کہ کل مائگریشن کا دو تہائی حصہ ہے۔ جنگوں کے باعث آٹھ کروڑ لوگ اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اسی طرح اقلیتوں اور سیاسی مخالفین پر مظالم بھی نقل مکانی کی ایک وجہ بنتے ہیں۔ ذیل کے مختصر مضمون میں مائگریشن کے مسئلہ کی بنیاد، مہاجرین کے خلاف تعصب کی وجوہ، اس مسئلہ پر مغربی ممالک کے مجوزہ حل کی مشکلات اور اس کے حقیقی حل کا ذکر کیا گیا ہے۔

یہ بات ظاہر ہے کہ نقل مکانی ان ممالک کی طرف ہی ہوتی ہے، جو پر امن، بلند معیار زندگی رکھتے اور ترقی کے مواقع مہیا کرتے ہوں۔ تاہم کوئی بھی ملک لا تعداد لوگوں کو اپنے ہاں مدعو کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی ترقی یافتہ ملک اپنی سرحدیں مکمل طور پر کھول دے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ چند ماہ میں کئی ملین لوگ وہاں جانے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ اس صورت میں اتنی ہی تیز رفتار کے ساتھ روزگار کے نئے مواقع پیدا نہیں کیے جا سکیں گے چنانچہ اس ملک میں بے روزگاری میں اچانک اضافہ ہو گا۔

ان بے روزگاروں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے حکومت کو ٹیکس میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ چونکہ نئے مکانات بھی اس رفتار سے تعمیر نہیں کیے جا سکتے اس لئے مکانوں کی قیمت، کرایہ، پھر اسکولوں، ڈاکٹروں، اشیاء خور و نوش غرض بے شمار چیزوں کی مانگ میں بھی اضافہ ہو گا اور مہنگائی بڑھے گی۔ نتیجتاً وہ حکومت غیر مقبول ہو جائے گی۔ یہ اس معاملہ کا اقتصادی پہلو ہے۔

اس سے کہیں زیادہ گمبھیر پہلو معاشرتی ہے۔ ترقی یافتہ مغربی ممالک زیادہ تر سفید فام یورپی مسیحیوں پر مشتمل ہیں۔ جبکہ آنے والوں کی بھاری اکثریت افریقی یا ایشیائی ہو گی۔ اس لئے جب مہاجرین اپنے مذاہب، رسوم و رواج پر عمل کریں گے تو مقامی آبادی کو نہ صرف انہیں برداشت کرنے کا حوصلہ چاہیے بلکہ اسے اپنے معاشرہ میں واضح تبدیلی بھی قبول کرنی پڑے گی۔ مختلف قوموں کے تہواروں، کھانے پینے کے آداب، پیدائش و وفات کی رسومات، شادی بیاہ کے طریق، مرد و عورت کا سلوک، اخلاقیات اور عادات غرض ہر چیز میں فرق ہے۔ ایک ہی بات ایک قوم کے لئے عام، دوسری کے لئے انتہائی غلط اور قابل گرفت جرم ہو سکتی ہے۔ ایک ہی دن ایک قوم کے لئے خوشی اور دوسری کے لئے غمی کا نشان ہو سکتا ہے۔ یہی حال اخلاقیات کا ہے اور ثقافتی امور کا بھی۔ چنانچہ اس فرق کو قبول کرنا نہایت مشکل امر ہے۔

جب تک کوئی اقلیت ناقابل ذکر ہو، اس کو برداشت کر لیا جاتا ہے بلکہ ترقی یافتہ اقوام اسے اچھا سمجھتی ہیں اور اس ”تنوع“ کی حمایت کرتی ہیں۔ لیکن ایک حد کے بعد تعصب ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس امر میں کسی قوم اور مذہب کی تخصیص نہیں۔ نہ ایشیائی مسلمان اقلیتوں کو برداشت کرتے ہیں نہ افریقی مشرک نہ یورپی مسیحی۔ تعصب کی وجہ صرف مذہب ہی نہیں ہوتا بلکہ زبان، قوم، جنس وغیرہ ہر قسم کی بنیاد پر تعصب ممکن اور موجود ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔

اول تکبر۔ اکثریت اور جمعیت اور طاقت کا بھی ایک تکبر ہوتا ہے اور تکبر قدرتی طور پر شراکت کو برداشت نہیں کرتا۔ چنانچہ طاقتور اکثریت کو جب یہ محسوس ہو کہ کمزور اقلیت کسی بھی لحاظ سے معاشرہ میں اس کی حصہ دار بن رہی ہے تو وہ اسے فنا کرنے پر تل جاتی ہے۔ دوئم خود غرضی۔ یہ زندگی کے ارتقاء کے بنیادی محرکات میں سے ایک اہم محرک ہے۔ اسی لئے اقلیت کے خلاف ردعمل اتنا ہی سخت ہوتا ہے جتنا کوئی قوم خود مشکلات کا شکار ہوتی ہے۔

جب کسی کے پاس ضرورت سے زائد کھانا ہو، تو اس میں سے کسی غریب کو دو لقمے دے دینا آسان ہے۔ لیکن اگر وہ خود بھوک میں مبتلا ہو تو پھر یہ قربانی مشکل ہو جاتی ہے۔ اسی لئے خود تنگی برداشت کر کے بھی دوسروں کو اپنے پر ترجیح دینا مومنین کی خاص صفت بتائی گئی ہے : ویؤثرون على انفسھم ولو کان بھم خصاصة یعنی وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، خواہ خود ضرورت مند ہی ہوں (الحشر، 10) ۔

دوسری طرف مغربی ممالک نقل مکانی کرنے والوں کے محتاج بھی ہیں۔ مسلسل اقتصادی ترقی وافر اور سستی افرادی قوت کی مقتضی ہے۔ چونکہ مغربی ممالک کی آبادی کم ہو رہی ہے، اس لئے اس کا حل ایک حد تک تو روبوٹس وغیرہ کے استعمال سے کیا جا سکتا ہے، تاہم افرادی قوت کو درآمد کیے بغیر وہ اپنی معاشی ترقی کو تا دیر قائم نہیں رکھ سکتے۔ حال ہی میں برطانیہ میں ٹرک ڈرائیوروں کی کمی سے جو صورتحال پیدا ہوئی، اس سے ظاہر ہے کہ کس طرح افرادی قوت کی کمی کا اثر ہر شعبہ زندگی پر پڑ سکتا ہے۔

اس صورتحال میں مغربی ممالک نے یہ حل نکالا ہے کہ نقل مکانی تو ہو مگر ایسے لوگوں کو نقل مکانی کی اجازت دی جائے جو مغرب کو مطلوبہ علوم کے ماہر اور ہنر مند ہوں۔ اور ان کی بھی صرف اتنی تعداد کو ہر سال آنے دیا جائے جو کہ معیشت پر اچانک دباؤ کا باعث نہ ہو۔ نیز اضافی شرائط لگائی جائیں کہ مثلاً وہ ملک کے رسم و رواج کو جاننے والے، زبان کی شد بد رکھنے والے ہوں وغیرہ۔ با الفاظ دیگر Fortress Europe کی پالیسی اپنائی جائے گی۔

یعنی یورپ کو ایسا قلعہ بنا دیا جائے جس میں بلا اجازت کوئی داخل نہ ہو سکے۔ جن لوگوں کی ضرورت ہے ان کے لئے قانونی سہولتیں مہیا کی جائیں اور باقی سب کے لئے ناقابل عبور رکاوٹیں۔ اسائلم کا موجودہ نظام جو کہ تاریخی طور پر سوویت یونین کے زیر تسلط مشرقی یورپی لوگوں کے لئے بنایا گیا تھا نہ کہ افریقہ و ایشیاء کے مظلوم لوگوں کے لئے، عملاً معطل کر دیا جائے۔

مجوزہ حل کے تین مسائل

یہ حل بظاہر قابل عمل نظر آتا ہے اور امریکہ و کینیڈا اور آسٹریلیا میں ایک عرصہ سے اس پر عمل بھی ہو رہا ہے لیکن اس میں یورپ کے لئے کچھ مسائل ہیں :

1۔ یورپی ممالک کی بنیاد قومیت پر ہے۔ اس لئے یورپ میں اپنی قومیت، تاریخ، ثقافت کا احساس امریکہ و آسٹریلیا وغیرہ کے مقابل پر بہت زیادہ ہے۔ چنانچہ یورپی ممالک مطلوبہ تعداد میں نقل مکانی برداشت نہیں کر سکتے۔

2۔ آسٹریلیا کے 3، کینیڈا کے 4، امریکہ کے 34 لوگ فی مربع کلومیٹر کے مقابل پر یورپ میں آبادی کا ”فی مربع کلومیٹر تناسب“ کہیں زیادہ ہے۔ نیدرلینڈ میں 511، برطانیہ میں 280، جرمنی میں 234، اٹلی میں 206۔ چنانچہ نقل مکانی سے پیدا ہونے والے معاشرتی مسائل یورپ میں کہیں زیادہ شدید ہوں گے۔

3۔ یورپ باقی دنیا کے ساتھ زمینی طور پر منسلک ہے اس کی سرحد لمبی اور مختلف ممالک سے ملتی ہے۔ پھر مراکش، لیبیا، تیونس، ترکی سے یورپی ممالک کے جزیروں تک چھوٹی کشتیوں کے ذریعہ بھی پہنچا جا سکتا ہے۔ اس وجہ سے یورپ کے لئے نقل مکانی کو کنٹرول کرنا کہیں زیادہ مشکل ہے۔

ہمیشہ سے قومیں ہجرت کرتی آئی ہیں اور آج ہی کی طرح کے مسائل بھی ہمیشہ سے پیدا ہوتے رہے ہیں۔ آنحضور ﷺ نے اس بارہ میں بھی تربیت فرمائی ہے۔

1۔ آپ ﷺ نے عصبیت کو انگیخت کرنے سے منع فرمایا اور اسے جاہلیت قرار دیا۔ کسی گروہ، گروپ، پارٹی، قوم، قبیلہ، طبقہ، صوبہ کی حمایت یا مخالفت میں عصبیت کو استعمال کرنا نہایت غلط حرکت ہے۔ گو وقتی طور پر فائدہ ہو مگر اس کا بد نتیجہ نکل کر رہتا ہے۔ چنانچہ اس بارہ میں بے حد احتیاط کی ضرورت ہے۔

2۔ آپ ﷺ نے انصار کو فرمایا کہ اگر تم ایک گھاٹی میں چلو اور دوسرے لوگ دوسری میں، تو میں تمہارے ساتھ چلنے کو پسند کروں گا۔ یعنی نئے وطن کے طریق اپنانے چاہئیں الا یہ کہ کوئی بات دین کے خلاف ہو۔ ”طریق“ میں زبان، ثقافت، تاریخ، عادات سب کچھ شامل ہے۔ ہر قوم کی بعض خصوصیات ہوتی ہیں۔ کوئی قوم وقت کی پابندی، کوئی محنت، کوئی ڈسپلن، کوئی فنون لطیفہ، کوئی کسی اور بات میں مشہور ہے۔ ان خصوصیات کو، اگر وہ مضر نہ ہوں، اپنانا چاہیے۔ یہی انٹیگریشن ہے۔

3۔ کامل ہجرت۔ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کی ازواج اور خلفاء فتح مکہ کے باوجود مکہ واپس نہیں گئے حالانکہ اہل مکہ مسلمان ہو گئے تھے، حالانکہ آپ ﷺ کے آباء و اجداد، بچپن اور جوانی کی یادیں مکہ سے وابستہ تھیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ خانہ کعبہ وہاں تھا۔ لیکن آپ ﷺ پھر مدینہ ہی کے ہو کر رہ گئے۔

اگر گروہی اختلافات کا مسئلہ حل کر لیا جائے، جو کہ بہت مشکل کام ہے، تب بھی لا محدود مائگریشن کو برداشت کرنا ممکن نہیں۔ پس اس مسئلہ کا حقیقی حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ حقیقی حل اس امر میں پنہاں ہے کہ مائگریشن کی ضرورت یا مجبوری کو ختم کیا جائے۔ اس کے لئے دو امور ضروری ہیں :

1۔ دنیا میں دولت کی ایک حد تک منصفانہ تقسیم۔ دوسرے الفاظ میں زکوٰۃ کا نظام۔ اگر امیر ممالک اپنی اضافی دولت میں سے کچھ حصہ غریب ممالک پر خرچ کریں اور ان کا معیار زندگی ایک حد تک بلند ہو جائے، تو دو تہائی مائگریشن ویسے ہی ختم ہو جائے۔

2۔ اسی طرح اگر طاقتور ممالک اس بات کو یقینی بنائیں کہ قومی، لسانی، مذہبی بنیادوں پر ظلم و ستم کو برداشت نہیں کیا جائے گا، تو اقلیتوں کے حالات بڑی حد تک بہتر ہو جائیں اور ان کو بھی نقل مکانی کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔

کوئی شخص اپنے آبا و اجداد کے وطن، اپنے بچپن کے ماحول، اپنے دوست احباب اور رشتہ داروں کو بلا ضرورت اور بلا مجبوری چھوڑ کر کسی دوسرے ملک، نئی تہذیب، نئے ماحول، نئی زبان بولنے والوں کے درمیان نہیں جا بستا۔ بہت کم لوگ دیگر مقاصد کی خاطر مستقل طور پر اپنا وطن چھوڑنے پر تیار ہوتے ہیں۔ اور جو چند لوگ پھر بھی کسی وجہ سے نقل مکانی کریں ان سے کسی ملک میں معیشت یا ثقافت کی مشکلات پیدا نہیں ہو سکتیں۔ پس مائگریشن کے مسئلہ کا مستقل حل انصاف میں ہے، اقتصادی انصاف اور شہری حقوق میں انصاف۔

مشکل یہ ہے کہ مغربی ممالک اس بات کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ غریب ممالک کا معیار زندگی بہتر کرنے اور انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانے سے یہ مسئلہ حل ہو گا۔ لیکن اس کے لئے ضروری اقدامات اٹھانے سے گریزاں ہیں۔ سعودیہ یا اسرائیل انسانی حقوق پامال کریں تو خاموش رہیں گے۔ غریب ممالک میں ہر سال لاکھوں لوگ بھوکے مر جاتے ہیں، مغربی ممالک کروڑوں کا کھانا سمندر میں پھینک دیتے ہیں مگر ان کو نہیں دیتے کہ ٹرانسپورٹ کا خرچ بہت ہے!

یورپ نے اپنی زرعی پیداوار کاشتکاروں کو پیسے دے کر کم (! ) کر رکھی ہے تاکہ پیداوار زیادہ ہونے سے اجناس کی قیمت نہ گر جائے۔ جب امداد دیتے ہیں تو ساتھ شرائط لگا دیتے ہیں۔ اپنے ہاں جمہوریت کے باوجود دیگر ممالک میں آمریت کو برداشت کرتے ہیں اگر وہاں کا آمر ان کے مفاد میں ہو۔ شام و عراق کے آمر ہوں یا افریقی و جنوبی امریکی ممالک کے، یہ طرز عمل ہر جگہ نظر آتا ہے۔ مسلمان ممالک بھی اس سلسلہ میں مغرب سے پیچھے نہیں۔ اگر امیر مسلمان ممالک صرف اپنی زکوٰۃ کا پیسہ مسلمان ممالک پر خرچ کرنا شروع کر دیں اور انسانی حقوق کی پاسداری کریں تو کم از کم کروڑوں مسلمان مہاجرین کی حد تک تو مسئلہ حل ہو جائے۔

نوٹ: ”جرمنی کے شب و روز“ کے سلسلہ کے مضامین مصنف کے ذاتی خیالات کے عکاس ہیں۔ کسی شخص، ادارہ یا جماعت کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ان مضامین کے متعلق اپنی رائے  پر براہ راست مصنف کو بھیج کر شکریہ کا موقع دیں۔ جزاکم اللہ۔

dawoodmajoka@googlemail۔ com


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments