لاھور چھوٹا ہو رہا ہے


جب سے ہوش سنبھالا حالت سفر میں ہوں۔ کبھی وقت محدود تھا اور کبھی وقت ملا ہی نہیں پھر بھی ہم دونوں سفر میں رھے۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ وقت نکال کر کوئی نہ کوئی تصویر بنا لوں۔ بن بھی جاتی تھی ۔ کیمرے ہر طرح کے تھے میرے پاس۔ کبھی ہوائی تصاویر بذریعہ ڈرون اور کبھی زمینی تصاویر۔ سلسلہ چلتا رہا وقت گزرتا رہا۔ میں نے مصروفیت، آرام پر بھی اپنے عشق کو توجہ دی اور بلاوجہ تصاویر بناتا رہا۔ کم سے کم وقت کا بہترین استعمال کیا۔ دو ہفتے ہوگئے ہیں لاھور میں اس دفعہ اکیلا ہی آگیا ساتھ، بیوی، بیٹی، بھائی ہیں پر کیمرہ نہیں ہے۔ وقت بہت ہے سارا دن فارغ ہی ہوتا ہوں پر تصاویر نہیں بناتا۔ بناوں بھی تو کیسے، لوگ کہتے ہیں لاھور میں سموگ ہے سکول بند کردو، دفتر بند کردو مجھے تو کہیں نظر نہیں آئی بند کمرے میں آئے بھی تو کیسے۔ عجیب فراغت ہے وقت ہی نہیں ہے۔ نہ گوالمنڈی امرتسری ہریسہ کھانے گیا ۔ نہ کسی نے ہر دفعہ والی کہانی سنائی کہ سابقہ وزیر اعظم کے گھر یہاں سے ہریسہ جاتا ہے، نہ بھیا کباب والے کی طرف گیا، نہ شالیمار باغ گیا، نہ جہانگیر کے مقبرے گیا، لاھور بہت بڑا ہوگیا ہے شہر کے اندر فاصلے تیس چالیس کلومیٹر عام سی بات ہے، سارا لاھور ایک طرف اور ڈی ایچ اے ایک طرف ۔ شاید جس لاھور کو میں جانتا تھا ڈیفینس ہاوسنگ اتھارٹی اس لاھور سے بڑی ہے۔ وقت بدل رہا ہے۔ میں نے لوگ بدلتے دیکھے ہیں پر لاھور کے بدلنے پر حیران ہوں۔
لاھور بھی لوگوں جیسا نکلا۔ بیٹی کی پاسپورٹ سائز کی تصویر بنوانا تھی۔ مجھے نہیں سمجھ آرھی تھی کہ کہاں سے بنے گی ۔ کئی دفعہ گوگل کیا پر سمجھ نہیں آئی۔ میری گوگل سرچ کرتی مشکوک حرکات دیکھ کر میرے بھائی وسیم بولے وقت بدل گیا ہے جانی تو پریشان نہ ہو میں صبح بنوا دوں گا۔ مال روڈ اور نسبت روڈ بہت دور ہے تصویر تو خیر بن جائے گی پر میں حیران ہوں لاھور ہو کر بھی میرے پاس وقت نہیں ہے کہ میں نسبت روڈ جاوں۔ نیشنل کالج آف آرٹس لاھور جاوں، لارنس گارڈن کے گول گپے، ربڑی فالودہ کچھ بھی تو نہ یاد آیا اور نہ کہیں گیا۔ بھائی وسیم کہنے لگا چل یار گاڑی چلا ۔ میں نے جب کہا مجھے راستے نہیں آتے گم ہو جاوں گا۔ تو وہ حیران رہ گیا۔ کیونکہ ایک وقت تک میں لاہوریوں سے زیادہ لاھور کو جانتا تھا لوگ مجھ سے لاھور کے راستے سمجھتے تھے اور پوچھتے تھے۔ مجھے راستے بھولنا بھی ہمیشہ سے اچھا لگتا ہے پر جب کیمرہ ساتھ ہو۔ اکیلے نہ مجھے راستے آتے ہیں ہیں نہ ہی گاڑی چلانا۔ بیوی میری پوچھتی رھتی ہے کیا سوچ رہے تھے۔ کیا کہوں۔ بس کچھ بھی تو نہیں کہہ کر بات ٹال دیتا ہوں۔ عجیب بے وفا شخص ہوں۔ وفا نبھانے بھی نہیں گیا ۔ بلکہ شاید لاھور ہی نہیں گیا۔ کتنا عجیب وقت ہے ایک شخص لاھور میں رھتے ہوئے لاھور نہ جائے۔ اب سوچتا ہوں کہ اگر وقت کے حکمرانوں کو فصیل شہر بنانی پڑ جائے تو شاید اس شہر کی فصیل بنانے کیلئے پاکستان کا ٹوٹل بجٹ کم پڑ جائے ۔ فوڈ سڑیٹ تین عدد بنائی گئیں تھیں پتہ نہیں وہ اپنی جگہ پر ہیں یا پھر وہ بھی نئے لاھور شفٹ ہوگئی ہیں۔ کل ڈھونڈتا رہا ۔ انارکلی ڈی ایچ اے، لبرٹی ڈی ایچ اے، بھاٹی گیٹ ڈی ایچ اے، موچی گیٹ ڈی ایچ اے، ٹولینٹن مارکیٹ ڈی ایچ اے، شاہ عالم مارکیٹ ڈی ایچ اے، لکشمی چوک ڈی ایچ اے، یونیورسٹیاں تو بہت نظر آئیں ڈی ایچ اے میں پر نیشنل کالج آف آرٹس ڈی ایچ اے کہیں نظر نہیں آیا۔
شاید میں بہت پرانا ہوگیا ہوں۔ مجھے کھلی سڑکیں، بڑے گھر، دور دور رھتے لوگ پسند نہیں ہیں یہ کیسے فارم ہاوسز ہیں جنکا کوئی تھڑا نہیں ہے جہاں بیٹھ کر گپ شپ لگائی جاسکے۔ سارے ڈی ایچ اے میں ایک فال والا نہیں ہے پر طوطے بہت ہیں۔ ہمارے کچھ دوست سارا دن سوشل میڈیا پر پرانے لاھور کی تصاویر لگاتے ہیں اور اس پر گفتگو کرتے ہیں۔ رھتے وہ نئے لاھور میں ہیں میری ذاتی رائے میں انکو لاھور پر بات کرنے کا حق ہی نہیں ہے اور نہ ہی وہ لاھور کو جانتے ہیں۔پرانے لاھور کو بھی کچھ لوگ اٹلی، ترکی بنانے کے در پر ہیں اور بنائی جارہے ہیں۔ سچ بتاوں پورے ڈی ایچ اے میں ایک بھی تصویر نظر نہیں آئی جہاں احساس ہوتا کہ کیمرہ کیوں نہیں ہے میرے پاس۔ اور اگر میں اس لاھور میں ہوتا جس کو میں جانتا تھا تو شاید سانس لینا مشکل ہوجاتا اپنی بے بسی پر رو پڑتا ۔ بہت دفعہ سوچا کبھی لاھور جاوں پندرہ دن یا مہینے کیلئے اور کسی کو نہ بتاوں نہ ہی کسی سے ملوں بس تصویریں بناوں۔ ساری خواھش مکمل تو پوری نہیں ہوتیں شاید یہ بھی امتحان ہے وقت بہت ہے پر نہ تصویر ہے اور نہ ہی کیمرہ ہے۔ دو نئی آبادیاں ہیں بحریہ ٹاؤن راولپنڈی اور ڈی ایچ اے لاھور میراخیال ہے ایک وقت آئے گا کہ انکی تیزرفتاری سے بڑھتی پلاننگ درمیان کے شہر ختم کر دے گی۔ بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے بعد اگلی آبادی ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی لاھور شروع ہوجایا کرے گی۔ سنا تھا سپنی اپنے بچے کھا جاتی ہے یہ نہیں پتہ تھا کچھ نئی آبادیاں آبادیوں کو کھا جاتی ہیں۔
جس لاھور کو میں جانتا تھا وھاں داخلے کیلئے ٹول پلازہ پانچ روپے راوی پر ادا کرنا پڑتا تھا وہ اب شاید تیس روپے ہوگیا ہے پر نئے لاھور میں کئی جگہ پر آپکو پچاس اور پینتالیس روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ یہ کیسی ترقی ہورھی ہے۔ وقت بےوقت بدل رہا ہے۔ بہت بڑے بڑے گھر اور فارم ہاوسز ہیں پر سب خالی ہیں کیونکہ انکو نہیں پتہ ساتھ والے گھر میں کون رھتا ہے تو پھر ایسے آباد گھر کو خالی ہی سمجھا جائے۔ یہ مسجد چوک ڈی ایچ اے ہے تمام مشہور اور بڑے لوگوں کے جنازے یہاں ہوتے ہیں۔ سوچا پہلے اس کو جناز گاہ کہتے تھے۔ جہاں جنازے ہوتے تھے۔ اب نئے لاھور میں مسجد کہتے ہیں۔ کیا وجہ شہرت ہے۔ وقت بدل چکا ہے بات نماز سے نماز جنازہ تک پہنچ چکی ہے۔ اور لاھورے بے خبرے کھابے کھا رہے ہیں ۔ کوئی تو آواز بلند کرے ختم ہوتے لاھور کو بچا لے ۔ لاہوریوں کا خیال ہے لاھور بڑا ہوتا جارہا ہے۔ اصل میں لاھور چھوٹا ہو رہا ہے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
محمد اظہر حفیظ
Latest posts by محمد اظہر حفیظ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments