فاقہ کش ملازمین


ماں بچہ صحت پروگرام کے کنٹریکٹ ملازمین کی زبوں حالی دیکھ کر دل جلتا ہے۔ میں نے اس سے قبل بھی ان مجبور ملازمین کے حالات کی نشاندہی کی تھی۔ پنجاب بھر کے ان 5 ہزار ملازمین کو بغیر تنخواہ کام کرتے ہوئے 7 ماہ بیت چکے ہیں، جی ہاں صحیح پڑھا آپ نے پورے 7 ماہ، اب ذرا سوچئیے کہ ان ملازمین کی جگہ ہر آپ ہوں تو آپ پر کیا گزرتی۔

ان بیچاروں کے لئے تو ملازمت ایسے ہی ہے جیسے بچوں کے لئے سکول، نئے ریکروٹ کے لئے ٹریننگ سینٹر، کہنے کا مقصد ہے کہ صبح 8 بجے کی ڈیوٹی ٹائمنگ کا مطلب 8 بج کر 15 منٹ کے آگے آپ کی غیر حاضری شمار ہوتی ہے۔ بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے لگائی جانے والی حاضری کا ریکارڈ ہر ضلع کے سی ای او ہیلتھ آفس میں چیک کیا جاتا ہے۔

گاؤں، قصبوں میں فرائض سرانجام دینے والے ان افراد نے ہر قسم کے موسمی حالات کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ ان کی بپتا سنیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ میرے محترم دوست یسین گوپانگ (بانی آل پاکستان گوپانگ اتحاد) نے گزشتہ دنوں ایک قصہ سنایا کہ سکیورٹی گارڈ کے بچوں کو سکول سے صرف اس وجہ نکال دیا گیا کہ اس کے بچوں کے پاس وردی اور جرسیاں نہیں تھیں۔

اسی طرح سے کئیوں کے بچے صرف اس وجہ مار کھا کر آ جاتے ہیں کہ ان کے پاس سکول ورک اور ہوم ورک کے لئے کاپیاں اور سٹیشنری نہیں ہوتی ہے۔ یہ کوئی من گھڑت قصہ نہیں بلکہ اس معاشرے کے ان پسے ہوئے سرکاری ملازمین کی داستان ہے۔ یقین مانیں ان سفید پوشوں کی سفید پوشی کا بھرم نہ ہوتا تو میں باقاعدہ ایک ایک کا نام بمعہ بچے اور ان کے سکولوں کا نام لکھ دیتا۔ مگر ہمارا معاشرہ اتنا ظالم معاشرہ ہے کہ جو مشکل وقت، فاقوں میں تو ساتھ نہیں دیتا۔

مگر آپ کی عسرت کا وہ مذاق اڑاتا کہ جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔ سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ آخر وہ کون سی وجہ کون سی مجبوری ہے کہ اربوں کے بجٹ کے باوجود ان چند ہزار کے ملازموں کو تنخواہیں نہیں ادا کی جاتی ہیں؟ یہ بیچارے چوبیس گھنٹوں میں کسی بھی وقت کسی مہم کے لئے طلب کر لیے جاتے ہیں۔ آج کل پولیو مہم چل رہی تھی جس کے لئے یہی افراد فرائض سرانجام دے رہے تھے۔

صرف یہی نہیں سخت گرمیوں میں گھر گھر جاکر کورونا ویکسی نیشن کا فریضہ بھی انہی مظلوموں نے سرانجام دیا، مگر صلہ ملا تو کیا ملا کہ مہینوں تنخواہ کا انتظار کرنا پڑتا۔ قارئین کے علم کے لئے بتاتا چلوں کہ محکمہ ہیلتھ کی جانب سے بنائے گئے۔ جس میں آر ایچ سی بی ایچ کیو تعینات ایل ایچ وی، آیا سکیورٹی گارڈ، ڈرائیور، و دیگر عملہ تعینات کیا گیا۔ 10 سال پہلے تعینات کیے گئے ان افراد کے کنٹریکٹ میں مزید اضافہ کیا گیا مگر مستقلی کا پروانہ نہ مل سکا۔

اب دس سال کے بعد ان حالات میں کہ 7 ماہ سے تنخواہ بھی نہیں ملی اور حکومت کی جانب سے نوکری سے فارغ کرنے کا پروانہ جاری کر دیا گیا۔ اب پنجاب کو پولیو اور کورونا سے پاک کرنے کے لئے خون پسینہ ایک کرنے والے ان افراد کو 31 دسمبر سے گھر بھیج دیا جائے گا۔ ان ملازمین کی جانب سے گزشتہ دنوں کام روک کر احتجاج بھی کیا گیا۔ مظاہرین نے وزیر اعلی پنجاب سیکرٹری ہیلتھ سے اپیل کی۔

احتجاج کی خبریں سامنے آنے پر رسمی بیان جاری کر دیا گیا۔ جس میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر فوری کارروائی کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ مگر اس نوٹس کو بھی تین دن گزر گئے مگر ابھی تک کوئی پیشرفت ہی نہیں ہو سکی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کیسی حکومت اور ان کے کیسے مشیران ہیں کو جو 10 سال کام کا تجربہ رکھنے والوں کو تو فارغ کرنے چلے ہیں۔ ان کی جگہ پر ظاہر ہے نئی بھرتی کرنی پڑے گی، جن کی نئے سرے سے ٹریننگ بھی کرنے پڑے گی۔

پتہ نہیں حکومت کے پاس ایسے اضافی فنڈز کہاں سے آ جاتے جو ایسے پراسس پر خرچ کیے جائیں گے۔ اس سے بہتر تو یہی ہے کہ انہی تجربہ کار لوگوں کی تنخواہیں بڑھا کر انہی کو مستقل کیا جائے۔ اس سے نہ صرف عوام کے ٹیکسوں کی رقم بھی بچ جائے گی۔ بلکہ ان پہلے سے جانفشانی سے ملازمت کرنے والوں کو بھی جلا ملے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments