سری لنکا سیالکوٹ سانحہ پر تعزیت اور معذرت قبول کرے!


کراچی ہوں ’میرے لیے اطمینان اور بے حد خوشی کا لمحہ یہ ہے کہ کراچی کی رونقیں بحال ہو چکی ہیں‘ کراچی جگمگا رہا ہے۔ لوگ اپنی مرضی کی زندگی میں واپس آچکے ہیں ’کراچی سے خوف کے سائے چھٹ چکے ہیں‘ لوگ اپنی زندگی کو انجوائے کر رہے ہیں ’دوسروں کی مسلط کردہ قید اپنے انجام کو یوں پہنچ چکی ہے‘ کراچی کے شہری یا راقم الحروف کی طرح کراچی کے مہمان جب ’جس وقت‘ اور جہاں چاہیں مکمل آزادی کے ساتھ جا سکتے ہیں ’دن اور رات کی قید نہیں ہے‘ چوک چوراہوں ’چائے خانوں کی رات گئے کی محفلیں بحال ہو چکی ہیں۔

روشنیوں کا شہر دوبارہ حقیقی معنوں روشن ہو چکا‘ معیشت کا پہیہ اپنی رفتار میں آ چکا ہے۔ ملک بھر کے پسے ہوئے طبقات کی آماجگاہ کراچی ’ایک بار پھر بالا امتیاز سب کو اپنی گود میں لینے کے ساتھ محبتوں سے نواز رہا ہے۔ کراچی کے شہریوں کے چہروں پر امن کی چمک عیاں ہو چکی ہے۔ اب کوئی رکاوٹ آپ کے راستہ میں نہیں ہے جو کہ آپ کو اپنے کراچی سے دور رکھ سکے‘ یاد رہے کہ کراچی سے ایک وقت میں یہ اپنا حق ایک وقت میں بزور طاقت چھین لیا گیا تھا۔

بصد احترام ’ایک وقت میں روشنیوں کا شہر کراچی خونی شہر کی مصداق ہو چکا تھا‘ اس کی وجوہات کیا تھیں؟ اس کی نوبت کیوں آئی تھی؟ ریاست ’حکومتیں اور ادارے اس وقت‘ اس تلخ سے بھی بدتر صورتحال میں کہاں تھے؟ کراچی جیسے منی پاکستان ’محبتوں کے امین کو یوں لاوارث کر کے کرائے کے قاتلوں کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑ دیا گیا تھا؟ کراچی کے پڑھے لکھے اور باشعور شہریوں کو یوں خوف کا شکار کیوں کر دیا گیا تھا؟ سوالات تو ذہنوں میں ابھرتے ہیں کہ جو اب کراچی کے لئے کیا گیا ہے؟

اس کو پہلے کرنے میں کیا امر معنی تھے؟ آخر شہر قائد کراچی کو خون کا دریا کیوں پار کرایا گیا؟ کراچی اس سلوک کا حقدار تو نہیں تھا۔ جیسے عرض کیا ہے کہ بات تو آپ سے کراچی جیسے بڑے‘ باشعور اور روشنیوں کے شہر بالخصوص اپنے قائد کے شہر کی عورت کے تین گناہوں کی کرنا چاہتا ہوں کہ کیسے وہ اس جرم کی سزا بھگتتی چلی آ رہی ہے۔ اب تو وہ جیسے کسی شاعر نے کہا کہ زندگی جبر و مسلسل کی طرح کاٹی ہم نے ’نہ جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں کے الفاظ کی حقیقی تصویر بنی ہوئی ہے؟

میرے لیے کراچی کی عورت کی کہانی اسی کی زبانی کرب سے بھری تھی۔ ناقابل یقین تھی کہ ایسا قائد کے شہر میں اس وقت بھی دن دیہاڑے ہو رہا ہے۔ جب قیام پاکستان کو 74 سال ہو چلے ہیں‘ کراچی کی عورت کے تین گناہوں کے جرم کی کہانی اس کی زبانی آپ کے سامنے رکھتا ہوں لیکن اس سے پہلے آپ کی اجازت سے اس بات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کہ کراچی کس لیے آیا ہوں۔ جیسے میں نے عرض کیا ہے کہ کراچی ہوں ’ملک کے مختلف شہروں بالخصوص کراچی آنے کو دل کرتا ہے لیکن اسلام آباد کو چھوڑنا ذرا مشکل ہوتا ہے لیکن کراچی کی خاطر اسلام آباد سے اجازت لینی پڑتی ہے۔

اس بار ایسا تھا کہ نیشنل میڈیا فیلوشپ کے سلسلے میں کراچی منتظر تھا‘ نیشنل میڈیا فیلوشپ کے لئے پاکستان بھر سے 40 صحافیوں کو ایک سلیکشن پراسس کے بعد 25 نومبر سے 5 دسمبر تک ایک ٹریننگ کے لئے کراچی مدعو کیا گیا تھا۔ اس ٹریننگ کا بنیادی مقصد صحافیوں کو Gender Bases violence کے لئے مختلف سیشن کے دوران اپ ڈیٹ کرنا تھا۔ نیشنل کمیشن فار ویمن کی چیئرپرسن نیلوفر بختیار نے اس سلسلے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔

وہ جب سے سے نیشنل کمیشن آن ویمن اسٹیس (این سی ایس ڈبلیو) کی چیف بنی ہیں۔ وہ تسلسل کے ساتھ عورتوں کے حقوق کے لئے ملک بھر میں بھاگ دوڑ کر رہی ہیں۔ نیشنل میڈیا فیلوشپ کی افتتاحی تقریب میں گورنر سندھ اور این سی ایس ڈبلیو کی چیف نیلو فر بختیار سمیت اقوام متحدہ و دیگر متعلقہ اداروں کے سینئرز کی بڑی تعداد موجود تھی ’گورنر سندھ نے اس تقریب میں عورتوں کے لئے ایک اہم اعلان اس وقت کیا جب نیلو فر بختیار نے اپنی تقریر میں جہاں خواتین کے دیگر ایشوز پر بات کی وہاں پر جیلوں میں موجود خواتین کے لئے بھی آواز اٹھائی تو گورنر نے اپنے خطاب میں نیلوفر بختیار کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ان خواتین کی فہرست آپ تیار کروائیں جو کہ اس وجہ سے جیل میں ہیں کہ وہ جرمانہ کی رقم ادا نہیں کر سکتی ہیں۔

وہ ہم ادا کر دیتے ہیں تاکہ ان کو رہائی نصیب ہو‘ جیسے میں عرض کیا تھا کہ آپ کے سامنے کراچی کی عورتوں کے تین ناکردہ گناہوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو کہ ایم پی اے تنزیلہ قمبرانی المعروف شیدی کے تعارف سے پہچانی جاتی ہیں کی زبانی ہے ’لیکن اس وقت ٹی وی چینلوں پر سیالکوٹ میں ہونے والے بدترین واقعہ کی خبریں چلنا شروع ہو چکی ہیں۔ یوں مجھے سیالکوٹ میں سری لنکا کے شہری کے ساتھ انسانیت سوز سلوک نے اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے‘ اس واقعہ نے دنیا کے سامنے پاکستان کے امیج کو ناقابل نقصان پہنچایا ہے۔

پاکستان کا آئین ’قانون بالخصوص اسلامی تعلیمات اس بات کی اجازت نہیں دیتی ہیں کہ کوئی بھی ہجوم اٹھے اور کسی پر الزام لگائے۔ پھر خود عدالت لگائے اور ڈنڈوں اور سوٹوں سے ایک انسان کو قتل کردے‘ ہماری اسلامی تعلیمات اس بات کا درس دیتی ہیں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ’پھر ہم کیسے یہ وحشیانہ روپ دھار کر قتل کی طرف بڑھ سکتے ہیں‘ جو لوگ اس جرم میں ملوث ہیں ’ان کی طرف سے ریاست‘ حکومت کے آئین و قانون کو بری طرح مسترد کیا گیا ہے ’ادھر پاکستانی معاشرہ کی اسلامی اور اخلاقی تعلیمات کو بھی نظر کر دیا گیا ہے۔

سری لنکا کی حکومت بالخصوص مقتول کی والدہ‘ بیوہ اور بچوں کی اس صورتحال میں جذبات کی کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں۔ کمار کی ماں کی کیفیت ایک ماں ہی سمجھ سکتی ہے ’جب اس کے سامنے جیتے جاگتے بیٹے کی بجائے‘ تابوت میں بدترین تشدد کے بعد لاش لائی جائے ’الامان الحفیظ‘ ’یا پھر بیوہ کو تابوت میں لپیٹا گیا سرتاج پیش کیا جائے‘ اس سے بڑی دکھ اور غم کی گھڑی بچوں کے لئے جن کے لئے ان کے بابا کمار نے کھلونے لے کر جانے تھے ’ان کو پہنچنے کے ساتھ اپنے گلے لگا رکھنا تھا۔

اب اس کی لاش ایک تابوت میں پڑی تھی‘ اس جرم میں ملوث افراد نے جہاں کمار کو قتل کیا ہے ’وہاں پاکستان کو دنیا کے سامنے ایسا پیش کر دیا ہے‘ جس کا ہمارا ملک حقدار نہیں تھا۔ ہمارے معاشرے کی اسلامی و اخلاقی تعلیمات اور آئین ’قانون کی موجودگی میں یوں درندہ بن جانا‘ اور ایک شخص کو مار مار ادھ موا کر دینا اور پھر اس کو آگ لگا دینا ’لفظ ختم۔ ہو جاتے ہیں کہ کیسے اس درندگی پر لکھا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments