دھند کی بو


دسمبر کا مہینہ تھا روزانہ کی طرح کام سے فارغ ہو کر ہوٹل کے کونے اس چھوٹے کمرے میں بیٹھ کر چائے پی رہے تھے کہ دھند اور اندھیرا سا چھانے لگا۔ دن کے وقت اس طرح تاریکی تو ہو نہیں جاتا، آخر وجہ کیا ہے، یہ کہہ کر سعد چائے کی پیالی میز پر رکھی۔ خادم اس سے پہلے اپنے حصے کا چائے پی چکا تھا اور یہ دیکھ کر حیرت میں طاری ہو چکا تھا۔ سعد نے جب اسے آواز دی تو خادم کو پتا ہی نہیں چلا گو کہ دونوں ساتھ بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ دوسری مرتبہ اسے ہلا کر باہر جانے کی بات کی، دونوں اٹھ گئے اور باہر چلے گئے، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایسی دھند اور اندھیرا چھا رہی ہے۔

پاس والے پارک کے ساتھ ایک بڑا بلڈنگ جس کے اوپر چمنی میں اکثر دھواں نکلتا تھا چھٹی کے علاوہ روزانہ کا معمول تھا لیکن آج جو دھند چھا رہی تھی وہ غیر معمولی اس لئے تھی کہ اس دھند سے دن کے وقت اندھیرا ہوا تھا، اور لوگوں میں کھانسی اور سانس لینے میں دشواری پیدا ہو رہی تھی۔

ہوٹل کے سامنے راستے پر کھڑے دونوں نے یہ دیکھا کہ دوڑ کر ایک شخص روڈ پار کر کے ان کی طرف آ رہا تھا۔ انہیں صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ جب قریب پہنچا تو یہ ہوٹل کا بیرا تھا جو روزانہ ان کو چائے لاتا تھا۔ سعد اس کی طرف مخاطب ہو کر پوچھا۔ کہاں سے اور کیوں دوڑ کر آرہے ہیں؟ خیر تو ہے۔

بیرا جواب دینے کی کوشش کی لیکن بات نہ کر سکا کیونکہ اس کا سانس پھول رہا تھا۔ ساتھ والے میز پر سے پانی کا گلاس اٹھایا اور ایک گھونٹ پی کر چند سیکنڈ بعد اس نے جواب دی، خیر ہے جہاں سے میں آ رہا ہوں اس سے آگے معلوم نہیں۔

لوگوں کا رش ادھر ادھر پھیل چکا تھا اور وہ اس پارک کے پیچھے بلڈنگ کی طرف جا رہے تھے۔ ہر کوئی کھانس رہا تھا اور سینے پر ہاتھ رکھے جا رہا تھا۔

سعد، حیرت بھری نظروں سے خادم کی طرف دیکھ کر کہا، یار یہ کیا ہو رہا ہے مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ ایسی صورتحال اور کیفیت میری زندگی میں ایک بار بٹوارہ کے دوراں تھا وہ بھی ایسی ایک کیفیت تھی۔ حالانکہ اس وقت میں ایک بچہ تھا لیکن افراتفری، دھواں، فسادات، کشت و خون وہ بھی مذہب کی بنیاد پر، اور نفرت انگیز نعرے ہوتے تھے، آج ابھی تک یہ حالات نہیں لیکن مجھے نہیں معلوم ایسی کیفیت کیوں لگ رہی ہے۔

آج کے دھند میں ایک چیز نمایاں ہے وہ یہ کہ میں اسے نہ خوشبو کہہ سکتا ہوں اور نہ بدبو جو میں نے اسے اپنے زندگی میں کبھی محسوس نہیں کی ہے۔ اور یہ شاید ”دھند کی بو“ ہے۔

میری زندگی میں یہ دوسرا واقعہ ہے۔ ہر وہ حرکات بٹوارہ کے دوران ہو چکے تھے، مجھے وہ حالات آج کی طرح یاد ہیں، آج وہی کیفیت ہے۔ وہی افراتفری، دھند، دھواں اور نفرت انگیز نعرے ایک طرف سب سمجھ آجاتی ہیں، لیکن یہ کالی دھند اب رفتہ رفتہ بڑھ رہی ہے۔

سعد یہ بات سن کر کہا کہ آج سے تقریباً چالیس سال پہلے جب یہاں فیکٹری بننا شروع ہوئے کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس سے اتنی دھند بڑھے گی اور یہ صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ یہ کہتے ہوئے اس کے آنکھوں پر آنسو بھر آئے تو اس نے ہاتھ پھیرا لی کر پونچھ لی۔

خادم نے کہا، یار کام سے ابھی باہر آ گئے ہیں اتنی تھکاوٹ اور آپ نے بٹوارہ یاد دلا کر پرانی زخم ہری کر دی۔ چھوڑو یہ سب چلو چلتے ہیں۔ یہ کہہ کر جب اس کی طرف دیکھا تو اس کے آنکھوں کے اوپر نیچے اور اردگرد کالے رنگ لگے تھے۔ کیا کیا آپ نے؟ سعد نے کہا، کچھ نہیں۔ یہ لو میرا رومال اپنے آنکھوں کو صاف کرلو۔ وہ کیا چیز ہے جس پر آپ نے ہاتھ رکھی تھی اور آنکھوں کی یہ حالت کر دی؟

سعد، اپنے دونوں ہاتھ خادم کی طرف کرتے ہوئے کہا، ہم چائے پی لی اور یہاں آ گئے ہیں۔ وبائی کے دن ہیں لوگوں کی طرح ہم بھی ہاتھ ملانے سے کتراتے ہیں اور ہاتھ زیادہ دھوتے ہیں لیکن یہ کیا ہوا ہے، میں بھی حیران ہوں۔ یہ کہتے ہوئے اس نے آنکھ صاف کرنے کے بعد رومال دوبارہ سعد کو دے دی، اور کہا، چلو چلتے ہیں۔ دیکھتے ہیں یہ کیا ہوا ہے سارے لوگ اس طرف جا رہے ہیں، پھر وہاں سے بس اسٹینڈ میں جاکر کمرہ واپس ہو جائیں گے۔

دونوں یہ کہہ کر روانہ ہوئے اور ساتھ لوگ بھی ہجوم کی طرح جا رہے تھے۔ دھند سے اندھیرا زیادہ ہو رہا تھا۔ لوگوں کی طرح سعد کو بھی کھانسی آئی تو خادم کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ کھانسی کی کیفیت مجھے بھی آ گئی۔ روڈ پر گاڑیوں کا رش بھی زیادہ بڑھ چکا تھا۔

سعد اور خادم چند منٹ چلنے کے بعد ان کو نعرے کا گونج آہستہ آہستہ سنائی دینے لگا۔ لوگوں کی طرح وہ بھی چلنے کا رفتار تیز کر دی۔ لوگوں کی طرح انہیں بھی سانس لینے میں دشواری محسوس ہو رہی تھی اور ہاتھ سینے پر رکھتے اور ہٹاتے چلنے لگے۔

سامنے سے چند لوگ گزر گئے یہ کہتے ہوئے کہ جلدی کرو ہمارا ساتھ دو۔ سامنے چلنے والا شخص پاس والے ایک شخص کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کس طرح لوگ ہیں کہ ایک نعرہ تو لگا سکتے ہیں۔ لگاؤ نعرہ اور آگے چلو۔

جیسے ہی سعد اور خادم ہجوم کے ساتھ ملے غیر ارادی طور پر جب ایک بار وہ نعرہ لگا دی۔ کی ایک ہی سزا، پھر وہ بند نہ کرسکے۔ دونوں زور اور جذبات سے نعرے لگاتے گئے اور بڑے ہجوم کے ساتھ مل گئے۔

اس ہجوم کے تقریباً مرکز سے دھند اٹھ رہی تھی اور لوگ اس کے اردگرد کھڑے ہو کر نعرہ لگا رہے تھے۔ سعد اور خادم آگے چلے گئے لیکن کچھ نظر نہیں آیا۔ لوگ جذبات سے سینے پر ہاتھ رکھ کر کپکپا دینے والی آواز میں نعرہ لگا رہے تھے۔ اور سامنے لوگ یکے بعد دیگرے بیہوش ہو کر گر رہے تھے۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور چند منٹ بعد دوسرے لوگوں کی طرح سعد اور خادم بھی اس ’دھند کی بو‘ کو برداشت نہ کرسکے اور بیہوش ہو گئے۔ ایک وقت گزرا ان کو کچھ پتا نہیں چلا۔

کافی وقت گزرنے کے بعد سعد جو کہ خادم سے پہلے بیہوش ہو چکا تھا اسے ہوش آ گئی، تو دیکھا سامنے وہ مجمع کہیں جا چکا تھا اور چند لوگ وہاں موجود ہیں۔ چند اب بھی بیہوش ہیں، ان میں سے چند کو ہوش آ چکا ہے۔ چند لوگ کھڑے ہو کر اپنے آپ کو دیکھ رہے ہیں، اور چند ابھی اٹھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ ایک عجیب کیفیت تھی جو سعد اپنے اردگرد دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں اسے اپنی حالت اور بدن یاد آئی تو چھو کر ٹٹول لی، اور کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا۔

وہاں موجود سارے لوگ اس دھند کی گرد سے کالے ہو گئے تھے۔ سورج تو پہلے غروب ہو چکی تھی اسی لئے مزید اندھیرا لگ رہا تھا۔ یہ ایک عجیب مخلوق نظر آرہے تھے۔ ہر دوسرا شخص اپنے پاس ہوش یا بے ہوش شخص سے خوف محسوس کر رہا تھا۔ سعد اپنے دوست خادم، جو اب تک ہوش میں نہیں تھا، کو دیکھ کر خوف زدہ ہو گیا اور اس سے کچھ دور کھسک کر بیٹھ گیا۔

سعد کے سامنے اور ادھر ادھر لوگ نظر آرہے تھے، دماغ میں وہ کیفیت، اور ’دھند کی بو‘ آہستہ آہستہ کم ہو رہی تھی۔ اوپر جاکر یہ دھند چاند کی روشنی کو بھی مدہم کر چکی تھی۔ سعد نے اپنے دوست خادم کا چہرہ دوبارہ دیکھا تو وہ کالے اور زرد رنگ کی آمیزش سی بنی ایک خوفناک شکل کی عکس تھی۔ سعد نے اپنے سائیڈ پاکٹ سے رومال نکالی اور اپنے چہرے کو صاف کر کے دیکھ لیا تو رومال زنگ آلود کپڑے کی طرح ہو گیا۔

اتنے میں خادم کو ہوش آئی۔ جلدی سے اٹھ بیٹھا اور پریشان ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ تذبذب کے الم میں ایک نعرہ لگا دی اور پھر خاموش ہو گیا۔ سینے پر ہاتھ رکھ دی۔ ایک ہاتھ سے اپنے بدن کو ٹٹول لی اور ایک ہاتھ زمین پر تھی۔ ہاتھ چہرے سے گزار کر آنکھوں کو صاف کر دی اور فوراً اٹھ گیا۔ اتنے میں اس نے سعد کو دیکھا تو پہلے ڈر گیا، اور پھر کہا، آپ بھی یہاں ہیں۔ سعد نے جواب دی، ہاں۔ خادم نے تعجب سے سوال کیا، یہاں وہ ہجوم اور وہ دھند کی بو۔ سعد آسمان کی طرف دیکھ کر کہا، دھند تو فی الحال اوپر اٹھ چکا ہے اگر ہوا آ جائے تو واپس ہمیں سمیٹ سکتی ہے۔

اتنے میں ہلکی ہوا چلی تو سامنے ایک چنگاری چمک کر اوپر اٹھی تو دونوں حیرت بھری آنکھوں سے دیکھنے ساتھ وہاں چلے گئے اس خیال سے کہ شاید وہ بو، جسے وہ نہ خوشبو اور نہ بدبو کہہ سکتے تھے، ادھر جل کر خاکستر ہو گیا ہے۔ جب قدم آگے جاکر وہاں انہوں نے دیکھا تو اس میں نہ دھند تھا نہ دھواں، اور نہ چنگاری، وہاں کوئی چیز تھی جل کر راک ہو چکی تھی۔

اتنے میں ہوا کی دوسری لہر چلی وہ راکھ کو بھی لے اڑی۔ سامنے ایک ضعیف العمر شخص سعد اور خادم کی حیرت زدہ زندگی کو دیکھ کر ان کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ کچھ سمجھ آیا۔ جب دونوں نے حیرانی سے سر ہلائے تو اس نے جواب دی ”یہ عجیب کیفیت اور دھند کی بو جو آن سیال کوٹ تھی“ اور یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔

الحاج محمد خان
Latest posts by الحاج محمد خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments