آہ! پروفیسر رئیس علوی بھی چل بسے


سڈنی آسٹریلیا کا اس لحاظ سے منفرد شہر ہے کہ یہاں تین دہائیوں سے اردو شعر و ادب کا گلستاں آباد ہے۔ مقامی ادباء اور شعرا ء کا ایک گلدستہ سجا ہے جن کی درجنوں کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ادبی محافل منعقد ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں علاوہ پاکستان اور ہندوستان سے بھی اہم ادبی شخصیات تشریف لاتی رہتی ہیں جن کی وجہ سے ادبی رونقیں جاری و ساری رہتی ہیں۔ قریباً دس برس قبل پاکستان کے شہر کراچی سے مشہور ماہر تعلیم، شاعر، ادیب اور محقق پروفیسر رئیس علوی سڈنی تشریف لائے تو ایسے لگا کہ علم و ادب کا ہرا بھرا گلشن چل کر ہمارے پاس آ گیا ہے۔

ان کے آتے ہی ادبی محفلوں کی رونق دوبالا گئی۔ مختلف ادیب اور شاعر ان سے مستفیض ہونے لگے اور وہ ایک سایہ دار شجر کی طرح ہر خاص و عام کو اپنی چھاؤں میں پناہ دینے لگے۔ وہ آتے ہی سڈنی کی ادبی محفلوں کی جان بن گئے۔ محفل میں چھوٹے بڑے ہر ایک کا احترام کرتے، اسے پوری توجہ سے سنتے اور ہر ممکن حوصلہ افزائی کرتے۔ جہاں ضرورت ہوتی وہاں صائب مشورے سے نوازتے۔ ایسا مشورہ جو ایک مخلص انسان اور سچا ادیب ہی دے سکتا ہے۔

پروفیسر رئیس علوی سے میری ملاقات انہی ایام میں سڈنی میں ہوئی۔ ملاقات کیا ہوئی جیسے شعر و ادب کا دبستان کھل گیا۔ محبت، خلوص اور علم و ادب کے در وا ہو گئے۔ میں پہلی ہی ملاقات میں ان گرویدہ ہو گیا۔ کیا شاندار شخصیت تھی۔ خوش لباس، خوش گفتار، وضعدار اور لکھنوی تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ۔ شخصیت ایسی دلکش کہ بس دیکھتے رہ جائیں۔ گفتگو ایسی دل نشین کہ سنتے رہ جائیں۔ ایسی باغ و بہار شخصیت بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔

یہ ملاقاتیں دوستی اور محبت کے رشتے میں ڈھل گئیں اور بے شمار وقت اکٹھے گزرا۔ اس وقت کا ایک ایک لمحہ میرے لیے انتہائی قدرو قیمت کا حامل تھا۔ کیونکہ پروفیسر صاحب کی شخصیت سے علم و ادب کی خوشبو ہر لمحے مشام جاں معطر کرتی تھی۔ بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ وہ خاموش بھی ہوں تو محفل کی جان بنے رہتے ہیں۔ رئیس علوی کا شمار ایسے ہی افراد میں ہوتا تھا۔ وہ نپی تلی گفتگو کرتے جو ادبی چاشنی سے معمور ہوتی اور الفاظ موتیوں کی طرح ادا ہوتے۔

سب سے بڑی بات یہ تھی کہ نئے ادیبوں اور شعرا ء کی بے پناہ حوصلہ افزائی کرتے۔ جو سڈنی کے لوگوں کے لیے نئی بات تھی کیونکہ یہاں ایسا رواج نہیں ہے۔ ان میں کوئی تصنع اور بناوٹ نہیں تھی۔ جو بھی انہیں مدعو کرتا بلا تکلف چلے جاتے۔ لہذا ان کی دوستی اور شناسائی کا دائرہ بہت جلد وسیع ہو گیا۔ سڈنی کے ساتھ ساتھ وہ نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ کے ادبی حلقوں میں بھی مشہور و معروف تھے۔ کیونکہ ان کی صاحبزادی کا قیام وہاں ہے اور ان کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ آکلینڈ کی ادبی محفلوں کی رونق بھی انہوں خوب بڑھائی بلکہ وہاں ایک ادبی تنظیم بھی قائم کی۔

رئیس علوی 7 مئی 1945 ء کو لکھنؤ ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ انٹرمیڈیٹ تک تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ 1961 ء میں ہجرت کر کے کراچی آ گئے۔ نیشنل کالج سے بی اے اور کراچی یونیورسٹی سے 1965ء میں ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ سراج الدولہ کالج میں لیکچرار کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ بعد میں کراچی یونیورسٹی میں بحیثیت رجسٹرار فرائض انجام دیے۔ وہ متعدد یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر رہے۔ سندھ حکومت کے محکمہ تعلیم کے ایڈیشنل سیکرٹری کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ کراچی کی شہری حکومت میں تعلیم کے شعبے کے سربراہ رہے۔ رئیس علوی دو مرتبہ سندھ بوائز سکاؤٹس کے سیکرٹری جنرل کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر اہم تعلیمی عہدوں پر فائز رہے۔ یوں انہوں نے مختلف حیثیتوں سے ملک و قوم کی خدمت کی اور اپنے وقار میں اضافہ کیا۔

پروفیسر رئیس علوی وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے جاپان کے شہر ٹوکیو کی یونیورسٹی میں چار سال تک تدریس کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ اس دوران انہوں نے جاپان کی سیاحت بھی کی۔ ان کے ادب پر تحقیقی کام کیا اور پانچ کتابیں تخلیق کیں۔ وہ جاپان کے تہذیب و تمدن، ان کے ادب، اور ان کے اخلاق و عادات سے اس حد تک واقف ہو گئے تھے کہ انہیں جاپانی امور کا ماہر کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ انہوں نے جاپان کے سب سے مشہور شاعر OKU NO HOSO MICHI) ) جو ہائیکو کے سرخیل تھے کا سفرنامہ جو عالمی ادب کا شاہکار ہے کا اردو ترجمہ بھی کیا۔

اس کتاب کا نام ہے ”اندرون شمال کا تنگ راستہ“ ۔ یوں جاپان میں رئیس علوی اس قدر مشہور ہوئے جتنے وہ پاکستان میں بھی نہیں تھے۔ لہذا دو برس قبل جاپان کی حکومت نے انہیں اپنا سب سے بڑا سول ایوارڈ عطا کیا۔ رئیس علوی پہلے غیر ملکی تھے جنہیں جاپان نے اس ایوارڈ سے نوازا تھا۔ یہ رئیس علوی اور ان کے خاندان کے ساتھ پاکستان کے لیے بھی اعزاز کی بات تھی۔

پروفیسر رئیس علوی کی کل آٹھ تصنیفات ہیں۔ جن میں چند جاپانی زبان سے اردو میں ترجمے ہیں۔ ان کی شاعری کا مجموعہ ’صدا ابھرتی ہے‘ خاصا مقبول ہوا۔ گویا شاعری، نثر، ترجمہ، تحقیق ان کے ادبی میدان تھے۔ جبکہ تعلیمی شعبہ ان کے کار ہائے نمایاں سے مزین ہے۔ جس مقام، جس ادارے میں اور جس حیثیت سے بھی انہوں نے کام کیا اساتذہ اور طلبا ء سب کو اپنا گرویدہ بنایا۔ یہی وجہ ہے ان کے انتقال کی خبر سنتے ہی دنیا بھر سے ان کے چاہنے والوں کے غم اور دکھ بھرے پیغام دیکھنے کو ملے۔

اہل آسٹریلیا کے ساتھ نیوزی لینڈ کی پاکستانی کیمونٹی نے بھی یہ خبر انتہائی دکھ کے ساتھ سنی۔ پاکستان اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بے شمار تعزیتی پیغامات اور تعزیتی کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ آسٹریلیا میں اس سلسلے میں پاکستان آسٹریلیا لٹریری فاونڈیشن نے سب بڑی تعزیتی کانفرنس منعقد کی جس میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے رئیس علوی کے احباب نے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور ان کے لیے خراج عقیدت پیش کیا۔

گزشتہ دس برسوں میں ڈاکٹر رئیس علوی کا سڈنی میں آنا جانا لگا رہا جہاں ان کے صاحبزادے مقیم ہیں۔ کیونکہ آخر تک وہ اپنے کراچی میں فرائض منصبی ادا کرتے رہے۔ تاہم گزشتہ دو برس سے کرونا کی وبا کی وجہ سے وہ وطن واپس نہ جا سکے۔ حالانکہ گزشتہ چند ماہ سے ان کا من بہت چاہتا تھا کہ واپس کراچی جائیں جہاں انہوں نے اپنی عمر کی چھے دہائیاں گزاری تھیں۔ جہاں ان کے بے شمار احباب اور شاگرد تھے۔ لیکن بین الاقوامی سفری پابندیاں آڑے آتی رہیں۔

جون 2021 میں سڈنی میں کرونا کی دوسری لہر نے سر اٹھا یا تو نقل و حرکت پر سخت پابندی لگا دی گئی جو قریباً چار ماہ تک جاری رہی۔ اس میں کوشش کے باوجود ہماری ملاقات نہ ہو سکی۔ اسی دوران پروفیسر رئیس علوی کی طبیعت خراب ہوئی یہ بیماری سرطان کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ تین چار ماہ تک علاج چلتا رہے مگر وہ جانبر نہ ہو سکے اور دو دسمبر 2021کی رات سڈنی ہی میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اسی سہ پہر سڈنی کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند عطا فرمائے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments