مجاہد کی اذان (2)


حضرت بہلول دانا بغداد کے رہنے والے اولیاء عظام میں ایک ممتاز مقام کے حامل تھے، بادشاہ وقت کی خواہش رہتی تھی کہ بہلول بادشاہ کو ملاقات کا وقت عطا کر دیں مگر بہلول ہمیشہ کنی کترا جاتے تھے، جہاں میں اہل اللہ کا ہمیشہ یہ وتیرہ رہا ہے کہ جب وہ فنا فی اللہ کی منزل میں ہوتے ہیں تو جذب و مستی کی کیفیات ہوتی ہیں، جب مالک جہاں سے تار جڑ جائے تو فانی دنیا کی محبت کی کیا مجال کہ دل میں گھر کرے، جب مالک حقیقی کی محبت کی مے پی لئے جائے تو ارضی دنیا کی شراب میں بھلا وصل و سرور کی لذت کیسے ملے، اہل اللہ کے نزدیک تو دنیا کی حقیقت مچھر کے پر جتنی بھی نہیں ہوتی تو بھلا جہانوں کے بادشاہ کے سامنے جو کا سہ گدائی پھیلا دیں وہ حاکم وقتی کے سامنے سر جھکا دینے کی بجائے کٹا دینے میں راحت محسوس کرتے ہیں۔

ان کی منزل سراب نہیں ہوتا جو حقیقت کے متلاشی ہوتے ہیں۔ جو رضائے الہی کے خوگر ہوں وہ کھنکھناتے سکوں کی جھنکار کو راہ کھوٹی کرنے کا ذریعہ اور شیطانی وسوسے اور مکر و فریب کا جالا سمجھتے ہیں۔ تو میں حضرت بہلول کے بارے میں بتا رہا تھا، آپ بادشاہوں کے دربار میں حاضری دینے کو وقت کا ضیاع اور جھوٹی خوشامد سے تعبیر کرتے تھے، ایک دن یوں ہوا کہ بادشاہ محل کی چھت پر بیٹھا تھا تو اس نے حضرت بہلول کو شاہی محل کے قرب سے گزرتے دیکھا تو خدام کو حکم ہوا کہ کمند ڈال کر بہلول کو محل کی چھت پر کھینچا جائے اور بادشاہ کے حضور پیش کیا جائے، حکم حاکم آنا فانا تعمیل کی گئی، جب حضرت بہلول کو حضور شاہی میں پیش کیا گیا تو بادشاہ نے سوال کیا بہلول اپ بتائیں اپ کو قرب الہی کیسے حاصل ہوا یا دوسرے الفاظ میں حضوری کا مقام کیسے حاصل ہوا۔

حضرت بہلول بہت نڈر اور حاضر جواب تھے فی البدیہ فرمایا جیسے تم تک پہنچا۔ بادشاہ نے حیرانی سے پوچھا وضاحت کریں۔ حضرت بہلول مسکرائے اور یوں گویا ہوئے، اگر میں خود تم سے ملنے کی تمنا رکھتا تو نہا دھو کر خلعت فاخرہ زیب تن کرتا، پھر دربان کی منتیں کر کے محل کے اندر داخل ہوتا اور تم سے ملنے کی درخواست پیش کرتا، مگر آگے تمہاری مرضی اور مزاج پر منحصر تھا کہ تم ملتے یا صاف انکار کر دیتے۔ میری درخواست رد کر دی جاتی اور شرف باریابی نہ بخشا جاتا بھلے کتنا وقت گزر جاتا مگر آپ کی منشاء کے آگے ایک بھی نہ چلتی۔ جب کہ تم نے مجھے بلانا چاہا تو محض کچھ لمحوں میں ہی اپنے سامنے بلا لیا، تو جب اللہ تبارک و تعالی کو کسی کی کوئی ادا پسند آتی ہے تو اسی وقت بلا تاخیر قرب کی وہ منزلیں طے کروا دی جاتی ہیں جو بڑے بڑے عابدوں کو طے کرنے میں شاید زمانے گزر جائیں۔ مگر وہ سوائے رشک کرنے کے کچھ نہ کر سکیں۔

یہ میرا ذاتی ماننا ہے کہ انسان بھلے کتنا طاقتور اور شاہی اختیار کا حامل ہو تو 1س کے اختیار اور بساط محدود اور حدود و قیود ہیں جبکہ مالک حقیقی جو قادر مطلق ہے جس کے اختیار ات کی انتہا نہیں جو زمین و آسمان، عرش و کرسی، جنت و دوزخ، فنا و بقا ء غرض کہ تمام موجودات، جمادات، نباتات، جن و بشر، حور و غلمان کے ساتھ ساتھ تمام جہانوں کا مالک ہے جس کے اشارے کے انتظار میں کروبیاں (یعنی فرشتے ) اور ملائکہ قضا و قدر ہمہ وقت سر تقدیس جھکائے کھڑے ہوتے ہیں، ۔

اللہ رب العزت جب چاہے اور جس کو چاہے مقبول بارگاہ بنا دے اپنے آج کے موضوع کی طرف آتا ہوں، ساتویں صدی ہجری میں خوارزم شاہی سلطنت اس وقت کی اسلامی دنیا کی سب سے مضبوط اور دفاعی طاقت کے طور پر اپنا اپ منوا چکی تھی۔ سلطان علاؤ الدین نے دفاع کو اتنی اہمیت دی کہ دو دریاؤں سیحوں اور جیحوں کے درمیان فصیل بند شہروں کا دفاعی حصار بنا کر رکھ دیا تھا، ان شہروں میں سامان جنگ کے علاوہ ہر قسم کے اناج، غلے اور ضروریات زندگی کی اشیاء کی وافر مقدار کو محفوظ رکھ دیا گیا تھا تاکہ بوقت ضرورت کسی کمی یا قلت کے مسائل سے دوچار نہ ہونا پڑے۔

ان شہروں میں سمرقند، بخارا، ترمذ، بلخ اور قوقند جیسے عالیشان شہر موجود تھے اور سارے شہر کسی ابتلا یا مصیبت کی صورت میں فوری ایک دوسرے کو کمک اور مدد بہم پہنچاتے تھے۔ اب ایک چیز ؑاپ ذہن میں رکھیں کہ قوموں کی زندگی میں بغیر منصوبہ بندی کے صرف بھیڑ چال ہوتی ہے، بام عروج کی منزلوں پر متمکن ہونا از حد مشکل ہوتا ہے، جس سلطنت میں بغیر کھونٹے سے اونٹ باندھے صرف توکل پر کام ہو وہ قومیں ہمیشہ مجبور و مقہور اور دوسروں کے نان جویں پر تکیہ رکھے امید و بیم کے درمیان زندگی گزارتی ہیں، دینے والے کی مرضی ہوتی ہے کیا دے اور کتنا دے، دست سوال دراز کرنے والے کا اختیار نہیں ہوتا کہ اپنی بات منوا سکے کہ اس کے کشکول میں چاندی کے سکوں کی کھنک مدھرتا بکھیرے گی یا کھوٹی دوانی کا بے معانی شور گونجے گا، تو میں بات کر رہا تھا سلطنت خوارزم کی زرعی اور معاشی خوشحالی کی تو ملک کی اکثریتی آبادی زراعت پیشہ تھی، سلطنت فلاحی ریاست کے طور پر مسلسل منصوبہ بندی میں مصروف کار رہتی تھی، دریاوں کی زرخیزی سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی خاطر زیادہ سے زیادہ نہروں کا جال بچھایا گیا تاکہ قابل کاشت اور نقد آور فصلوں کے جھومر زمین کے ماتھے پر سجائے جا سکیں۔

فصلوں اور میووں کی بہتات اور معاشی خوشحالی نے دہقانوں کی خوش خرامیوں میں اضافہ کر دیا تھا۔ اس دور میں لاکھوں کی آبادی والے شہروں میں آبپاشی کا نظام اس قدر منظم طریقے سے ترتیب دیا گیا تھا کہ کہیں پانی کی دستیابی میں کمی کا مسئلہ درپیش نہ ہوتا تھا اور نہ وسائل کی کمی کا رونا رویا جاتا تھا، عمال حکومت اپنی سلطنت سے مخلص تھے اور سلطنت ماں سے بڑھ کر عوام پر مہربان تھی، بلا جواز ٹیکسوں کا بوجھ رعایا پر نہیں ڈالا جاتا تھا اور نہ مہنگائی کا عفریت ہر وقت خلق خدا کو نگلنے کو تیار رہتا تھا، نہ جھوٹی امیدوں کے محل تعمیر کیے جاتے تھے اور نہ سرابوں سے منظر کشی کی جاتی تھی، اور نہ ان خوابوں کے ریزہ ریزہ ہونے پر ان کی کرچیاں آرزوں کے خرمن کو جلاتی چلی جاتی تھیں، کسی بھی ملک کے نظام سے مماثلت اتفاقیہ ہو گی، تو میں عرض کر رہا تھا کہ ہمہ وقت سیرابی سے زمین اس قدر بار آور تھی کہ سلطنت کے طول و عرض میں طرح طرح کے غلوں، کپاس اور اناج کی بہتات تھی۔

وسیع چراگاہوں کی وجہ سے زمین پر ہریالی کی چادر تنی تھی اور آسمان مہربان تھا۔ چہار اطراف خوشحالی اور فارغ البالی کا دور دورہ تھا۔ سرحدی علاقوں میں پھلوں کی اس قدر کثرت ہوتی تھی کہ اندازہ لگانا از حد محال۔ قوقند کا تربوز اتنا بڑا، رسیلا اور وزنی ہوتا تھا کہ ایک طاقتور گدھا بمشکل 2 تربوز اٹھا سکتا تھا۔ انار ترشی آمیز مٹھاس سے لبریز ہوتے تھے اور ان کا رس بطور خاص مشروب پیا جاتا تھا، ملک میں ہر طرف تاجروں کی ٹولیاں قسما قسم کی تجارت کے لئے قافلوں کی صورت میں رواں دواں رہتی تھیں، حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی تھی کہ ان کے جان و مال کی حفاظت کو ہمہ وقت یقینی بنایا جائے، اور گنج کے ماہر فن تیر، تلوار، ڈھالیں، ریشمی پارچہ جات اور قالینوں کی تجارت میں درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے، اودھ بلاؤ کی کھال کی ٹوپیاں اور پہاڑی لومڑی کے کھال کی پوستین یہاں کا خاص تحفہ شمار کیا جاتا تھا، یہاں کے شکاری باز پکڑ کر سدھایا کرتے تھے اور مہنگے داموں فروخت کر کے معاشی آسودگی پاتے تھے، سمر قند میں گھوڑوں کی زینیں، رکابیں اور لگامیں بنانے کے کارخانوں کا جال بچھا تھا جب کہ تانبے سے برتن بنانے کی صنعت اپنے بام عروج پر تھی، یہاں کی نفیس و نازک صراحیاں اپنی مثال آپ تھیں جب کہ سفری خیمے بھی بہت مضبوط اور معیاری تیار کیے جاتے تھے، اس دور میں چین کے بعد دنیا میں سب سے نفیس اور اعلی کاغذ سمر قند میں تیار کیا جاتا تھا، سارے عالم اسلام میں اس کاغذ کی دھوم مچی تھی جس کو اہل علم ہاتھ کے ہاتھ لیتے تھے جبکہ سمرقند کے ماہرین نے اعلی کاغذ سازی کے فن کو چینی استاذہ سے سیکھ تھا الغرض سلطنت کی طرف سے صنعت و حرف کے فروغ اور وسائل کی باہم رسانی اور فراوانی نے ملک میں علوم و فنون کو ترویج دینا شروع کر دی، اور پھر اس کو بام عروج پر پہنچا دیا، اور ایسا بھلا کیوں نہ ہوتا کیوں کہ تاجروں کو نہ تو لٹنے کا ڈر تھا، نہ چھننے کا خوف، نہ معاشی بدحالی اور نہ سٹاک مارکیٹ کے کریش ہونے کا ڈر۔

تو ایسے آسودہ ماحول میں پھر کیوں نہ بڑے بڑے عالم بے بدل اور ماہر حرف فن پروان چڑھتے کیونکہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ غربت اور بدحالی بڑے بڑے ہنر مندوں کو کا سہ گدائی پکڑا دیتی ہے، پھر نہ عزت باقی رہتی ہے، نہ حرمت اور نہ فن کی داد، پھر امتداد زمانہ کا شکار ہو کر پتلا خاک پھر تہ خاک چلا جاتا ہے پھر ان کی مہارت زنگ آلودہ ہو کر قصہ پارینہ بن جاتی ہے۔

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments