ماں


دسمبر کو اداسی اور غم کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے اور شاعروں نے دسمبر کی اداسی کو اپنی اپنی شاعری میں مختلف انداز میں بیان کیا ہے اس کا خلاصہ عشقیہ غزلوں گیتوں اور مختصر شعروں پر مشتمل ہوتا اور اب سوشل میڈیا پر دسمبر سے پہلے ہی دسمبر کا ذکر شروع ہو جاتا ہے نامی گرامی شاعروں نے اپنی شاعری میں دسمبر کے دن اور راتوں کے سناٹے کو خوبصورت الفاظ کے خزانے کے ساتھ سجایا ہے۔ لوگ بھی دسمبر میں نئے اشعار کا انتخاب کرتے ہیں اور کئی شاعری سے ہی اپنے دل کو بہلاتے ہیں ایسے میں ہم بھی ہر سال دسمبر میں اداس اور غمگین رہتے ہیں یہ ایسا غم ہے جس کی کوئی تسلی بھی نہیں جس کی کوئی حد بھی نہیں جسے کسی خوشی کے بہانے بھلایا بھی نہیں جا سکتا نہ ہی اس غم کو زندگی کی کوئی آسائش اور نہ ہی موت کی دستک ختم کر سکتی ہے۔

دسمبر میں لوگ اپنی دنیاوی محبتوں کو شاعروں کے دلفریب نغموں سے لبھاتے ہیں اور ہم اپنی سسکتی روح کے ساتھ ہر صبح انکھوں سے گرتی ہوئی غموں کی لہروں کا سامنا کرتے ہیں کیونکہ دسمبر ہی ہماری ماں کو لے گیا ویسے تو شاعر نے کہا ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے پر ماں کی موت ہمیں جدائی کی ایسی گہرائی میں پھینک گئی کہ جہاں سے واپسی کے سارے راستے معدوم ہو چکے۔ بہت کوشش کی کہ ماں کے حوالے سے لکھتے ہوئے ابتدا ایسے الفاظ سے کروں جو دلوں کو چھو جایں بہت کچھ کھنگالا ماں کے حوالے سے بہت کچھ پڑھا لیکن کچھ بھی دل کو نہ لگا اور ایسا کوئی لفظ نہ ملا جو ماں کے رتبے کے مقام کے قریب تر بھی ہو نامور شاعروں کا ماں پر کلام بھی بہت کم تر لگا تو پھر اللہ نے دل کی تڑپ اور بے چینی کو خود ہی اس خیال کے ساتھ ختم کر دیا کہ پگلے ماں کے لفظ کے ساتھ کسی کا کیا مقابلہ ہے ماں لکھ کر شروع کر دو تو ماں تمہارا ہاتھ کو پکڑ کر تمہاری انگلیوں کو ایسی جنبش دے گی کہ الفاظ تمہارے غلام بنتے جایں گے اور تمہیں ایسا ہی محسوس ہو گا کہ ماں نے دنیا سے جانے کہ بعد پھر سے تمہاری انگلی پکڑ لی ہے اور تمہارے لڑکھڑاتے قدموں کو اکھڑنے نہیں دیا اور پھر ایسا ہی لگا کہ میرے بے جان جسم میں روح یکجا ہونا شروع ہو گئی اور میں سوچ رہا ہوں کہ انسان بڑی سے بڑی تکلیف میں بھی یا اللہ کو یاد کرتا ہے یا پھر ماں کی دعاؤں کا طلب گار رہتا ہے والد محترم جناب رفیق احمد باجواہ نے ماں کی محبت میں روشن سائے کے نام سے کتاب بھی لکھی لیکن ان کے دو فقرے جو وہ اکثر کہتے تھے کہ ماں کسی کی دو نہیں ہوتیں اور جب میری ماں مجھے پیار کر رہی ہوتی ہے تو مجھے ایسے لگتا ہے کہ اللہ مجھے پیار کر رہا ہے اور آج مجھے اپنی ماں کا ایثار عاجزی اور قربانی تو یاد آ ہی رہی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ والد صاحب کی روشن سائے کے نام سے لکھی ہوئی تصنیف کے نام پر فلاحی تنظیم اس لیے قائم کی کیونکہ اس میں ماں کے رشتے کی خوبصورتی ماں اور معاشرے میں کردار اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی کہ ایک ماں کس طرح پیدا ہونے والی اولاد کو گھر سے معاشرے میں کھڑا کرتی ہے روشن سائے میں لکھی ہوئی چند باتوں کو اس تحریر میں لانا ضروری ہے تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جا سکے کہ معاشرے کی بہتری کے لیے سب کو کس سطح پر سوچنے کی ضرورت ہے چند اہم نکات حاضر خدمت ہیں۔

اگر جنت کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس میں دودھ کی نہریں بہتی ہیں تو ہر ماں میں بچے کے لیے جنت ہے۔ ہر ماں اور اولاد کے رشتہ معصوم ہی کا فیض ہے کہ ہر چند مائیں خوبصورت نہیں ہوتی پھر بھی کسی کو اپنی ماں بد صورت نظر نہیں آتی۔ اس بات کو آگے بڑھانے کی جسارت کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ نے دنیا کی ہر ماں کی سیرت کو روحانی طور پر اولاد کے لیے خوبصورت بنایا ہے جب سیرت خوبصورت ہو گئی تو اس کے اثرات چہرے پر خوبصورتی کے ساتھ نمایاں ہو گے کیونکہ کسی بھی انسان کا چہرہ اس کی اندرونی کیفیت کا پتہ دیتی ہے اگر اندرونی کیفیت میں تضاد ہو تو وہ ماں کا روپ نہیں ہوتا ماں کی خوبصورت سیرت ہی اولاد کی بہتر تربیت کا پہلا محور ہوتی ہے۔

پھر مزید لکھا جو لوگ ماؤں کے نافرمان ہوتے ہیں وہ آہستہ آہستہ اللہ کے نافرمان ہو جاتے ہیں۔ ماں کی آنکھ سے چھلک ہوا آنسو بحر اوقیانوس سے گہرا ہوتا ہے ماں روئے تو کائنات محسوس کرتی ہے کہ طوفان نوح لوٹ آیا ہے۔ ان ہی چند باتوں کو سامنے رکھتے کسی بھی معاشرے کی بہترین بنیاد رکھی جا سکتی ہے روشن سائے تنظیم بھی معاشرے کے ہر فرد کے لیے ماں کا رول ہی ادا کر رہی ہے اور اسی بنیاد پر اللہ کی مدد بھی سے کئی ایسے کام بھی ہوئے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا اگر معاشرے کا ہر فرد ماں اپنی مان کے جذبے کو سامنے رکھتے ہوئے معاشرے میں کردار ادا کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا قدم کامیابی کی منزل کی جاب نہ جائے ماں پر لکھتے ہوئے الفاظ تو کم نہیں پڑتے لیکن ہم سب انتظامیہ کی پالیسی کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا اشد ضروری ہے جی تو میں لکھ رہا تھا کہ مجھے وہ مائیں بھی یاد ہیں جنہوں نے مجھے زندگی میں کئی کچھ سکھایا کسی نے اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا تو کسی نے گاؤں کی تپتی دھوپ میں مجھ پر پیار کی چھاؤں کی کسی ماں نے میرے مستقبل کا سوچا تو کسی نے چرخہ چلاتے اس کی آواز اور دھاگے کی لڑی کے رشتے سے آگاہ کیا دوستوں کی ماؤں نے بھی بیٹوں جیسی محبت سے نوازا اور اپنے خاندان کا فرد ہی جانا بلکہ اپنے سگے بیٹوں سے زیادہ اہمیت دی اپنی ماں تو جو جذبہ رکھتی ہے اس کے برابر تو دنیا کی کوئی شے نہیں لیکن اللہ جسے بھی ماں کا روپ عطا کر دیے وہ معاشرہ پر اللہ کا ایک سب سے بڑا احسان ہوتا ہے ورنہ جہاں صرف بیوی کا روپ ہی برقرار رہتا ہے اس گھر میں سکون اور محبت ناپید ہو جاتے ہیں مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اللہ نے سب ماؤں کے دلوں کو ایک جیسا ہی بنایا ہے۔

ویسے تو ماں اور باپ دونوں ہی انسان کی زندگی کے ستون ہیں لیکن اس میں انسان کے کردار کی تربیت میں ماں کا جذبہ بڑا ہوتا ہے۔ اللہ نے ماں کو جو رتبہ دیا ہے وہ صرف انسانوں میں ہی نہیں ہر چرند پرند حیوانات کو بھی عطا کر رکھا ہے بلکہ بعض دفعہ تو ان کے کے ایسے روپ سامنے آتے ہیں کہ ماں کی اپنے بچوں کی دیکھ بھال اور حفاظت دیکھ کر انسان بھی رشک کرتے ہیں ماں کا کوئی بھی روپ ہو اس کی انکھوں میں چمک اور معصومیت دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی اور کوئی ایسا انسان نہیں جس کے لیے ماں نے ہاتھ اٹھائے ہوں اور وہ گہرائی سے نکل کر زندگی میں بلند ترین مقام تک نہ پہنچا ہو ایسے ہی میری ماں نے مجھے ہمیشہ آغوش میں لیے رکھا اسے پتہ تھا میں نادان ہوں مجھے کچھ علم نہیں میں دنیا کے جبر کا مقابلہ نہیں کر سکوں گا ماں کے علم تھا میں مکر و فریب کے اس معاشرے کیسے زندگی گزاروں گا تو اسی لیے مجھے اگر باپ نے طاقتور کے سامنے کھڑا ہونا سکھایا تو ماں نے عاجزی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کا سبق دیا باپ نے معاشرے کے جبر کا مقابلہ کرنا سکھایا تو ماں نے تند و تیز ہواؤں سے بچنے کے راز بتائے باپ نے کردار سے کامیابی کو حاصل کرنے کے گر سکھلائے تو ماں نے محروم طبقے کے لیے سب کچھ کر گزرنے کو روح کی خوشی قرار دیا باپ نے معاشرے میں کھڑا ہونا سکھایا تو ماں نے خاموشی کو زندگی کا اہم جز بتایا باپ نے کسی سے ملنے اور محفل کے آداب اپنے عمل سے سکھلائے تو ماں نے زبان کے نکلے ہوئے ٹوٹتے لفظوں کو زندگی دی باپ نے زمانے میں زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کیا تو ماں نے روح تک ایسی تربیت کی کہ غرور تکبر اور خوشامد کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا نہ دنیا کی آسائشوں کی پرواہ رہنے دی اور نہ ہی خواہشات کا غلام بنایا ماں نے جو بتایا پہلے اپنے عمل سے ثابت کیا وہ عاجزی صبر کا ایسا نمونہ تھیں کہ ان کی ہمارے لیے دعا ہاتھ اٹھتے ہی اللہ کی بارگاہ میں قبول ہو جاتی۔

ماں نے اپنی زندگی تو اولاد کے لیے وقف کر دی اب میں ذاتی طور پر ان کی دی ہوئی تربیت پر کس حد تک پورا اتر سکا ہوں اس کا تو مجھے علم نہیں جو میں نہیں کر سکا اس کا ماں سے معافی کا طلب گار ہوں آپ اللہ کے پاس ہیں اور میرا بھی ہر معاملہ اللہ کے حوالے ہے ماں نے اولاد کی صرف دنیا میں ہی ذمہ داری نہیں اٹھائی بلکہ آخرت میں سرخرو ہونے کی تربیت بھی کی وہ چاہتیں تو زندگی کو غرور اور تکبر کے ساتھ بھی گزار سکتیں تھیں لیکن ایسی خواہشات کو پاؤں تلے کچل دیا اور صبر کا وہ سبق دیا کہ ماں کے دنیا میں نہ ہونے پر بھی وہ جسم میں رچ بس گیا بس اگر صبر کا دامن ہاتھ میں نہیں رہتا تو ماں تیری جدائی ہے بتاؤ کیسے صبر کروں زندگی میں اپ کے بغیر کیسے گزارہ کرنا ہے یہ بھی بتا دیا ہوتا مجھے تو کہا تھا جلد گھر چلیں گے پر مجھ نادان کو کیا معلوم تھا کہ وہ اللہ کے حضور پیش ہونے کا ارادہ کر چکی ہیں ورنہ اللہ کو اس کے پیاروں کا واسطہ دیے کر روک لیتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments