بوڑھوں سے تعصب


بہت پہلے کی بات ہے کراچی پریس کلب کے ایک صدر ہوا کرتے تھے، حضور احمد شاہ، اتنی پیاری اور خوش باش شخصیت شاید ہی کسی پریس کلب کو نصیب ہوئی ہو۔ کام وہ ڈان اخبار میں کرتے تھے اور ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ میں اور لالی ( لالہ رخ انصاری) اپنے انقلابی اور سیاسی جنون کے باوجود پریس کلب کے ثقافتی پروگراموں میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ ایک دن لالی نے بتایا کہ ہندوستان سے ایک گلوکارہ غالباً اس کا نام سجاتا تھا، پریس کلب میں گلوکاری کا مظاہرہ کر رہی ہے اور گاتے گاتے وہ تقریباً رقص کرنے لگتی ہے۔

اس زمانے کے لحاظ سے یہ تھوڑی انوکھی بات تھی۔ ایک رات ہم بھی پریس کلب پہنچے۔ اچھی اور خوبصورت گلوکارہ تھی لیکن اس کی گلوکاری سے زیادہ مزا شاہ صاحب پر طاری وجد کی کیفیت اور داد دینے کے انداز پر آتا تھا۔ پریس کلب کی رونقیں اپنی جگہ لیکن ڈان اخبار میں نوجوان صحافیوں نے شور مچایا ہوا تھا کہ شاہ صاحب کو ریٹائر ہو جانا چاہیے بقول ان کے وہ نوجوان صحافیوں کی ترقی کا راستہ روک کر بیٹھے ہوئے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اب وہ نوجوان صحافی بوڑھے ہو چکے ہیں اور شاید آج کل کے نوجوان ان کے بارے میں وہی کہہ رہے ہوں گے جو وہ کبھی شاہ صاحب کے بارے میں کہتے تھے۔

یہ باتیں ہمیں کل آرٹس کونسل میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے بارے میں تین جلدوں پر مشتمل کتاب ”سورج پر کمند“ کی تقریب رونمائی میں وسعت اللہ خاں کی بات سن کر یاد آئیں۔ وسعت کا کہنا تھا کہ ساٹھ سال سے اوپر کی عمر کے سارے سیا سی کارکنوں کو گھر بیٹھ جانا چاہیے اور نوجوانوں کے لئے جگہ چھوڑ دینی چاہیے۔ اپنی باری آنے پر میں نے صرف اتنا کہا ”کسی بھی ٹیم یا پارٹی کی کامیابی کا انحصار نوجوانوں کی توانائی اور بوڑھوں کے تجربے پر ہوتا ہے۔“

وسعت نے کوئی نئی بات نہیں کہی، ہمارے معاشرے میں بوڑھوں کے لئے یہی کہا جا تا ہے کہ اب یہ ان کی اللہ اللہ کرنے کی عمر ہے اور انہیں کچھ اور نہیں کرنا چاہیے۔ جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ اس عمر میں سیر و سیاحت کے لئے نکلتے ہیں یا بہت سے فلاحی کام کرتے ہیں۔

دوسری طرف نوجوانوں کا اعتراض بھی قابل غور ہے کہ کچھ لوگ کرسی چھوڑتے ہی نہیں، ایکسٹینشن پر ایکسٹنشن لئے چلے جاتے ہیں۔ یا ایک ادارے سے ریٹائر ہوتے ہیں تو کسی دوسرے ادارے کے چئیر پرسن بن جاتے ہیں لیکن ایسے لوگ کتنے ہیں؟ ہمارے جیسے غریب ملکوں میں تو اکثریت مرتے دم تک کنبے کا پیٹ پالنے کے لئے کام کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ ریاست کی طرف سے شہریوں کو سماجی تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا۔ ہمارے دوست کرامت کووڈ 19 کے شروع ہونے کے بعد سے شد و مد سے سارے شہریوں کے لئے سماجی تحفظ کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

خیر بات شروع ہوئی تھی سیاست اور صحافت میں بوڑھوں کے حصہ لینے کے حوالے سے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ محترمہ فاطمہ جناح نے بہتر سال کی عمر میں ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب لڑا تھا اور وہ حزب اختلاف کی ساری سیاسی جماعتوں کی مشترکہ امیدوار تھیں۔ تو سیاست اور صحافت سے تو آپ بوڑھوں کو نہیں نکال سکتے۔ لیکن عمر کی بنا پر تعصب یا عمر پرستی AGEISM ساری دنیا میں عام ہے جس کے انفرادی اور اجتماعی سطح پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

کووڈ 19 کے دوران بہت سے شعبوں میں یہ تعصب دیکھنے میں آیا۔ اقوام متحدہ کی عمر پرستی پر عالمی رپورٹ کے مطابق دنیا کی نصف آبادی بوڑھوں کے خلاف تعصب کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اس وبا کے دوران نا صرف اس تعصب میں اضافہ ہوا بلکہ سوشل میڈیا اور عوامی بیانیے میں بوڑھوں کے خلاف Hate Speechبھی دیکھنے میں آئی۔ 146 ممالک نے اس پالیسی بریف پر دستخط کیے اور عمر کی بنا پر تعصب میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دیگر امتیازی رویوں کے مقابلے میں Ageism یا عمر کی بنا پر تعصب زیادہ قابل قبول سماجی رویہ ہے۔

اب یہی دیکھ لیجیے کہ پاکستان میں ہم سارے دن مناتے ہیں مگر یکم اکتوبر کو جب ساری بین الاقوامی برادری بوڑھوں کا عالمی دن مناتی ہے، ہم وہ دن نہیں مناتے۔ جب کہ اقوام متحدہ عمر کی بنا پر تعصب کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے پر زور دیتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے معاشروں میں بوڑھوں کے بارے میں منفی تاثرات اور مفروضات عام ہیں۔ ایسے تصورات بوڑھے لوگوں کی قدرو قیمت کو گھٹاتے ہیں اور انہیں کمزور اور معاشرے پر بوجھ قرار دیتے ہیں۔

ان تعصبات کے خلاف اسٹینڈ لینا ضروری ہے کیونکہ بوڑھوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ ان ہی تعصبات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ عمر کی بنا پر تعصب سماجی، اقتصادی اور سیاسی زندگی میں بوڑھوں کی شمولیت اور انسانی حقوق سے مستفید ہونے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ 2025 تک دنیا بھر میں بوڑھے افراد کی تعداد بارہ سو ملین ہو جائے گی۔ مجموعی طور پر دنیا بھر میں اسی80 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں تو اوسط متوقع عمر ہی 66 سال ہے۔

عمر کی بنا پر تعصب انفرادی طور پر ہی نہیں بلکہ اداروں کی پالیسیوں میں بھی نظر آتا ہے، خاص طور پر انشورنس کمپنیاں اور مالیاتی ادارے بہت تعصب کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سماجی سطح پر پایا جانے والا تعصب بوڑھوں کے ساتھ زیادتی ABUSE کا سبب بھی بنتا ہے۔ سندھ میں جو گھریلو تشدد کا قانون بنا ہے اس میں عورتوں کے ساتھ ساتھ بوڑھوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

ہمیں بوڑھوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ایک کامیاب ٹیم وہی ہوتی ہے جس میں بوڑھے اور نوجوان دونوں ہی شامل ہوں۔ گھروں میں وقت گزارنے والے بوڑھے خاندان کے دیگر بیمار افراد کی دیکھ بھال کر سکتے ہیں، بچوں کا دھیان رکھ سکتے ہیں تا کہ ان کے والدین ملازمت کر سکیں۔ لیکن ہمارے ہاں میڈیا بھی عام طور پر بوڑھوں کا منفی کردار ہی پیش کرتا ہے۔ معاشرے میں اس حوالے سے بحث کا آغاز کرنا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments