سعودی عرب میں تبلیغ پر پابندی: اصلاحات میں تیزی


اردو شاعری میں ہمیشہ سے ایک منفی کردار موجود رہا ہے جسے شیخ، زاہد، ملا، ناصح، خطیب، واعظ، محتسب جیسے ناموں سے پکارا گیا ہے۔ یہ کردار لکیر کا فقیر ہے، دخل در معقولات کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اس کا وجود منافقت، ریاکاری اور بوالہوسی سے عبارت ہے۔ اردو شاعری میں پایا جانے والا یہ تنہا فرد جب 80 ء کی دہائی میں تبلیغی جتھوں کی شکل میں محلے محلے گشت کرنے لگا، مساجد میں ٹولیاں بنا کر بیٹھنے لگا، پرتشدد فرقہ واریت میں اس کے نقوش نظر آنے لگے۔

اس کے پھلتے پھولتے کاروبار اور پرتعیش انداز زیست راز نہ رہے اور یہ ریاستی سرپرستی و اکرام کا حقدار بھی ٹھہرا تو اس کو آتا دیکھ کر دل میں ابھرنے والے کوفت، ناپسندیدگی اور جھنجھلاہٹ کے احساس کی جگہ ایک دائمی خوف نے لے لی۔ ہماری اردو شاعری کے ولن کی چلتی پھرتی تجسیم اور تشکیل کو ڈھونڈنے بہت دور نہیں جانا پڑتا۔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔

پچھلے ہفتے جب سعودی وزارت مذہب نے ایک سرکاری فرمان کے ذریعے مساجد کو ہدایت جاری کی کہ وہ جمعے کے خطبات میں دعوت و تبلیغ کی جماعتوں کی بدعت اور دین کی غلط تشریح سے عوام الناس کو آگاہ کریں تو یہ دراصل سعودی شہریوں کی نجی زندگی میں ایک غیر ریاستی ایکٹر کی مداخلت کو روکنے اور ذاتی حدود کے تقدس کی بحالی کی طرف ایک قدم تھا۔ یہ شخصی حقوق بالعموم مغربی جمہوری معاشرے کا طرۂ امتیاز سمجھے جاتے ہیں۔ ہم ذاتی تجربہ کی بنیاد پر جانتے ہیں کہ پاکستانی، ہندوستانی اور بنگلہ دیشی تبلیغی ٹولیوں کو مملکت میں پہلے بھی گھر گھر دروازہ کھٹکھٹا کر رٹے رٹائے لیکچر دینے کی آزادی کبھی حاصل نہ تھی۔

یہ جتھے صرف اپنے ہم زبانوں کے عقائد کی درستی کا کام چھپ چھپا کر کرتے تھے۔ یاد رہے کہ چند ماہ قبل غیر مسلموں کو دائرۂ اسلام میں داخل کرنے پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ صد شکر کہ جس دن سعودی ائمہ اور خطباء تبلیغی جماعت کی تحریف و بدعت سے عوام کو آگاہ کر رہے تھے عین اسی وقت دلنشین مبلغ اور شیریں بیان داعی طارق جمیل گورنمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی دعوت پر طلباء سے طویل خطاب فرما رہے تھے۔

پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں اور ان کے تحت کام کرنے والی خیراتی، رفاہی تنظیموں کے اثر و رسوخ کے باعث ایسا تاثر قائم کیا جا رہا ہے جیسے سعودی حکومت نے اچانک فیصلہ کر کے اقدامات کیے ہوں، یا سب کچھ محمد بن سلمان کے منصۂ شہود پر آنے سے ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن ناصرف سعودیہ میں پیدا ہوئے بلکہ انہوں نے جدہ کی کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ نائن الیون کے تاریخی واقعہ میں شریک انیس میں سے پندرہ ہائی جیکرز سعودی تھے۔

القاعدہ نے سعودی حکومت کے خلاف اسی طرح جہادی سرگرمیاں جاری رکھیں جیسی تحریک طالبان پاکستان نے پاکستان میں کر رکھی ہیں۔ شاہ فہد اور شاہ عبداللہ کے ادوار میں آئے دن سعودی سیکورٹی فورسز پر دہشت گردوں کے حملوں کی خبریں آتی رہتی تھیں۔ بالآخر 2015 ء میں حکومت نے اسکولوں، کالجز، لائبریریوں اور مساجد سے جن مصنفین کی کتب ہٹانے کا حکم دیا ان میں سید قطب، حسن البناء، محمد القرضاوی اور مولانا مودودی شامل تھے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ان میں مودودی اور قرضاوی کو خود سعودی حکومت نے شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا۔ اس اعلی ترین ایوارڈ جو محض اعزاز نہیں بلکہ خطیر انعامی رقم اور سعودی سرپرستی کی علامت کا مظہر سمجھا جاتا ہے کو پانے والے برصغیر میں جانے پہچانے ناموں میں دارالعلوم ندوة کے ابوالحسن ندوی، ڈاکٹر ذاکر نائیک اور پروفیسر خورشید احمد شامل ہیں۔ ان بزرگوں کی مساعیٔ جمیلہ سے دنیا بھر میں بین المذاہب اور بین التہذیبی مورچہ بندی کرائی گئی معلوم ہوتا ہے کہ اس میدان کارزار کو ٹھنڈا کرنے کی ندائے غیبی آ چکی ہے۔

حال ہی میں سعودیہ میں جو بہت بڑے واقعات رونما ہوئے ان میں سے ایک پچھلے ہفتے پہلی فلسفہ کانفرنس کا انعقاد تھا جس کی تھیم تھی غیر متوقع Unpredictability۔ اس ذو معنی تھیم کے تحت تین دن تک دنیا بھر سے آئے ماہرین نے مختلف مقالے پیش کیے ۔ اس موقع پر مدعو سب سے اہم شخصیت ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اور امریکی فلسفہ دان مائیکل سینڈل نے کانفرنس کے اگلے روز رائٹر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سعودیہ میں اصلاحات کی کامیابی کا سارا دار و مدار اس بات پر ہو گا کہ سعودی حکام طلباء میں تنقیدی طرز فکر کو کتنا پروان چڑھانے کے لئے تیار ہیں۔

گزشتہ ستمبر اعلان کیا گیا کہ بہت جلد پورے تعلیمی نظام کو اوورہال کیا جائے گا۔ تاکہ فارغ التحصیل ہونے والے طلباء عالمی اقدار سے ہم آہنگ ہوں اور جاب مارکیٹ میں دوسرے امیدواروں سے پنجہ آزمائی کرسکیں۔ اس غرض سے طلباء میں تحمل و برداشت اور کریٹیکل تھنکنگ کی حوصلہ افزائی کی نوید سنائی گئی۔ سعودیہ میں بیروزگاری کی شرح تقریباً 12 فیصد ہے۔

ابھی دو ہفتے قبل ہی طویق عالمی مقابلۂ مجسمہ سازی میں نیوزی لینڈ سے آئی آنا کورور کو فتحیاب قرار دیا گیا جبکہ اگلے ہفتے ہونے والے موسیقی کے فیسٹیول ساؤنڈ سٹورم میں نینسی اجرام اور امر دیاب سمیت صف اول کے تمام گلوکار اپنے فن کا مظاہرہ کرنے آرہے ہیں۔

پچھلے ہفتے بین الاقوامی ادارے پرمننٹ کورٹ آف آربیٹریشن کے ساتھ سعودی کونسل برائے تجارتی ثالثی کا معاہدہ بہت اہمیت کا حامل ہے جو سعودی کمپنیوں کے ساتھ سرمایہ کاری کرنے والوں کو قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ قانون کی بات ہو رہی ہے تو تذکرہ ضروری بنتا ہے کہ تمام قوانین کو دنیا کے جدید قوانین سے ہم آہنگ کرنے بالخصوص عورتوں کے خلاف قانونی زیادتی کے سدباب کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ان تمام اصلاحات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانچ سال قبل اعلان کردہ ویژن 2030 پر عملدرآمد کرنے میں سعودی قیادت مخلص ہے۔

اس ویژن کے تحت سعودی معیشت کے تیل کی دولت پر انحصار ختم کر کے اس میں تنوع لانا، صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر اور سیاحت میں اضافہ کرنا شامل ہیں۔ اس پروگرام کے تین ستون یہ ہیں : ایک جیتا جاگتا معاشرہ، پھلتی پھولتی معیشت اور اولوالعزم قوم۔ عجیب بات ہے کہ ان اصلاحات میں شاہ فیصل ایوارڈ یافتہ ماہر معیشت پروفیسر خورشید احمد کی پرواز خیال سے استفادہ مناسب نہیں سمجھا گیا۔ تعلیمی اوورہال کے لئے مودودی صاحب اور ان کے مقلدین سے رجوع کرنے سے اجتناب برتا گیا، قانونی اصلاحات کی اساس یوسف القرضاوی کی موشگافیوں پر نہیں رکھی گئی جبکہ فلسفہ کانفرنس میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کو پروفیسر مائیکل سینڈل کے مقابل نہیں کھڑا کیا گیا۔ امید ہے کہ تحمل و برداشت اور کریٹیکل تھنکنگ سے آراستہ و پیراستہ ہو کر سعودی نوجوان نسل اقوام عالم میں اپنے ملک کو ایک جدید، مہذب، تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ قوم کی حیثیت سے روشناس کرائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments