خود کشی کا بڑھتا رحجان


“کراچی کے مشہور شاپنگ مال لکی ون کی تیسری منزل سے ایک بے روزگار نوجوان نے چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔”
کراچی میں فیڈرل بی ایریا میں 6 بچوں کے باپ نے بیروزگاری اور معاشی تنگدستی سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔
یہ وہ خبریں ہیں جو ہمیں آئے روز سننے کو ملتی ہیں۔پاکستان میں خود کشی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ماہرین نفسیات نے انکشاف کیا ہےکہ گزشتہ 2 برس میں ملک میں خودکشی کی شرح 3 سے بڑھ کر 8 فیصد ہوگئی  ہے۔اور اس میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی یے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ انسان زندگی جیسی بڑی نعمت کو ٹھکرا کر موت کی وادیوں میں جانے کو ترجیح دیتا ہے؟
موت کی خواہش زندگی پر غالب کیوں آ جاتی ہے؟
قابل اجمیری کہتے ہیں:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
موت کی خواہش یکایک حاوی نہیں ہو جاتی۔ بے شمار سماجی ،معاشی، روحانی اورخاندانی مسائل اس کو پروان چڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔جیسا کہ گزشتہ برس سے کورونا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔جس سے معاشی مسائل میں اضافہ ہوا اور بدقسمتی سے ہمارے ملک میں حالات بد ترین ہو گئے۔لوگوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے،نوبت فاقوں تک آ گئی۔بیروزگاری اور غربت سے ذہنی مسائل میں اضافہ ہوا اور نتیجہ، خود کشی کی شرح میں اضافہ۔
لیکن یہ صرف غربت نہیں جو اس شرح میں اضافے کا سبب ہے۔کیوں کہ اگرصرف غربت ہی خودکشی کی وجہ ہوتی تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کوئی خود کشی نہ ہوتی۔
دوسرا بڑا سبب،جسے ہم شاید کسی کھاتےمیں نہیں لاتے وہ ہمارے رویے ہیں۔ جو دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ان کو نفسیاتی عارضوں میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ روز مرہ زندگی میں ہم اپنی زبان کا استعمال بے دریغ کرتے ہیں۔ولندیزی گفتگو، طنزیہ انداز،چبھتے ہوئے الفاظ ہمارا خاصا بنتے جا رہے ہیں۔دوسروں کی ذات کو تضحیک کا نشانہ بنا کر اسے مذاق کا نام دیا جاتا ہے۔کامیابیوں کی ,مال و دولت کی بے جا تشہیر کی جاتی ہے۔اس سے بے نیاز کہ ہمارااحساس برتری دوسروں کو احساس کمتری میں مبتلا کررہا ہے۔
 نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ اعصاب کمزور ہوتے ہیں،منفی سوچوں کی یلغار ہوتی ہے اور دل قبرستان بنتے جاتے ہیں۔”سب اچھا ہے، سب اچھا ہے” کے لیبل لگائے گھومنے والے لوگ اپنا دل کھول کے کسی کے سامنے نہیں رکھ سکتے، بھرم ٹوٹ جائےگا، کمزور سمجھ کر مزید کچلنے کا اندیشہ لبوں پہ قفل ڈال دیتا ہے۔
جسم کے کسی حصے پہ چوٹ لگ جائے تو مندمل ہونے میں دن لگتے ہیں۔روح پہ زخم آئیں تو مندمل ہونے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔روح کی بھی کچھ ضروریات ہوتی ہیں۔جو ہم پوری نہیں کر پاتے اور اندر ہی اندر ناسور بننے دیتے ہیں۔
اسلام میں معاشی نا ہمواری کے خاتمے کے لئے زکوت کا نظام ہے۔لیکن زکوت ، صدقہ لینے والوں کی عزت نفس کو مٹی میں رول دیا جاتا ہے۔ کسی ملازم کی کوئی مدد کی جائے  تو اس سے اپنے کئی ذاتی کام کروائے جاتے ہیں اور پھر احسان کا احسان اور واہ واہ بھی۔(منافع بخش سودا)
ایک تحقیر سی تحقیر۔۔۔۔
ایسے میں کون جینے کی خواہش کرے گا۔ زندگی کسے پھولوں کی سیج لگے گی۔
ہم دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا نہیں کرتے۔اور اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ذہنی امراض میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق آج دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان کے مختلف شہروں میں ڈپریشن کی شرح 22 سے 60 فیصد تک نوٹ کی گئی ہے۔ اسی طرح پاکستان ایسوسی ایشن فار مینٹل ہیلتھ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ملک میں ذہنی تناو کی سطح بگڑ رہی ہے اور پاکستان کے ہر چوتھے گھر میں ذہنی صحت کا مسئلہ موجود ہے اور ان ذہنی مسائل میں مبتلا 25 فیصد افراد ‘ڈپریشن’ کا شکار ہیں، جبکہ پاکستان میں مردوں کے مقابلے میں ڈپریشن کا شکار خواتین کی تعداد دوگنا ہے۔
زندگی ایک نعمت ہے۔اسے صرف اپنے لئے نہیں دوسروں کے لئے بھی سہل بنائیں۔اپنے پیاروں کواپنا “وقت” دیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments