نیا بلدیاتی نظام: اوچ شریف کا ممکنہ بلدیاتی ڈھانچہ کیسا ہو گا؟


گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے گزشتہ روز آئین پاکستان کے آرٹیکل 128 کی شق ( 1 ) کے تحت حاصل اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈیننس مجریہ 2021 ء پر دستخط کر دیے۔ قبل ازیں پنجاب کابینہ نے اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے ساتھ مذاکرات میں طے پانے والے مسودے کی منظوری کے بعد ترمیم شدہ بلدیاتی بل کو گورنر پنجاب کے پاس دستخط کے لیے بھیجا تھا۔

آرڈیننس کے تحت مقامی حکومتوں کی تشکیل نو، اختیارات اور افعال سے متعلق قوانین کو مستحکم کرنے، ان کو سیاسی، انتظامی اور مالیاتی طور پر زیادہ موثر بنانے اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 140 (اے ) کے تناظر میں مقامی سطح پر لوگوں کی ادارہ جاتی شراکت کے ذریعے اچھی حکمرانی، خدمات کی موثر فراہمی اور شفاف فیصلہ سازی کو فروغ دینے پر زور دیا گیا ہے۔

نئے بلدیاتی نظام کے تحت پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر اور براہ راست ووٹنگ کے ذریعے ہوں گے۔ ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کے طور پر بہاول پور میں میٹرو پولیٹن کے ساتھ ڈسٹرکٹ کونسل کا بھی نظام وضع کیا گیا ہے۔ دیہی سطح پر ویلیج کونسل اور شہری علاقوں میں نیبرہڈ کونسل کے انتخاب ہوں گے۔

مقامی حکومتوں کے نئے مسودہ قانون میں شہری علاقوں سے میونسپل کارپوریشنز، میونسپل اور ٹاؤن کمیٹیوں کا نظام ختم کر دیا گیا ہے، اب تمام دیہی اور شہری علاقے اپنے متعلقہ ڈسٹرکٹ کونسل سے منسلک ہوں گے۔

بہاول پور میں میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے میئرز اور ڈسٹرکٹ کونسل کے ڈسٹرکٹ میئر اور کونسلرز کو پینل کی شکل میں براہ راست عوام منتخب کریں گے۔ اس نظام کے تحت ایک ڈسٹرکٹ اسمبلی بھی قائم کی جائے گی، جس کا اپنا سپیکر ہو گا اور 12 رکنی کابینہ بنے گی۔

اگر اوچ شریف کی حد تک بات کی جائے تو نئے بلدیاتی نظام کے نافذ العمل ہونے کے بعد شہر کی میونسپلٹی حیثیت 31 دسمبر کو باضابطہ طور پر ختم ہو جائے گی، کیونکہ 31 دسمبر کو پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ مجریہ 2013 ء کے تحت قائم ہونے والے موجودہ بلدیاتی اداروں کی چار سالہ مدت کا اختتام ہو رہا ہے، جنہیں سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کے تحت بادل ناخواستہ حکومت نے بحال کیا تھا۔

4 نومبر 2019 ء کو پنجاب ویلیج، پنچایت اینڈ نیبرہڈ کونسلز ایکٹ کے تحت اوچ شریف شہر کو دس نیبرہڈ کونسلز میں تقسیم کیا گیا تھا جبکہ اس کی شہری آبادی 78 ہزار 9 سو 30 نفوس پر مشتمل ظاہر کی گئی تھی تاہم میونسپلٹی حیثیت ختم ہونے کے بعد اب اوچ شریف شہر میں 20 ہزار کی آبادی پر ایک نیبرہڈ کونسل ہو گی جس کا ایک چیئرمین، ایک وائس چیئرمین اور 10 کونسلرز ہوں گے۔ شنید ہے کہ نئی حلقہ بندیوں میں شہر کی موجودہ میونسپلٹی حدود میں شامل اوچ موغلہ، اوچ گیلانی، اوچ بخاری اور مخدوم پور کے متعدد علاقوں کو ویلیج کونسلوں کی حدود میں شامل کیا جائے گا۔ اسی طرح اوچ شریف کے دیہی علاقوں میں 20 ہزار اور 15 ہزار کی آبادی پر ایک ویلج کونسل قائم کی جائے گی جس کا ایک چیئرمین، ایک وائس چیئرمین اور 10 کونسلرز ہوں گے۔

نیبرہڈ کونسل اور ویلج کونسل کا وائس چیئرمین بلحاظ عہدہ اپنی کونسل کا سپیکر ہو گا۔ ہر نیبرہڈ کونسل اور ویلج کونسل میں کل 12 نشستوں پر مشتمل ہو گی۔ جن میں ایک چیئرمین، ایک وائس چیئرمین، 5 جنرل کونسلرز، ایک اقلیتی کونسلر، ایک یوتھ کونسلر، دو خواتین کونسلر اور ایک کسان کونسلر شامل ہوں گے۔

ان سطور میں ہم اپنے قارئین کی معلومات میں اضافہ کرتے چلیں کہ اوچ شریف کو 1958 ء میں فوجی حکمران صدر محمد ایوب خان کے نافذ کردہ بنیادی جمہوریتوں کے نظام میں پہلی بار میونسپل کمیٹی کا درجہ دے کر محمد اعظم خان کو اس کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا تھا۔ محمد اعظم خان 1959 ء تک اس عہدے پر فائز رہے بعد ازاں چوہدری محمد طفیل 1962 ء تک ایڈمنسٹریٹر کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔

1963 ء کو مخدوم سید حامد محمد شمس الدین گیلانیؒ نے میونسپل کمیٹی اوچ شریف کے پہلے منتخب چیئرمین کا منصب سنبھالا، وہ اس عہدے پر 1966 ء تک برقرار رہے۔ 1966 ء سے 1969 ء تک مخدوم سید غلام اکبر بخاری اس ادارے کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ ہنگامی صورت حال کے پیش نظر دس سال میں بلدیاتی انتخابات منعقد نہ ہو سکے اور ایڈمنسٹریٹرز کے زیر انتظام ہی میونسپل کمیٹی اوچ شریف کا نظم و نسق چلایا جاتا رہا۔

چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے نافذ کردہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ مجریہ 1979 ء کے تحت اوچ شریف کو میونسپل کمیٹی سے تنزلی کرتے ہوئے ٹاؤن کمیٹی کا درجہ دے دیا۔ مذکورہ بلدیاتی نظام کے تحت ہونے والے انتخابات میں 17 جنوری 1980 ء کو مخدوم سید غلام اصغر بخاری نے بلدیہ اوچ شریف کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا، وہ اس عہدے پر 5 ستمبر 1983 ء تک فائز رہے۔ بعد ازاں مخدوم سید حامد محمد شمس الدین گیلانی 14 نومبر 1983 ء سے 26 اپریل 1986 ء کو اپنی وفات تک چیئرمین کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ 26 اپریل 1986 ء سے 9 جولائی 1986 ء تک شیخ فیاض احمد جاوید قائم مقام چیئرمین جبکہ 9 جولائی 1986 ء سے نومبر 1987 ء تک مخدوم سید ظفر حسن گیلانی چیئرمین کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے۔

نومبر 1987 ء کو عبدالحمید درانی کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا، 20 جنوری 1988 ء کو مخدوم سید ظفر حسن گیلانی ٹاؤن کمیٹی اوچ شریف کے دوبارہ چیئرمین منتخب ہوئے۔ 31 جنوری 1992 ء سے 16 اگست 1993 ء تک مخدوم سید غلام اصغر بخاری چیئرمین کے منصب پر فائز رہے۔ 18 اگست 1993 ء سے 31 اکتوبر 1996 ء تک غازی امان اللہ خان، 7 جنوری 1997 ء سے 28 فروری 1997 ء تک سردار در محمد خان، یکم مئی 1997 ء سے 31 اکتوبر 1997 ء تک دوبارہ غازی امان اللہ خان اور 3 جنوری 1998 ء سے 31 اکتوبر 1998 ء تک چوہدری اشرف علی نعیم ٹاؤن کمیٹی اوچ شریف کے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے۔

اس دوران بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے بعد شیخ فیاض احمد جاوید نے 17 دسمبر 1998 ء کو چیئرمین کا منصب سنبھالا، وہ اس عہدے پر 15 اکتوبر 1999 ء تک فائز رہے، اسی دن سے 6 جون 2000 ء تک شعیب طارق وڑائچ جب کہ 4 جولائی 2000 ء سے 14 اگست 2001 ء تک میاں جمیل احمد ایڈمنسٹریٹر کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔

2001 ء میں صدر جنرل پرویز مشرف کے نافذ کردہ مقامی حکومتوں کے نظام میں اوچ شریف کو تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن احمد پور شرقیہ کے تحت سی او یونٹ کا درجہ دے دیا گیا جب کہ چیئرمین کے عہدے کو ختم کرتے ہوئے بلدیاتی اداروں کے سربراہان کے لئے ”ناظم“ کی اصطلاح وضع کی گئی، اس نئے بلدیاتی نظام کے تحت ہونے والے انتخابات میں کامیابی کے بعد مخدوم سید ظفر حسن گیلانی نے 15 اگست 2001 ء کو یونین کونسل اوچ شریف سٹی کے ناظم کے طور پر اپنا عہدہ سنبھالا، وہ 14 اگست 2009 ء تک مسلسل دو بار اس عہدے پر فائز رہے، اس کے بعد 2016 ء تک ان بلدیاتی اداروں کو مسلسل ایڈمنسٹریٹرز کے زیر انتظام چلایا جاتا رہا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ مجریہ 2013 ء کے تحت اوچ شریف کی میونسپیلٹی حیثیت بحال کر دی گئی اور اس کو 13 وارڈز میں تقسیم کر دیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر دسمبر 2015 ء کو بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا جس کے نتیجے میں 2 جنوری 2017 ء کو مخدوم سید سبطین حیدر بخاری نے میونسپل کمیٹی اوچ شریف کے چیئرمین جب کہ شیخ سعید احمد نے وائس چیئرمین کا منصب سنبھالا۔

25 جولائی 2018 ء کو عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کو مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے کا موقع ملا اور چند ماہ بعد ہی پنجاب اسمبلی سے لوکل گورنمنٹ ایکٹ مجریہ 2019 ء کی منظوری کے بعد 4 مئی 2019 ء کو صوبائی حکومت نے گزٹ نوٹیفیکیشن کے ذریعے بلدیاتی اداروں کو تحلیل کر کے اسسٹنٹ کمشنر احمد پور شرقیہ وقار حسین (پی اے ایس) کو میونسپل کمیٹی اوچ شریف کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ 24 جون 2019 ء کو ان کے تبادلے کے بعد اسسٹنٹ کمشنر نعیم صادق چیمہ (پی ایم ایس) میونسپل کمیٹی اوچ شریف کے ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے۔

4 نومبر 2019 ء کو پنجاب ویلیج، پنچایت اینڈ نیبرہڈ کونسلز ایکٹ مجریہ 2019 ء کے تحت صوبہ بھر میں نیا بلدیاتی نظام نافذ کر کے تحصیل دار احمد پور شرقیہ میاں فہیم اشرف کو میونسپل کمیٹی اوچ شریف کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا، وہ اس عہدے پر 11 نومبر 2020 ء تک تعینات رہے، بعد ازاں تحصیل دار ظفر علی مغل نے تھوڑے عرصہ کے لیے ایڈمنسٹریٹر کی ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ ان کے بعد دوبارہ میاں فہیم اشرف نے ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا۔

25 مارچ 2021 ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میں پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے سیکشن 3 کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے بلدیاتی اداروں کی بحالی کا فیصلہ صادر کیا، سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے پر 6 ماہ بعد پنجاب حکومت نے مجبوراً اس وقت عمل در آمد کیا جب 20 اکتوبر کو چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس گلزار احمد نے بلدیاتی اداروں کی بحالی کی تاخیر میں تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا، جس پر پنجاب حکومت کے وکیل نے بلدیاتی اداروں کی بحالی کا نوٹیفکیشن فوری طور پر عدالت میں پیش کر دیا۔

22 اکتوبر 2021 ء کو میونسپل کمیٹی اوچ شریف کے چیئرمین مخدوم سید سبطین حیدر بخاری نے بحالی کے بعد دو سال پانچ ماہ اٹھارہ دن بعد دوبارہ عہدے کا چارج سنبھالا۔

یقینی طور پر اوچ شریف کا بلدیاتی منظر نامہ یکم جنوری 2022 ء کے بعد ہی واضح ہو سکے گا جب نئی حلقہ بندیوں کا عمل شروع ہو گا۔ تاہم ماہرین کے مطابق پنجاب کے نئے بلدیاتی نظام کو پہلے سے زیادہ پیچیدہ اور مشکل بنا دیا گیا ہے، نئے نظام میں حکومت کی مداخلت کو بہت زیادہ بڑھا دیا گیا ہے جو کہ آئین کے آرٹیکل 140 (اے ) کی روح کے منافی ہے۔ قانون میں تعلیم کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے، جب کہ نئے قانون میں عوامی نمائندوں کو اختیار تو دیا جا رہا ہے لیکن ان کی اہلیت اور کارکردگی جانچنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں، میونسپل کمیٹیوں کا نظام اور یونین کونسلیں ختم کرنے سے عوام کو نقشہ جات کی منظوری، میرج، ڈیتھ، برتھ اور طلاق سرٹیفیکیٹس کے حصول کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments