کیا جماعت تبلیغ پر سعودی پابندی درست ہے؟


پچھلے دنوں سعودی عرب کے وزارت اسلامی نے ایک اعلامیہ اپنے سوشل میڈیا پر جاری کیا جس میں انہوں نے آئمہ مساجد کو ہدایت جاری کی کہ وہ اپنے جمعے کہ خطبوں میں لوگوں کو تبلیغی جماعت سے خبردار کریں اور لوگوں کو روکیں کہ وہ اس جماعت میں شامل ہوں اوور بتایا جائے کہ اس جماعت پر پابندی لگ چکی ہے۔ وجوہات انہوں نے دو لکھیں :

1۔ تبلیغی جماعت ایک گمراہ جماعت ہے۔
2۔ تبلیغی جماعت ایک دہشتگرد جماعت ہے۔

جہاں تک دوسری وجہ کا تعلق ہے تو اس بڑھ کر کوئی مذاق نہیں ہو سکتا۔ یہ تو وہ الزام ہے جو تبلیغی جماعت کے مخالفین بھی نہیں لگاتے۔ اب آتے ہیں پہلے الزام پر جو کہ گمراہی کا ہے۔ اس گمراہی کی وجہ کیا ہے؟ اس پر تبلیغی جماعت پر اعتراض کرنے والوں کو ہم دو گرہوں میں بانٹ سکتے :

1۔ پہلا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہیں جماعت تبلیغ پر یہ اعتراض ہے کہ جماعت تبلیغ ان علماء سے اعلان برات نہیں کرتی جو ان کے نزدیک اپنی کچھ عبارتوں کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج کر دیے گے۔ لہذا یہ گروہ جماعت تبلیغ کو بھی اسی دائرے میں رکھتا ہے۔

2۔ دوسرے گروہ کو اس جماعت کی کتاب ”فضائل اعمال“ پر تحفظات ہیں۔ ان کے نزدیک اس میں ایسی چیزیں موجود ہیں جو ان کی تشریح کے مطابق انسان کو شرک و کفر کی طرف لے جاتیں ہیں۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا تبلیغی جماعت پر پابندی کا فیصلہ درست ہے؟

اگر ہم سعودی علماء کے افکار کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت ہم پر عیاں ہوتی ہے کہ موجودہ سعودی علماء درحقیقت ”محمد بن عبد الوہاب“ کے افکار و نظریات سے متاثر ہیں۔ اور انہیں ”شیخ الاسلام“ کا درجہ دیتے ان کی کتابوں کو تلاش کر کر کے اہتمام سے سرکاری سرپرستی او ر خرچ پر شائع کروا رہے ہیں یہاں تک کہ حاجیوں کو ان کی کتاب ”مختصر زاد المعاد“ (جو کہ ابن قیم کی کتاب کا اختصار ہے) مفت دی جاتی۔ ان کے نزدیک محمد بن عبد الوہاب ایک عظیم مصلح تھے انہوں نے عقیدہ توحید کی خوب اشاعت کی اور انہوں نے لوگوں کی اصلاح کے لیے خوب کام کیا۔

لیکن وہیں پر دوسری طرف کئی ایسے علماء موجود ہیں جو کہ محمد بن عبدالوہاب کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی انہیں ”بد عقل“ (ارواح ثلاثہ صفحہ 39 ) سمجھتے تھے۔ امام احمد صاوی جو کہ ابن عبد الوہاب کے عم عصر تھے ان کے نزدیک محمد بن عبدالوہاب سورۃ فاطر کی آیت ”6“ کا مصداق ہیں (حاشیہ ساوی علی الجلالین، جلد 3 صفحہ 255 ) ۔ اب اپ قرآن کی سورۃ فاطر کی آیت ”6“ دیکھ لیں کیا لکھا ہے اس میں اپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے کہ کس درجہ کا خوفناک حملہ ہے محمد بن عبد الوہاب کی تبلیغ و دعوت پر۔

عثمان بن عبداللہ حنبلی جو کہ اس دور کے آس پاس کے حنبلی عالم تھے اپنی کتاب ”الفوائد المنتخبات“ جلد 1 صفحہ 207 پر ”ظلم و ستم کو پسند کرنے والا“ لکھا ہے۔ خود محمد بن عبدالوہاب کو ان کے بھائی سلیمان بن عبد الوہاب کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑھا۔ اس کے علاوہ مصر کے نابغہ روزگار عالم دین شیخ ابو زہرہ اپنی کتاب ”المذاہب الاسلامیہ“ میں محمد بن عبدالوہاب کی تحسین کے باوجود انہیں خارجی نظریات رکھنے والا قرار دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ احناف کے جید امام علامہ ابن عابدین جو سلطنت عثمانیہ کے شیخ الاسلام تھے (یاد رہے اس وقت مسلم امت کا وقار سلطنت عثمانیہ سے وابستہ تھا جیسے آج سعودیہ یا ایران سے وابستہ ہے) انہوں نے فتاوی شامی میں ابن عبدالوہاب کو ”خارجی“ قرار دیا۔ پاکستان میں اہلحدیث کے نواب صدیق حسن کان بھوپالی اور دیوبند کے مولانا خلیل احمد سہارنپوری، مولانا حسین احمد مدنی اور علامہ انور شاہ کشمیری تینوں کی رائے ان کے متعلق اچھی نہ تھی۔

ایسا نہیں ہے کہ محمد بن عبدالوہاب کے حامی موجود نہیں۔ سعودی علماء کے علاوہ علامہ البانی، یوسف قرضاوی، محمد صلابی اور رشید رضا ان سب کی آراء محمد بن عبدالوہاب کے بارے میں انتہائی مثبت ہیں۔

لب لباب یہ ہے کہ محمد بن عبدوالوہاب کی شخصیت کو لے کر شدید اختلاف موجود ہے۔ اب اگر کوئی حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ محمد بن عبد الوہاب خارجی ہیں، فتنہ پرور ہیں اور طاغوت کے شیدائی ہیں لہذا ان کی کتب پر پابندی لگائی جاتی ہے اور آئمہ مساجد کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ جمعہ کے خطبوں میں محمد بن عبدالوہاب کی گمراہی کو بیان کریں اور لوگوں کو ان سے بچنے کا کہیں۔ تو کیا اس کی حمایت کی جائے گی؟ سب سے پہلے وہی لوگ مخالفت میں اتریں گے جو تبلیغی جماعت پر حکومتی پابندی پر بغلیں بجا رہے ہیں۔

مسئلہ یہ نہیں ہے کہ تبلیغی جماعت کے افکار و نظریات کیسے ہیں؟ مسئلہ یہ ہے کہ کیا اب حکومت یہ طے کرے گی کہ میں دین کی تعلیم کس سے حاصل کروں؟ دین کس سے سمجھوں؟ حکومت اپنی پسند تو بتا سکتی ہے لیکن مرضی نہیں تھوپ سکتی۔ اس کے علاوہ جس طرح جماعت تبلیغ کو دہشت گردی سے جوڑا گیا ہے اس کے اچھے نتائج برامد نہیں ہوں گے۔

لہذا یہ فیصلہ قابل تعریف نہیں قابل مذمت ہے۔ اس واقعہ سے کم سے کم ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو پاکستان میں مذہبی جماعتوں کی حکمرانی دیکھنا چاہتے اس زعم میں کہ شاید وہ شریعت نافذ کریں گے۔ جب کوئی مذہبی جماعت یا گروہ حکومت میں آتی ہے تو وہ اپنے مذہبی افکار کے سوا کسی دوسرے کے لیے گنجائش پیدا نہیں کرے گی۔

نوٹ: آخر میں ایک اہم سوال تبلیغی جماعت پر یہی پابندی اگر اسلام دشمن اسرائیل یا پاکستان دشمن مودی نے لگائی ہوتی تب کیا ردعمل ہوتا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments