میکیاولی ہپ ہپ، میکیاولیت تھو تھو


سیاست کی دنیا میں میکیاولیت کسی تشریح کا محتاج نہیں۔ دراصل میکیاولیت سے مراد میکیاولی کے چند سیاسی نظریات ہیں جو اس کی کتاب ”“ بادشاہ ” (The Prince) میں تفصیل سے درج ہیں۔ انھوں نے بعد میں اپنی اس کتاب کو اطالوی بادشاہ“ لورنز دی پیرودے ”کو تحفے میں دی تھی۔

نکولو میکیاولی 1469 کو اٹلی کے شہر فلورنس میں پیدا ہوئے۔ محرر، معتمد اور سفیر رہے۔ 1500 میں فرانس، روم اور جرمنی کے دورے کیے۔ ناول، نظمیں اور مزاحیہ ڈرامے لکھتے تھے۔ جب کہ اس کی شہرہ آفاق کتاب ”بادشاہ“ ہے، جو 16 ویں صدی کے سیاسی ماحول کی پیداوار ہے۔ اطالیہ اس وقت سیاسی اور معاشی لحاظ سے زوال کا شکار تھا۔ سماجی اور مذہبی اقدار پیوند خاک تھے۔ ایسے میں اطالیہ کو دوبارہ مضبوط ریاست بنانے کے لیے میکیاولی نے بادشاہ کو ہر طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں کو استعمال میں لانے کی تجویز دی تھی۔

ان کے مطابق سیاسی دوامیت اور مقبوضات کی وسعت کے لیے اخلاقیات کی گنجایش نہیں۔ وہ جمہوریت کے برعکس، بادشاہ کے لیے موروثی بادشاہت کو موزوں قرار دیتا ہے۔ کیوں کہ رعایا ایک خاص خاندان کی حکومت کے عادی ہوتے ہیں اور غیر موروثی جمہوری حکمرانوں کو برداشت نہیں کرتے۔ ان کی رائے ہے کہ نئے بادشاہ کو اپنے آبا و اجداد کے نقش قدم پر چلنا چاہیے، عوام کو مستقل غربت و افلاس میں رکھیں، باغی علاقوں میں فوج بھیجیں، باغیوں کو عبرت ناک سزائیں دیں، سابق بادشاہ کے خاندان کو جڑ سے اکھاڑیں، سابق عہدیداروں کو معزول کر کے نئے وفادار عہدیداروں کو ذمے داریاں سونپ دی جائیں، پرانے اتحادیوں کو ترک کر کے نئے اتحادی بنا لیں، وزیروں اور مشیروں کو بار بار تبدیل کرائیں تاکہ اس کے خلاف سازش کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ بادشاہ کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ عوام کو برے حالات کے خاتمے کی امیدیں دلائیں اور مضبوط دشمن کے خوف میں انھیں مبتلا کر کے ان سے نمٹنے کے وعدے کرا کرا کر اپنی حکومت کو طول دیا کریں۔

مذہبی حکمرانوں سے متعلق میکیاولی کا خیال ہے : ”ان کی عزت خدا کی طرف سے ہے اور ان کا قائم رکھنے والا بھی خدا ہے۔ ایسی مملکتوں سے بحث کوئی نہایت گستاخ اور عاقبت نا اندیش شخص ہی کر سکتا ہے“ ۔ اس قسم کی ریاست کے عوام اپنے مذہبی رہنما کے خلاف آواز اٹھانے کو اپنے خداوند کو ناراض کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔

فوج کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ ریاست اور بادشاہت کے لیے زرآشنا فوج نقصان دہ ہے۔ ”جو بادشاہ اپنی ریاست کی بنیاد زرآشنا فوج پر رکھتا ہے، اس سے کبھی پائیداری اور سلامتی نصیب نہیں ہوتی“ ۔ اس طرح کی فوجیوں کا ریاست اور بادشاہ سے دلی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ امدادی فوج کو زرآشنا فوج سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیتا ہے۔ جو اپنے کام اور اپنی ذمے داریوں کے علاوہ ایمرجنسی، وبائی امراض اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے بلائی جاتی ہے۔

اس قسم کی فوج کام سے زیادہ اپنی تشہیر کو ترجیح دیتی ہے۔ ان کے مطابق: ”اطالیہ کی بربادی زرآشنا فوج کی وجہ سے ہوئی“ ۔ البتہ بادشاہ اپنی فوج کو مطمئن اور خوش رکھنے کے لیے عوام پر ظلم و ستم کرنے کی اجازت دیں، ورنہ فوج کی توجہ حکمرانی کے حصول کی طرف جا سکتی ہے۔ اپنی بادشاہت کے دوام دینے کے لیے بادشاہ کی تمام تر توجہ جنگ پر ہونی چاہیے، ورنہ لہو لعب میں پڑ کر سب کچھ گنوا سکتا ہے۔ بادشاہ کو جو کچھ کرنا چاہے، کر لے ; مگر رنگے ہاتھوں نہ پکڑا جائے اور ہر صورت میں اندرونی سازشوں سے بچنے کے لیے بدنامی اور رسوائی سے بچنا چاہیے۔

میکیاولی کا مشورہ ہے کہ بادشاہ کو شیر کی طرح خون خوار اور لومڑی کی طرح چالاک ہونا چاہیے، تاکہ عوام خوف کی وجہ سے ان کی عزت کریں۔ کیوں کہ عوام ناشکرے، متلون مزاج اور ناقابل اعتبار ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ بادشاہوں نے قانون کے بجائے طاقت کا استعمال کر کے اپنی حکومتوں کو طول دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں، اگرچہ قانون انسانوں اور طاقت حیوانوں کے لیے ہوتی ہے۔ بادشاہ کا رویہ عوام کے ساتھ سخت کرخت ہو، تاکہ ان پر ہر طرح کے غیر انسانی قوانین کو آسانی سے لاگو کیا جا سکے۔

بادشاہ کو شہرت، عوام کو کچلنے سے ہوتی ہے۔ بادشاہ کو چاہیے کہ عوام کے خوف و شر سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ اور بلند و بالا قلعے بنائیں۔ آخر میں وہ بادشاہ کو نصیحت کرتا ہے کہ تقدیر یا قسمت، عورت کی مانند ہے، جس کو جتنا قابو میں رکھو گے اتنا ہی اس پر حاوی ہو جاؤ گے۔ ان کے مطابق تقدیر، دراصل تدبیر کا نتیجہ ہوتی ہے۔

المختصر، میکیاولی کو ان کے عوام مخالف سیاسی نظریات کی وجہ سے کہیں بھی پسند نہیں کیا جاتا، اور طرح طرح کے فحش القابات سے پکارا جاتا ہے۔ البتہ ان کی کتاب ”بادشاہ“ کو پڑھ کر مجھے یوں لگا جیسے ہمارے حکمرانوں کی تربیت میکیاولی نے کی ہو۔ مجھے میکیاولی سے پیار اور میکیاولیت سے نفرت ہے۔ میکیاولی کی یہ کتاب ”بادشاہ“ سیاست دانوں اور حکمرانوں سے زیادہ عوام کے لیے بہت مفید ہے۔

میکیاولی! ہمیں شعور دینے کا بہت بہت شکریہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments