نظار یوسفزئی چلا گیا، انتظار یوسفزئی رہ گیا


خدائی خدمات گاری ہماری سیاست کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ پختون وطن سے اٹھنے والی یہ تحریک خان عبدالغفار حضرت باچا خان کی قیادت میں چلی۔ باچا خان کو سرحد کا گاندھی کہا جاتا ہے، یہ زیادتی ہے۔

وہ اپنے نام کے ایک تھے اور ایک ہی رہیں گے۔ تقابل کرنے کی بہت زیادہ اگر ضرورت پڑی تو ان کا نام اس سلسلے میں آئے گا، جس میں وردھمان مہاویر اور گوتم بدھ جیسے پیامبر چلے آتے ہیں۔ گاندھی جی کی سیاسی جد و جہد سے انکار ممکن نہیں ہے، مگر اس جدو جہد میں معاشرتی اصلاح کا کوئی پہلو نہیں ہے۔

باچا خان نے سخت جان لوگوں کے پتھر جیسے دل نرم کیے اور اُبلتے ہوئے دماغوں پر تازہ پانی کا چھڑکاؤ کیا۔ خار کھائی ہوئی آنکھوں کی جمالیاتی حِس بحال کرنا آسان نہیں ہوتا۔ غیرت کے منطقی مفہوم پڑھانے کے لیے بدھا جیسی متانت چاہیے ہوتی ہے۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں، جو نصاب کے فرسودہ ذخیروں میں حسبِ ضرورت نئے صفحوں کا اضافہ کرتے ہیں۔

 انتقام کی آگ میں جلتے ہوؤں کے ہاتھ سے باتوں باتوں میں بندوق لیتے ہیں اور دلیل کے ہتھیار سے لیس کر دیتے ہیں۔ برسوں کی ریاضت سے قوم کی آنکھ میں وہ نور پھونکتے ہیں، جو معاملے کو مذہبی اور صنفی امتیاز کے بغیر دیکھنے کا حوصلہ بخشتا ہے۔

مشکل گزار راستوں پر امن کی کونپلیں ویسے ہی نہیں پھوٹ گئی تھیں۔ باچا خان اور ان کے سُرخ پوش خدمت گاروں نے اپنا لہو جلا کر برسوں کی یہ مسافت طے کی تھی۔ کئی راتوں کو جاگ کر کھِلتے ہوئے ایک پھول پہ پہرہ دیا تھا، اُس پھول کی پتی سے پھر ہیرے کا جگر کاٹا تھا۔ جیب میں گُڑ کی ٹِکیا اور پیاز کے ٹکڑے رکھ کر وطن کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جوتیاں چٹخائی تھیں۔ بندوق نہ اٹھانے کی پاداش میں یومیہ جرمانے ادا کیے تھے۔ جیلوں میں چکیاں پیسی تھیں اور گاؤں کے گاؤں جلتے ہوئے دیکھے تھے۔ تنکا تنکا جوڑ کر اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی درس گاہوں کو بھسم ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔

حسرت یہ ہے کہ گئے وقتوں کے کسی خدائی خدمت گار سے ہم کو صحبت رہی ہوتی، قسمت مگر یہ ہے کہ نظار یوسفزئی کو ہم نے دیکھا ہے۔ اتنا دیکھا ہے کہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا دوست تھا۔ کون ہے، جو ہاتھ اٹھاکر کہہ سکے کہ میرا دوست نہیں تھا۔ تڑپتی ہوئی روح رکھنے والا ایک دوست، جسے کسی پل چین نہیں پڑتا تھا۔

 جستجو کا مارا ہوا ذہن، جو آگہی کی آگ میں جلتا تھا۔ مشکل وقتوں میں جو کبھی دمِ عیسا اور کبھی یدِ بیضا بن کر آتا تھا۔ پشتونولی اور باچا خانی کا ورد کرتے ہوئے اس کی آنکھ لگتی تھی۔ جاگ آتی تھی تو زبان پر وہیں سے ورد شروع ہو جاتا تھا۔ کم لوگ ہوتے ہیں، جن کی لطیفوں میں بھی اپنی نسل کا درد نمایاں ہوتا ہے۔ ایسی سپردگی اور ایسی فنائیت کہ تیرے نام سے شروع اور تیرے نام پر ختم۔

 نظار اُن لوگوں میں سے تھا ہی نہیں، جو دنیا سے کچھ وصول کرنے کی فکر میں سرگرداں رہتے ہیں۔ جب بھی دیکھا، اسے اس فکر میں دیکھا کہ میرے پاس اور کیا ہے، جو میں اپنی قوم پر نثار کر دوں۔

 ہمارے ارد گرد ہزاروں ہیں، جو قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ایثار کا جذبہ مگر دو چار میں ہی ہوتا ہے۔ ان دو چار میں، جو آگے ہوتا ہے، وہ اپنے قبیلے کا نظار یوسفزئی ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ نہیں ہوتے، جو زمین پر بوجھ نہیں بننا چاہتے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، جو زمین کا بوجھ بھی اٹھا لیتے ہیں۔ اپنا پیٹ کاٹنا اسی کو کہتے ہیں، ایثار اسی کو کہتے ہیں۔

 نظار اُن سیاسی ورکروں میں سے تھا، جو اپنی جماعت اور اپنی قوم کو اپنا مقروض کر دیتے ہیں۔ آپ نے ایسے لوگ کبھی دیکھے ہیں، جن کی تلخ کلامیوں پر بھی انسان کو پیار آ جاتا ہے؟ جن کے دشنام بھی آپ کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتے ہیں؟ اگر دیکھا ہے، تو آپ نے نظار یوسفزئی کو کہیں نہ کہیں دیکھ رکھا ہے۔

 یہ لوگ زمین کا نمک ہوتے ہیں، ان کا کہا کبھی غلط نہیں ہوتا۔ ان کی ڈانٹ میں قہر ہوتا ہے مگر چبھن نہیں ہوتی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ اپنی قوم کا سوال آیا تو اپنی ہی عوامی نینشنل پارٹی کی بزرگ قیادت سے بِھڑ گیا۔ قیادت نے کبھی اس کی بات کا برا نہیں منایا۔ اس کے منہ میں رکھ کر لوگ اپنی شکایت آگے پہنچاتے تھے۔ یہ اسی کا مقام تھا کہ بات کرے تو بات ہی نہ پہنچے، سطور کے بیچ چھپا ہوا درد بھی پہنچے۔ بات پہنچے تو دوری نہ پیدا کرے، اثر پیدا کرے۔

 ٹھیک مصرعہ کہنے والے کے ہاتھ چومنے کے لیے وہ شہروں کا سفر کرتا تھا۔ پتے کی ایک بات مل جاتی تو اس کے ڈنکے چاروں اور پیٹ دیتا تھا۔ علم اور فہم رکھنے والا شخص عمر میں کتنا ہی کم ہو، اسے ہاتھ کا چھالہ بناکر رکھتا تھا۔ مگر بات کہیں انسانیت کے درجے سے گر جائے تو بڑے سے بڑے شاعر، ادیب یا فن کار کو بھی گرم الفاظ کے بھاڑ میں جھونک دیتا تھا۔ پلٹ کر کوئی اس سے الجھتا نہیں تھا۔ بڑے سے بڑا کردار بھی فقط مسکرا دیتا تھا اور کہتا تھا، یرا نظار لالہ! ستاسو خبرہ بالکل ٹیک دہ۔

 ہزار مختلف مزاجوں کے بیچ وہ اشتراک کا ایک اکیلا نقطہ تھا۔ جتنی بھی آبشاریں بہتی تھیں، سب اسی ایک دریا میں آکر گرتی تھیں۔ سارے دریا یہاں وہاں سے بل کھاتے ہوئے اسی ایک سمندر میں پہنچتے تھے۔ کوئی مشکل آن پڑے تو چھلاوے کی طرح شہر کے ایک کونے سے چلتا تھا اور بیداری کی روح پھونکتا ہوا دوسری طرف نکل جاتا تھا۔

  مشال خان کو سنگسار کیا گیا تو پورے عرب امارات کو اکٹھا کر کے ایک چھت کے نیچے بٹھا دیا۔ سب سے کہا کہ سب آو اور کہو کہ ہم مجرم ہیں، ہم شرمندہ ہیں۔ میرے سامنے کی بات ہے کہ احسان اللہ خان نے تحریک دی کہ شارجہ کمیونٹی سینٹر میں عاصمہ جہانگیر پر ایک کانفرنس ہونی چاہیے۔ عاصمہ جہانگیر پر کانفرنس اور امارات میں؟ یہ سوال نظار کے علاوہ ہر سننے والے کی زبان پر آیا۔

 نظار نے دو راتوں میں مسافر مزدوروں کے ایک ایک حجرے تک بات پہنچا دی تھی۔ کانفرنس ہوئی تو لوگوں کی تعداد مایوس کن رہی۔ شارجہ سٹیڈیم میں کرکٹ میچ چل رہا تھا، کون آتا؟ نظار نے مائیک سنبھالا اور اپنی قوم کے سبھی چھوٹوں بڑوں کو کچھ اس طرح مخاطب کیا کہ کان کے نرمے ایک طرح کی گرمی چھوڑنے لگے۔ نظار نے کہا، ایک طرف تمہارے کام روزگار تھے، سیر و تفریح تھی اور دوسری طرف تمہاری ماں عاصمہ جہانگیر تھی۔ کیسے لوگ ہو کہ تمہارے مشغلے تمہاری ماں پر بازی لے گئے؟

نظار کوئی شاعر، فن کار یا ادیب نہیں تھا۔ بیس کتابوں کا مصنف اور اونچے شملے کا سیاست دان بھی نہیں تھا۔ وہ عام سا ایک انسان تھا مگر شمع جلاتا تھا تو اپنے بیگانے سب اس کے گرد جمع ہو جاتے تھے۔ وہ پشتو کے کسی ابھرتے ہوئے شاعر کے کسی مصرعے پر یا گلوکار کے کسی راگ پر تین بار بے ساختہ واہ واہ واہ کہہ دیتا تو پہاڑوں، بیابانوں اور حجروں میں اس کا طوطی بولنے لگتا تھا۔

ایسا کیسے ہوجاتا تھا؟ دراصل اس کے نامے میں کچھ چیزیں تھیں، جس کا کوئی مول ہو سکتا ہے نہ کوئی تول ہو سکتا ہے۔ کردار کی بلندی تھی اور نیت کی صفائی تھی۔ مسلسل ایک تڑپ تھی اور درد ہی درد تھا۔ درد ہی وہ طاقت ہے، جو دِلوں کو مسخر کرتی ہے۔ فیض نے اپنے دائیں بائیں بلند قامت لوگوں کے ہجوم میں کسی بلند نگاہ نظار کو دیکھ کر ہی کہا ہو گا،

بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی

تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے

وہ امارات سے صوابی اپنے بھائی کے جنازے کو کندھا دینے آیا تھا۔ جو بھی فون کرتا وہ آگے سے بہت زور دے کر کہتا، تمہیں قسم ہے کہ اتنی دور دعا کے لیے مت آنا۔ اپنے گھر سے دعا کرو، رات وقت پر سو کر نیند پوری کرو اور صبح وقت پر اپنے کام دھندے کے لیے جاؤ۔ اس سے مجھے نظار کی ایک اور ادا یاد آ گئی۔ محفل سے جب اٹھتا تھا تو جانے کا تاثر نہیں دیتا تھا۔ کمرے کے دروازے پہ پہنچ کر باآواز بلند کہتا کہ جو جہاں بیٹھا ہے وہیں بیٹھا رہے، میں چلا۔ آپ ابھی پہلو بدل رہے ہوتے تھے وہ سات دروازے پار کر چکا ہوتا تھا۔

کون جانتا تھا کہ جس حجرے میں نظار غم گساروں کے ساتھ بھائی کے لیے دعا کر رہا ہے، اگلی صبح اسی جگہ لوگ اسے یاد کر کے رو رہے ہوں گے۔ نظار کی ماں کو بہت دیر تک گلے لگانے کو جی چاہتا ہے۔ اس خاتون نے تین ماہ میں اپنے تین بیٹے کھو دیے ہیں۔ نظار یوسفزئی کی شکل میں تو اس نے پورا جہان ہی ہار دیا ہے۔

شاہ منصور کے مکین کہتے ہیں، ہم نے ہر طرح کے لوگوں کا جانا دیکھا ہے اور ان کے جانے کا غم دیکھا ہے مگر فضاؤں کا سوگوار ہونا آج پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔ دنیا سے بے خبر کچھ بزرگ افسردہ قافلوں کو آتا جاتا دیکھ کر حیرت زدہ ہیں۔ انہیں پہلی بار اندازہ ہو رہا ہے کہ ایک چاک گریبان شخص، جو ہمارے بیچ رہتا تھا، کتنا عظیم تھا۔ جو لوگ جم کر اپنی زمین پر کھڑے ہوتے ہیں، ایک دن وہ آسمان ہو جاتے ہیں۔

اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ سب وقتی جذبات سے پھوٹنے والی مبالغہ انگیزی ہے تو صوابی کے علاقے شاہ منصور جائیے اور نظار کے حجرے میں ایک گھنٹہ بیٹھ کر دیکھ لیجیے۔ بڑے سے ایک حجرے میں با آواز بلند کہنا پڑتا ہے، دعا کے لیے ہاتھ اٹھالیں۔ یہ آواز ہجوم کے صرف دس فیصد لوگوں تک پہنچ پاتی ہے۔ یوں حجرے کے دس مختلف حصوں میں دعا ممکن ہو پا رہی ہے۔

 اپنے حلقے کے لوگ تو آ ہی رہے ہیں، سیاسی و نظریاتی حریف بھی چلے آ رہے ہیں۔ دعائیں ساری کی ساری رسمی ہو سکتی ہیں، آنسو بہت کم رسمی ہوتے ہیں۔ ڈھونڈے سے بھی ایسا کوئی شخص نہیں مل پائے گا، جس کے دل میں نظار کے لیے اگر یا مگر ہو۔ لوگوں کے دل غم سے پھٹے جاتے ہیں، مگر رشک بھی بہت کرتے ہیں۔ زندگی ہو تو ایسی ہو، موت ہو تو ایسی ہو۔

دنیا کے اس جھمیلے میں کسی کے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خلا پُر ہونے نہ ہونے والی باتیں بھی محض باتیں ہیں۔ اصل قصہ تو وقت کا پہیہ ہے، وہ کمبختی کا مارا چلتا ہی رہتا ہے۔ لوگ آتے رہتے ہیں لوگ جاتے رہتے ہیں۔ دیکھ لینا، امارات کے مسافر خانوں میں شام اب بھی اپنے وقت پر آئے گی۔ بولے گی، جھومے گی، ناچے گی اور گائے گی۔ مگر زندگی بخشنے والی، جو نظار کی ایک کڑک دار آواز تھی، وہ اب نہیں آئے گی۔ لوگ اس کا انتظار کریں گے اور انتظار کی یہ گھڑی کبھی سمٹ نہیں پائے گی۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments