چائے اور ہماری زندگی


نفرتوں، عداوتوں کو مٹانے اور محبتوں، الفتوں کو بڑھانے کے لیے صرف ایک پیالی چائے کافی ہوتی ہے۔ چائے مزدورں، شاعروں، ادیبوں، لکھاریوں بالخصوص
صحافیوں کی بہترین ساتھی تصور کی جاتی ہے۔ اس سے محفلوں کو رونق بخشا جاتا ہے۔ گھر میں آئے مہمانوں کی خاطر تواضع کی جاتی ہے اور چائے گفتگو کو شیرین بنانے میں خاصی معاون ثابت ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں اس کی بڑھتی افادیت کے پیشِ نظر اقوام متحدہ نے 15 دسمبر کو چائے کے نام کر دیا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں چائے کے شوقین افراد بڑے جوش و خروش سے یہ دن مناتے ہیں۔ اگر چائے کو چاہت کی علامت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کسی رومانوی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
تیری محفل میں چھوڑ آئے
جلتی سگریٹ ٹھنڈی چائے
چائے کے متعلق ماہرینِ صحت کے مختلف نظریات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بعض ماہرین اسے انسانی جسم کے لیے مثبت چیز قرار دیتے ہیں۔ جیسے دماغی تنزلی سے تحفظ، مخصوص اقسام کے کینسر، فالج وغیرہ سے بچاتی ہے۔ جسم میں پانی کی کمی کو پورا کرتی ہے اور یادداشت کو تیز بناتی ہے۔ روزانہ گرم چائے استعمال کرنے والے افراد میں آنکھوں کے بڑے امراض جیسے نابینا اور کالے موتیا کے مرض میں مبتلا ہونے کے کم امکانات ہوتے ہیں۔ اسی طرح اکثر افراد اسے نیند کو بھگانے، سستی کو رفع کرنے، دن بھر کی تھکاوٹ سے چھٹکارا، سردرد سے آفاقہ اور ذہن کو تروتازہ رکھنے کے لیے کرتے ہیں۔
مگر اس کا استعمال عام طور پر صبح ناشتے میں کیا جاتا ہے۔
بہت زیادہ چائے کا استعمال نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ چائے شراب کی طرح ایک نشہ آور شے ہے۔ جس میں غذائیت نہیں ہوتی ہے۔ معدہ خراب، بھوک زائل، بدہضمی اور دل کے امراض میں اضافہ کرتی ہے۔ مزید برآں مثانہ کمزور، بار بار پشاب کی شکایت، چہرے کی رنگت کو زرد اور کالا بنانے کے ساتھ قوتِ سماعت کو بھی متاثر کرتی ہے۔
بلڈپریشر کو بڑھا کر انسان کو چڑچڑا اور ضدی بنا دیتی ہے۔
آج کل پاکستان میں کھانے پینے کی کوئی چیز خالص نہیں رہی ہے۔ جیسے مصالحے میں برادے، دودھ میں چونا اورچائے کی پتی میں رنگ ملا کر انسانی صحت اور زندگی سے کھیلا جاتا ہے۔ ملکی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے چائے سمیت دوسری مشروبات کا استعمال کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں چائے کی پیداوار کم ہے’اس وجہ یہ دنیا میں چائے درآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ چین، بھارت، بنگلہ دیش، کینیا، سری لنکا، جاپان، انڈونیشیا اور دیگر ممالک’لپٹن، تاج محل، بروک بونڈ کے نام سے دنیا کو چائے پلا کر قیمتی زرمبادلہ کماتے ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے اگر سالانہ اربوں روپے بچانے ہیں اور قوم کو میعاری چائے پلانی ہے’تو اِسے سونا اگلنے والی زمین میں چائے پیدا کرنے والی موزوں زمین کی تلاش کرنی ہوگی’تاکہ ہم چائے کی پیداوار میں بھی خود کفالت کا درجہ حاصل کر سکیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments