بلدیاتی الیکشن کی جنگ کون جیتے گا


حکومت نے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس جاری کر دیا ہے جس کے بعد دسمبر اور جنوری میں حدبندیاں کی جانی ہیں اور مارچ اپریل میں بلدیاتی الیکشن ہونے جارہا ہے جو حکومت کے لئے ایک کڑا امتحان ہو گا۔ نئے بلدیاتی نظام میں تحصیل کونسلیں اور میونسپل کمیٹیاں ختمُ کر کے ان کو ضلع کونسلز میں شامل کر دیا گیا ہے۔ اور سیاسی پارٹیاں ایک مکمل پینل کے ساتھ الیکشن میں حصہ لیں گی مگر اس سے چھوٹی پارٹیوں اور آزاد گروپوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑے گا اور ان کو ایک طرح سے بلدیاتی نظام سے باہر کردیا گیا ہے اس سے بڑی سیاسی پارٹیوں کو تقویت ملے گی۔ اگرچہ الیکشن بہت قریب ہیں مگر حال ہی میں ہونے والے ضمنی الیکشنز میں عوام نے زیادہ دلچسپی کا اظہار نہیں کیا عوام کی عدم دلچسپی جمہوری نظام کے لئے مثبت شگون نہیں ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو صرف ایلیٹ طبقے سے رکھنے والے امیدواروں کی بجائے سیاسی ورکرز کو اور عوامی طبقات سے تعلق رکھنے والے بااثر اور مقبول افراد کو آگے لانا چاہئے۔ تاکہ نچلے طبقے ، کسانوں مزدوروں اور چھوٹے کاروبارکرنے والے افراد کے حقوق کا بھی تحفظ ہو سکے۔
پچھلے دنوں سیالکوٹ میں ہونے والے شرمناک واقعے سے پاکستان کے امیج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ توہین کے قانون کی موجودگی میں لوگوں کا قانون ہاتھ میں لینا سمجھ نہیں آتا ، جس وحشیانہ انداز میں ایک انسانی جان لی گئی اور پھر ایک غیرملکی کی لاش کو جلایا گیا اس سے ہماری سوسائٹی کی ساکھ بری طرح خراب ہوئی ہے۔ ہم انڈیا کو اس پر تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں کہ وہاں ہندوؤں کے ہجوم مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے اور بیچنے پر جان سے مار دیتے ہیں مگر اب ہم کس منہ سے ان پر تنقید کریں گے۔ سیالکوٹ جس کا برآمدات میں دنیا بھر میں ایک مقام ہے اور جس سے پاکستان کو قیمتی زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے وہاں پر ایسا واقعہ رونما ہونا ہمارے معاشی حالات کے لئے نیک شگون نہ ہے اور اس سے غیر ملکی کاروباری افراد اپنا سرمایہ لگانے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔ اس کی تلافی اب قانون ہاتھ میں لینے والے افراد کو تیز رفتاری سے کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا۔
اس میں حکومت کی کمزوری اس وجہ سے سبب بنی ہے کہ ایک تو لوگ قانون کی عملدراری کو سنجیدہ نہیں لے رہے دوسرا پچھلے کچھ عرصہ سے مختلف ایسے گروہوں کے سامنے گھٹنے ٹیکے گئے جنہوں نے قانون ہاتھ میں لیا اور کئی قانون نافذ کرنے والے اہلکار ان کے ہاتھوں جان سے گئے مگر گورنمنٹ ایکشن لینے کی بجائے ان سے معاہدے کرتی پائی گئی اب اس حکومت کا یہ امتحان ہے کہ وہ ان سخت گیر رویوں اور عدم برداشت کے حامی گروہوں کو کس طرح نکیل ڈالتی ہے۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بالکل درست موقع پر اپنی پارٹی کے سنٹرل پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری کی گوشمالی کی جنہوں نے ایک مذہبی دھڑے کے سربراہ کو گلدستے پیش کیے تھے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی پارٹی میں بھی دو قسم کی سوچ کے حامل افراد ہیں ایک گروہ جماعت اسلامی سے آیا ہوا سخت گیر مذہبی موقف کا حامل ہے اور دوسرا پیپلز پارٹی سے آیا ایک پراگریسو سوچ کا حامل دھڑا ہے۔
بلوچستان کے شہر گوادر میں عوام کی طرف سے ایک طویل دھرنے دیا گیا ہے جس کی قیادت جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے مولانا ہدایت رحمان کر رہے ہیں مگر مولانا کو پارٹی سے بالاتر ہو کر عوام کی قیادت ملی ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے عام آدمی کے مسائل کو لے کر احتجاج کیا ہے ان میں سر فہرست ماہی گیری کے حقوق کا تحفظ اور اس کے غیر قانونی شکار کا سدباب ، غیر ضروری سیکورٹی چوکیوں کا خاتمہ اور ایرانی سرحد کے ساتھ ملحقہ عوام کو ایران سے آزادانہ تجارت کا حق دینا شامل ہیں ان جائز مطالبات کا پورا کرنا حکومت کا فرض بنتا ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس عوامی تحریک کے مطالبات پر غور کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
اپوزیشن کی سیاست ٹھنڈی پڑی ہوئی ہے مولانا فضل الرحمان جس قسم کی تحریک چاہتے تھے مسلم لیگ اس پر راضی نہیں ہے جس میں سرفہرست اسمبلیوں سے استعفی اور اسلام آباد پر چڑھائی ہے۔ نون لیگ کے اندر سے ابھی سے اگلے وزیراعظم کے امیدوار کا فیصلہ نہیں ہو پا رہا ہے جہاں شاہد خاقان عباسی نے فرمایا ہے کہ وزارت عظمی کے اگلے امیدوار شہباز شریف ہوں گے وہیں پر دوسرے گروپ کے زبیر عمر نے اس کی تردید کرتے ہوئے مریم نواز کے ایک پوٹینشل امیدوار کے طور پر ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مریم نواز اس وقت اپنے بیٹے کی شادی کی تقریبات میں مصروف ہیں جہاں انھوں نے پرانے انڈین گانے گنگنا کر اپنی آواز کا بھی لوگوں کو گرویدہ کر لیا ہے جبکہ ان کے کزن حمزہ شہباز نے کشور کمار کا گانا گا کر سماں باندھنے کی کوشش کی مگر ان کا رنگ نہیں جم پایا اور ہر طرف مریم نواز کی آواز کی تعریف کی گئی۔ لاہور میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی خاطر خواہ ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی اسکی ایک وجہ یہ تھی کہ پی ٹی آئی کا کوئی امیدوار ہی نہیُں تھا مگر اس سے پیپلز پارٹی کی قیادت کو پنجاب سے کامیابی کے خواب آنا شروع ہو گئے ہیں اور اس حوالے سے آصف زرداری اور بلاول زرداری نے لاہور کے دورے کیے ہیں۔ اب بقیہ مدت میں عمران خان عوام کو کتنا ریلیف دے پاتے ہیں یہ اگلے الیکشن میں ان کے امکانات کا تعین کرے گا۔ صحت کارڈ کی صورت میں عوام کو ایک ریلیف مہیا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مگر جب تک بجلی پیٹرول اور کھانے پینے کی اشیا سستی نہیں ہوں گی اور تنخواہ دار طبقہ اس قابل نہیں ہو گا کہ اپنی مہینے کی تنخواہ سے پورا مہینہ گزار سکے حکومت مشکلات میں گھری رہے گی۔ اس طرح کسان کو سستی کھاد بجلی اور ڈیزل دینا ہی دیہاتی علاقوں میں اس کی پوزیشن مضبوط بنا سکتا ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments