سورج پر کمند


آرٹس کونسل کراچی میں 11دسمبر کو چودھویں عالمی اردو کانفرنس کے سلسلے میں ہونے والی تقریبات میں ایک اہم تقریب ڈاکٹر حسن جاوید اور محسن ذوالفقار (مقیم لندن) کی تحریر شدہ تین جلدوں پر مشتمل کتاب سورج پر کمند کی ایک تعارفی نشست تھی۔

تقریب کی صدارت معروف سماجی کارکن محترمہ انیس ہارون نے کی جب کہ نظامت کے فرائض این ایس ایف کے سابق رہنما اکرم قائم خانی (مقیم لندن) اور ڈاکٹر میرزا علی اظہر نے انجام دیے۔

 یہ کتاب ماضی کی ایک اہم طلبا تحریک این ایس ایف کی جدوجہد کے حوالے سے ہے۔ کتاب میں تحریک کے مختلف ادوار کا جائزہ لیا گیا ہے۔

 شرکا سے خطاب کرتے ہوئےممتاز ٹی وی مبصر اور بی بی سی سے وابستہ صحافی وسعت اللہ خان نے کہا کہ زمانہ طالب علمی میں اُن کا تعلق این ایس ایف کی مخالف تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا، لیکن بعد میں وہ خِرد کے رستے پر گامزن ہوگئے۔ انھوں نے کہا کہ آج کا نوجوان اپنے حالات کے مطابق جدوجہد کر رہا ہے اور یہ اپنی پرانی نسل کی ترقی پسندانہ روایت کو سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے آگے بڑھا رہاہے۔ انھوں نے پرانی نسل سے درخواست کی کہ وہ اپنے قصے سنانے کے بجائے نئی نسل کو اس کے پیراہن میں سمجھنے کی کوشش کرے۔

ڈاکٹر جعفر احمد نے کہا وہ بھی دائیں بازو کے ماحول میں پلے بڑھے لیکن وقت نے اُنہیں بھی تبدیل کردیا۔ انھوں نے دونوں مصنفین کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ دونوں نے باہر بیٹھ کر دس سال کی عرق ریزی کے بعد وہ کام کردیا ہے جو مستقبل کے تحقیق کاروں کے لیے بنیاد کے پتھر کا کام ثابت ہو گا۔ انھوں نے کہا یہ ایک اہم دستاویز ہے، بدقسمتی سےاس طرح کی تحریر کی روایت ہمارے یہاں نہیں ہے۔

 ممتاز تجزیہ کار اور ٹی وی مبصر مظہر عباس نے کہا کہ بائیں بازو کی تحریک کو نقصان دیگر عوامل کے علاوہ اس تحریک کے لیڈروں کی وڈیرانہ سوچ سے بھی پہنچا ہے۔

 صحافی مہناز رحمان نے کہا کسی بھی تحریک میں پرانی نسل کے تجربے کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، دونوں کو ایک دوسرے کے اشتراک کی ضرورت رہتی ہے۔

سابق جج رشید رضوی نے کہا کہ این ایس ایف کو پیپلز پارٹی نے بہت نقصان پہنچایا۔ بھٹو صاحب نے آتے ہی این ایس ایف کے مقابلے میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کھڑی کر کے اور این ایس ایف پر سختیاں کر کے اس کے راستے مسدود کر دیے۔

ڈاکٹر شیر شاہ نے نوجوانوں کو موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے سنبھل کے چلنے کا مشورہ دیا۔

لطیف چوہدری سابق صدر این ایس ایف نے کہا کہ نظریہ جاری رہتا ہے، لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔

 ڈاکٹر حسن جاوید کا اسکائپ پر شرکا کے لیے ایک پیغام بھی دکھایا گیا جس میں انھوں نے بتایا کہ کتاب کو لکھنے کے دوران انھوں نے اور اُن کے شریک کار نے مواد کی درستی کے لیے کس درجے کی کاوش کی ہے۔کسی چھوٹے پمفلٹ سے لے کر اخبار کےکونے میں چھپی ہوئی چھوٹی خبر کو بھی نظر انداز نہیں کیا

تقریب کے ایک اہم شریک سابق صحافی بابر ایاز بھی تھے جو وہیل چیئر پر تھے۔ بیماری کے باعث وہ بولنے سے قاصر تھے لیکن قریب جاکر محسوس ہوتا تھا کہ گویا کہ رہے ہوں کہ مجھے نہیں میری روح کو دیکھو۔

 تقریب میں ممتاز مصنف، ماضی کے اہم ٹی وی میزبان، اداکار مستنصر حسین تارڑ نے بھی شرکت کی۔

 دھوپ تیز تھی اور شامیانے سے چھن چھن کے آرہی تھی لیکن زندگی کی بیاسی بہاریں دیکھنے والے تارڑ تقاریر سنتے رہے۔

آخرمیں صدر محفل انیس ہارون اور ناظم نشست اکرم قائم خانی نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ کتاب کو پڑھنے اور پھیلانے کے عمل کو تیز کیا جائے گا۔

 اکرم قائم خانی نے آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ کا تقریب کے انعقاد پر تعاون کے لیے خصوصی شکریہ ادا کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments