بہاری اور بنگالی شہری: کٹے بازو کے لٹکتے بےآسرا حصے


سن 2000 کی بات ہے جب مادرعلمی حراسکول میں بچوں کی سالانہ تقریب انعامات کا انعقاد ہوا تو ایک خاکہ پیش کیا گیا۔ یہ خاکہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کےاسباب پر مشتمل تھا۔ اس خاکے میں بتائے جانے والے اسباب سے زیادہ قابل ذکر بات یہ تھی کہ جب گتے کے بنے بازو کو کاٹ کر سرخ رنگ کی سیاہی ڈالنے کی کوشش کی گئی تو ازحد کوشش کے باوجود خاکہ پیش کرنے والے طالب علم پلاسٹک کی بنی ہوئی بوتل سے سیاہی نہ نکال سکے۔
آج اس واقعے کے اکیس سال بعد اس واقعے کو پڑھ کر قارئین بھی سوچ رہے ہوں گے کہ بھئی سیاہی نکالنے کےلئے سوئی کیوں نہ رکھی گئی، کوئی اورمتبادل انتظام کیوں نہ کیا گیا۔ اگر آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو کچھ ایسے ہی تاثرات کا اظہار آپ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب،حالات و واقعات پڑھنے کے بعد بھی کریں گے۔
مطالعہ پاکستان کے مطابق تو دراصل شیخ مجیب الرحمن ہی غدارقرار پائے۔ اس ولن کا ساتھ مکتی باہنی اوربھارت نے دیا۔ مگر دیکھا جائے تو شیخ مجیب الرحمن یا پھر مکتی باہنی اورانڈیا سے زیادہ ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات، انائیں ، اقدامات ہی تھے جو اس مملکت کو دولخت کرنے کی وجہ بنے۔
ان حالات و واقعات کی تفصیل آپ کو کسی بھی غیر جانبدار مورخ کی تصنیف سے مل جائے گی۔ میں یہاں لکھنے بیٹھ گیا تو غداری اور دیش دروہی کے الزامات سے جھولی بھروا بیٹھوں گا۔
افسوسناک بات تو یہ ہے کہ جس مطالعہ پاکستان میں اس المناک قصے کی داستان بیان کرکے مجھ سمیت دیگر طلباء میں کسک ڈالی گئی کہ کاش ہم ایک ملک ہوتے۔ وہیں یہ بتانا تو کسی نے گوارا نہ کیا کہ اس ملک کی محبت میں ہجرت کرکے آنے والے اور مکتی باہنی کے خلاف پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والے افراد بھلا کن حالات میں ہیں۔
ویسے ہم محسن کش قوم کو بتا بھی دیا جاتا تو بھلا ہم نے کیا کرلینا تھا۔ ہم تو وہ ہیں جو گلی محلوں میں کسی کا نام بگاڑنے اورتضحیک کے لئے اسے بنگالی یا بہاری کہہ کر پکارنا شروع کردیتے ہیں۔
شہر میں سٹریٹ کرائم بڑھے یا پھر چوری ڈکیتی کی وارداتیں زیادہ ہوں بھیا آفت ہم غریبوں پر آپڑتی ہے ، یہ کہنا تھا کراچی کے پسماندہ ترین علاقے کے گلی سڑی تنگ گلیوں کے مکین ارشد کا،میں نے حیرت سے دریافت کیا کہ بھیا ایسا کیوں ،تو جواب ملا ،بنگالی ہیں نا ، شناختی کارڈ تو ہے نہیں نا ہی اس ملک کی شہریت ،پھر بھلا پولیس والوں کو کیا لگے کہ ہم کریمنل ہیں یا نہیں۔
بھیا ہم تو وہ لوگ ہیں جنہیں نہ تو بنگلہ دیش والے اپناتے ہیں نا ہی وہ لوگ جو ہر سولہ دسمبر کو ملک الگ ہونے کا ماتم منارہے ہوتے۔ ہم تو اس کٹے بازو کے لٹکے ہوئے وہ لوتھڑے ہیں جن کا علاج تو نہ کیا گیا بلکہ گلنے سڑنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔
ہمارا قصور تو بس یہ تھا اور ہے کہ اس ملک کی محبت میں مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) سے یہاں (کراچی) منتقل ہوئے۔ اب یہاں تو یہ حالات ہیں کہ نہ تو اعلی تعلیم یا ڈھنگ کی نوکری حاصل کرسکتے کیونکہ اس کے لیے شناختی دستاویزات کی ضرورت ہوتی۔ یہ کہانی صرف ارشد کی نہیں پاکستان میں آباد تیس لاکھ میں سے بیس لاکھ بنگالی بہاریوں کی ہے۔
ان افراد کو سن دو ہزار تک تو نادرا کارڈ کے ذریعے کچھ سہولیات حاصل تھیں۔ مگر نادرا کارڈ بلاک کئے جانے کے بعد تو یہ دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ صبا خاتون جو کہ کراچی کی کی رہائشی اور بہاری ہیں نے بتایا کہ حالات تو یہ ہیں کہ سم کارڈ ،موبائل سے لے کر بس کی ٹکٹ تک کے لئے شناختی کارڈ مانگا جاتا ہے۔ اب شناختی کارڈ کے لئے نادرا کی جانب سے تیس ، تیس ،چالیس چالیس سال پرانے سرکاری دستاویزات مانگے جاتے ہیں۔ اب ہم کہاں سے یہ دستاویزات لائیں۔
صباء خاتون کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے بنگالیوں اور بہاریوں سمیت افغانیوں کو شہریت دینے کے اعلان کے بعد ہم لوگوں میں امید کی کرن جاگی تھی۔ مگر یہ اعلان بھی عملی اقدامات کی شکل نہ اختیارکرسکے۔
اب شہریت (ڈومیسائل)کے حصول کے لیے ہم پاکستانیوں کو بھی کم سے کم ایک ہزار روپے ایجنٹ کو دینے پڑتے ہیں۔ اگر جوش پکڑ کر بغیر پیسوں کے یہ کام کرنے کی نیت کی جائے تو بھی برتھ سرٹفکیٹ سے لے کر ووٹر لسٹ اور درجنوں تصدیقی دستخطوں کا کھیل پاگل کردینے والا ہوتا ہے۔ ایسے میں ان ایلینز (تارکین وطن)کو کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہونگے ان کا تو ہم لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔
صبا خاتون نے وزیراعظم پاکستان اور  21 کروڑ پاکستانیوں سےالتجا کی کہ بجائے ماضی کے قصے پر ماتم کرنے کے ہم زندہ درگوروں کے لئے آواز اٹھائیں۔ ورنہ ایک دن آئے گا کہ اہل کوفہ کی طرح یہاں کوئی دعوت دینے ہر بھی ہجرت کرکے نہ آئے گا۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments