اپنی کمزوری، دُشمنوں کے ہاتھ


گزشتہ دنوں سوشل میڈیا کے ذریعے سوئٹزر لینڈ میں ہم جنسوں کی شادی اور محترمہ سعیدہ حسین وارثی کے انٹرویو سے مجھے ہارورڈ یورنیورسٹی کے ایک پروفیسر کی ایک بہت گہری بات یاد آئی، جس کا پاکستان کے مستقبل سے گہرا تعلق ہے۔ پہلے سوئٹزر لینڈ کا ذکر۔ یورپین ممالک میں شخصی آزادیوں کا چلن بہت پرانا ہے۔ مذہبی اور سماجی لحاظ سے اِن آزادیوں کی ایک ناپسندیدہ شکل سرکاری سطح پر ہم جنس پرستوں کے درمیان ازدواجی تعلقات کی اجازت ہے۔ پہلے ہالینڈ پھر بلجیم اور اسپین نے ہم جنس پرستوں کے ایسے ہی مطالبات کو تسلیم کیا۔ ستمبر 2021تک آسٹریا، فن لینڈ، فرانس، جرمنی، ناروے، پرتگال، اسپین، سویڈن اور برطانیہ سمیت یورپ کے 16ممالک میں ایسی شادیوں کو قانونی اجازت مل چکی ہے۔ سوئٹزر لینڈ نے 2005میں ریفرنڈم کروایا اور 2007میں رجسٹریشن کی اجازت ملی۔ پارلیمنٹ میں بل پیش ہونے کے بعد پھر ریفرنڈم ہوا۔ 64فیصد رائے دہندگان کی منظوری کے بعد گزشتہ دِنوں قانون کو حتمی شکل ملی۔

سوئٹزر لینڈ کے بعد اب ذکر کرتے ہیں محترمہ سعیدہ حسین وارثی کے حالیہ انٹرویو کا۔ اِس پاکستانی نژاد خاتون نے اپنی پچاس سالہ زندگی کے دوران ایک کامیاب وکیل اور سیاستدان کی حیثیت سے اپنی صلاحیتیں منوائیں۔ کنزرویٹو پارٹی نے اُنہیں ہائوس آف لارڈز کا ممبرنامزد کیا۔ وہ برطانوی معاشرے پر دو کتابیں لکھ چکی ہیں۔ ایک کا عنوان The Enemy Withinاور دُوسری کا A Tale of Muslim Britainہے۔ اُنہوں نے برطانیہ میں سماجی تبدیلیوں اور مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اِن دنوں تارکینِ وطن کی نئی نسل تعصب کا شکار ہونے پر اپنے آبائی وطن لوٹ جانے کے بارے میں سوچتی ہے۔

اب آتے ہیں سوئٹزر لینڈ اور سعیدہ وارثی کے حوالے سے یاد آنے والی بات کی طرف۔ 2007کے آغاز میں راقم کو ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ میں دُوسرے پاکستانی افسروں کے ہمراہ ایک تربیتی کورس میں شمولیت کا موقع ملا۔ نامور امریکی دانشور اور سرکاری عہدیداروں نے اپنے افکار و تجربات کی روشنی میں سماجی، انتظامی اور سیاسی اُمور کا تجزیہ کیا۔ ایک دن لیکچر کا موضوع ’اظہارِ رائے‘ کی آزادی سے متعلق تھا۔ عمرانیات اور ابلاغِ عامہ کے ایک نامور پروفیسر نے دورانِ گفتگو ڈنمارک کے ایک اخبار سے منسلک اُس دلخراش جسارت کا ذکر کیا جس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے تھے۔ آزادیٔ رائے کے یورپین قوانین کا تذکرہ کرتے ہوئے اُنہوں نے فرمایا کہ پیغمبر اسلام ؐکے خاکے شائع کرنا قانون کی خلاف ورزی نہیں تھی۔ نتیجہ اخذ کیا کہ اسلامی ملکوں میں پُرتشدد ردِعمل یورپین اقوام اور مسلمانوں کے درمیان رواداری اور برداشت کے رویوں میں واضح فرق کا عکاس ہے۔ مسلمان معاشروں میں ابھی تک دُوسروں کی رائے کا احترام بہت نچلی سطح پر ہے۔ دین اسلام کے پیروکاروں کو مغربی معاشرے کے ساتھ نباہ کا طریقہ سیکھنے کے لیے صدیاں درکار ہوں گی۔

اُن کی بات سُن کر حاضرین خاموش تھے۔ پروفیسر کی کوشش تھی کہ حاضرین کے نقطہ نظر کو سمجھ کر ابہام دُور کیے جائیں۔ میرا سر نفی میں ہلتے دیکھ کر اُنہوں نے حوصلہ افزائی کی۔ اختلاف رائے پر اُکسایا۔ میرے جذبات اتنے بھڑکے ہوئے تھے کہ اظہار مشکل ہو رہا تھا۔ آواز پر جذبات حاوی ہو گئے۔ چھوٹتے ہی کہا کہ آپ جان بوجھ کر اِس واقعہ کا غلط تجزیہ کر رہے ہیں۔ معاملہ یورپین قوانین اور مسلم ردِعمل کا نہیں بلکہ حقیقت کچھ اور ہے۔ بات اگرصرف آزادیٔ رائے تک محدودہوتی تو ہٹلر کے زمانے میں یہودیوں کے قتلِ عام جسے Holocaustسے موسوم کیا جاتا ہے، اُس کی نفی کرنا یورپ کے کئی ملکوں میں قابلِ تعزیر جُرم قرار نہ دیا جاتا۔ آج اگرکوئی یورپین شہری کہے یا لکھے کہ نازی جرمنی میں یہودیوں پر مظالم کی تاریخ مبالغہ آرائی ہے تو اُس کے خلاف قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی میں ایک طرف تاریخی واقعات پر اختلاف رائے جرم ٹھہرے، دُوسری طرف مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کی کھلی اجازت دی جائے، کیا آپ اِس تفاوت کا جواز بتا سکتے ہیں؟

دانشور پروفیسر میری بات سُن کر کچھ لمحے غور کرتا رہا۔ پھر کہا کہ وہ بذاتِ خود Holocaustکی نفی کو جُرم تصور کرنے کے خلاف ہیں۔ پھر مجھے مخاطب کیا کہ آپ کے مطابق تنازع آزادیٔ رائے سے متعلق نہیں تو اصل معاملہ کیا ہے، اِس کی وضاحت کریں۔ میرا جواب سُن کر وہ سوچ میں پڑ گئے۔ میرا کہنا تھا کہ یورپ میں بہت سے دانشور اور تھنک ٹینک، مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے پریشان ہیں۔ شمالی افریقہ، مڈل ایسٹ، ترکی اور ایشیا سے آنے والے تارکینِ وطن کی بہت بڑی تعداد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مسلم مخالف گروپ اِس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ نقل مکانی (Immigration)کے علاوہ مسلمانوں میں کثرتِ اولاد کا رجحان اُن کی تعداد میں بتدریج اضافہ کر رہا ہے۔ دُوسری طرف یورپین شہری نہ صرف کم بچے پیدا کرتے ہیں بلکہ ہم جنسوں کی شادیوں سے اُن کی آبادی کا تناسب مستقبل میں مزید کم ہوتا جائے گا۔ عرض کیا کہ سازش تھی کہ توہینِ رسالتؐ سے یورپین مسلمانوں کے جذبات بھڑک اُٹھیں، وہ جلوس نکالیں، توڑ پھوڑ کریں، گاڑیوں اور عمارات کو آگ لگائیں۔ اِس طرح یورپی ممالک کو بہانہ مل جائے گا کہ وہ مسلمان تارکین وطن کی شہریت منسوخ کر دیں مگر یورپین مسلمان شاید اِس سازش کو سمجھ گئے۔ اُنہوں نے اپنے جذبات کا اظہار بہت پُرامن طریقے سے کیا اور اسلام مخالف یورپین گروہوں کے بچھائے ہوئے جال میں نہیں آئے۔

اب آتے ہیں پروفیسر کی گہری بات کی طرف، جو ہر لحاظ سے قابلِ فکر ہے۔ اُنہوں نے یورپین مسلمانوں کے خلاف سازش کے نظریے سے اتفاق نہیں کیا۔ کہا کہ متنازع خاکے 30 ستمبر 2005 کو چھپے مگر پاکستان سمیت دُنیا کے بیشتر اسلامی ممالک میں آئندہ چھ مہینے تک جلسے جلوسوں اور پُرتشدد احتجاج سے زندگی متاثر رہی۔ اُن کے پاس اعداد و شمار تھے۔ بتایا کہ مختلف اسلامی ملکوں میں مسیحیوں کے گرجا گھر جلائے گئے، سفارت خانوں پر حملے ہوئے، نائیجیریا میں45، لیبیا میں10، افغانستان میں 4 اور باقی ملکوں میں ہلاکتوں کے علاوہ بےشمار لوگوں کا کاروبار متاثر ہوا۔ پاکستان بارے اُنہوں نے خاص طور پر توجہ دلائی کہ اسلام آباد اور لاہور میں مظاہروں کے دوران بھی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ جاتے جاتے کہہ گئے کہ خاکے بنانا سازش نہیں تھی مگر مسلمان ملکوں کو ڈرنا چاہیے کہ اُنہیں غیرمستحکم کرنے کا بڑا آسان نسخہ مخالفین کے ہاتھ لگ گیا ہے۔

بشکریہ: جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments