انسانی زندگی تغیر پذیر ہے۔ ہر لمحہ اس میں تبدیلی آتی ہے۔ یہ دنیا بڑے بڑےحادثات سے دوچار ہوئی لیکن انسان ترقی کرتا چلا گیا۔ غاروں کو مسکن بنانے والوں نے پہاڑوں کو ذروں میں بدل دیا۔ چاند کو پوجنے والوں نے چاند کو قدموں تلے روند دیا۔ انسان نے ناقابلِ تسخیر کو مسخر کرلیا۔ اپنے دفاع کومضبوط بنا کر مستقبل کو محفوظ کرلیا لیکن دنیا میں کچھ حادثات و واقعات یا قدرتی آفات ایسے رونما ہوئے جنہوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ انسان کو اُس کا مقام بتا دیا اور اس کے سارے خواب ریزه ریزه کردیئے لیکن اس کے ساتھ ہی ان حادثات نے انسان کو زیاده مضبوط اور پرُعزم بنادیا۔
کرونا وائرس بھی ایسی ہی وبا یا قدرتی آفت ہے جس کا سامنا پوری دنیا نے کیا اور تا حال کر رہی ہے۔ اس وبا اور لاک ڈاون سے کس کو کتنا فائدہ اور کتنا نقصان ہوا اس کا درست اندازہ تو ماہرینِ شماریات ہی لگا سکتے ہیں۔ تاہم پاکستان میں اس کے سماجی اور اقتصادی اثرات بہت شدت سے نمایاں ہوئے ہیں اور جو پستی اور تباہی تعلیمی شعبے میں ہوئی اس کی تلافی ممکن نہیں۔ دن بہ دن تنزلی کا شکار ہوتے تعلیمی نظام کی ساری خامیوں کو اس وبا نے بالکل ہی بے نقاب کردیا ہے۔
وبا کی شدت کے دنوں میں تعلیمی ادارے بند کرنا مجبوری اور عقلمندی ہی سہی لیکن اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ طالب علموں کے ہونے والے نقصان کی تلافی کی جاچکی ہے۔ ادارے بند ہونے کی صورت میں جو متبادل نظام لانے کی کوشش کی گئی وہ مسائل حل کرنے کے بجائے مسائل بڑھانے کا سبب بنا۔ آن لائن کلاسز کا اجرا تو کیا گیا جو یقیناً ایک بہترفیصلہ تھا لیکن۔ جب تقریباً ایک تہائی پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کی سہولت ہی میسر نہیں تو اس نظام کی افادیت کیوں کر سامنے آتی؟
دوسرا اہم مسلہ بہت سے طالب علموں کے پاس کمپیوٹر،لیپ ٹاپ اورسمارٹ فون موجود نہیں جس کی وجہ سے وہ اس نظام سے فیض یاب نہیں ہوسکے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ٹیکنیکل اور سائنسی تعلیم کی کمی کے سبب خود اساتذہ بھی اس نظام اور ان ایپس کے استعمال سے نابلد ہیں جو طلباء کی تعلیم میں عدم دلچسپی کا بڑا سبب بنا۔
بطور استاد میں نے بذاتِ خود بہت سے والدین کو اس بات کی شکایت کرتے دیکھا کہ موبائیل فونز دینے سے پہلے بچے کی تعلیمی کارکردگی اطمینان بخش تھی لیکن آن لائن کلاسز کی بدولت سمارٹ فونز دینا مجبوری بن گئی ہے اور بچے پڑھائی سے زیادہ گیمز اور ویڈیوز پر توجہ دینے لگے ہیں یوں ان کی تعلیمی کارکردگی بہت کم ہوگی ہے۔
 سمارٹ ڈیوائسز کی کمی، انٹرنیٹ کی رفتار، بجلی کی بندش اور مہنگے پیکجز کے علاوہ جو ایک سب سے بڑا مسلہ سامنے آیا وہ بھی تھا کہ استاد کو سامنے کھڑے دیکھ کر جس طرح طالب علم توجہ اور دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ آن لائن کلاسزز میں تقریباً مفقود تھا۔ سوالات نہ کرسکنے اور استاد میں دلچسپی برقرار نہ رہنے کے سبب وہ تعلیم میں توجہ قائم نہیں رکھ سکے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اساتذہ کی پوری محنت کے باوجود بھی بچوں کی کارکردگی بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوگی۔
ایسے میں سمارٹ سلیبس اور تمام مضامین کے امتحان نہ لینے والے غیر دانشمندانہ فیصلوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ سائنسی مضامین میں تو طلباء پھر بھی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن آرٹس اور لازمی مضامین انگریزی، اردو، اسلامیات، مطالعہ پاکستان سے غفلت برتتے ہیں۔ ایسے میں ان کو نظام امتحانات سے بلکل ہی خارج کردینے سے انتہائی برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
ان سب خامیوں کے باوجود طلباء کو جو تیس فیصد نمبروں کی رعایت دی گئی اس نے تعلیمی معیار کو بلکل ہی مسمار کردیا۔ میرٹ بڑھ جانے پر اکثر طلباء کا داخلہ لینا ہی دشوار ہو گیا۔ الغرض حکومت کو تعلیم۔ اور تعلیمی نظام پر توجہ دینی چاہیے۔ ابھی پاکستان میں ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی کہ ہم بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے طالب علموں کو آن لائن کلاسزز دے سکیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنے تعلیم اداروں میں ٹیکنیکل اور سائنسی تعلیم کو فروغ دینا ہوگا تب ہی ان مسائل کا مقابلہ کر سکیں گے اور اس جدید نظام سے پوری طرح مستفید ہوں گے۔