کیا کہیں، کیا سنیں


ذاتی اور قومی سطح پر مسرت و انبساط اور غمزدہ واقعات و سانحات کو یاد کرنے کا کوئی خاص لمحہ یا دن نہیں ہوتا۔ یہ قدرتی عمل ہے، خاص کر حادثات اور سانحات کے ضمن میں ہر دانش ور اور فہیم فرد و قوم ان اسباب اور وجوہات پر ضرور غور کرتی ہے کہ خاص طور پر غمزدہ کرنے والے، پچھتاوے اور دل دہلا دینے والے واقعات میں کہاں، ہماری غفلت، لاپرواہی اور نظر انداز رویہ کا عمل دخل رہا اور کہاں تک کاتب تقدیر نے ایسے واقعات ہماری قسمت میں لکھ رکھے تھے۔ لیکن ضروری یہی ہے کہ ہمیں رنجیدہ اور اشک بار کرنے والے سانحات کے محرکات کو جانیں اور اپنے طرز سوچ کو بدلیں۔

دسمبر 16 کا دن دو حوالوں سے ہماری قومی تاریخ میں سیہ باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی دن 2014 ء میں آرمی پبلک اسکول، پشاور میں دہشت گردوں کے ہاتھوں اساتذہ اور طلباء کی ہلاکت کو 7 برس کا عرصہ ہونے کو آیا۔ پاکستانی قوم اس گھاؤ اور دہشت گردوں کے بزدلانہ وار کو کبھی فراموش نہیں کر پائی۔ اس واقعہ کی جزئیات کو بیان کرنا متاثرہ خاندانوں کے زخموں کو تازہ کرنے کے مترادف ہے۔ حالیہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت وقت کو متاثرہ خاندانوں کو انصاف کی فراہمی کے لئے چار ہفتوں کی مہلت دی ہے۔

اگرچہ اس واقعہ میں ملوث افراد کو سزائیں دی گئی ہیں۔ لیکن متاثرہ خاندان اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ہمارے بچوں کے قتل میں ملوث مجرموں اور ان کی مدد کرنے والے افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جایا۔ نیکٹا (National Counter Terrorism Authority۔ NCTA) کے سابق سربراہ عثمان غنی کا کہنا ہے APS کے سانحے سے قبل بھی کئی ایسے سانحے واقع ہوئے جس میں زیادہ جانی نقصان ہوا لیکن APS پشاور کے واقعہ نے پوری قوم کو اس بات پر متحد اور متفق کر دیا کہ دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جائے۔

بعض اوقات ہم زندگی کے بارے میں بہت غلط تاثر رکھتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ ہماری زندگی میں بڑے واقعات بڑے مخمصوں یا بڑے فیصلوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اور شاید اس میں حقیقت بھی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں 16 دسمبر کے حوالے سے ایک اور سیاہ باب سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے۔ آج سے 50 برس قبل اسی دن پاک بھارت جنگ کا خاتمہ مشرقی پاکستان کے علٰیحدگی پر ہوا۔ اس دن مشرقی پاکستان میں جنرل نیازی نے ہندوستانی افواج کے سربراہ جنرل ارورہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی دستاویزات پر دستخط کیے ۔

آج اس گہرے گھاؤ کے ممکنہ محرکات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ 1958 ء کی مارشل لاء نے سقوط ڈھاکہ کی راہ ہموار کی۔ کہنہ مشق صحافی اور تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ اس قومی المیہ کی وجہ آئینی تسلسل میں تعطل تھا۔ کیونکہ سابق صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب نے ملک کی باگ ڈور سیاسی ہاتھوں میں دینے کی بجائے فوج کے ہاتھوں میں سارے اختیارات دے دیے۔ 1962 ء کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان سے منتخب ہو کر آنے والے قومی اسمبلی کے ارکان دھواں دھار تقریریں کر کے ایک ایک مسئلہ کو اسمبلی میں اٹھاتے تھے۔

اور کہتے تھے کہ ملک کے نظام میں مساوات نہیں ہے۔ بعد ازاں لکھی جانے والی کتب میں یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ سابق صدر ایوب نے سابق چیف جسٹس منیر خان سے کہا کہ قومی اسمبلی میں یہ روز روز کی بے چینی پھیلانے والی تقاریر کا سلسلہ کوئی اچھی بات نہیں، لہٰذا جسٹس صاحب کو ہدایت کی گئی کہ وہ ڈھاکہ جا کر مشرقی پاکستان کے راہنماؤں اور ارکان سے بات کریں کہ اگر وہ ہم سے علیحدہ ہونا چاہیں تو ہو جائیں۔ جسٹس صاحب یہ پیغام لے کر ڈھاکہ گئے اور وہاں کی قیادت سے ملے تو انہوں نے کہا کہ حکومت میں اکثریت تو ہماری ہے، اس لئے اگر مغربی پاکستان کو علٰیحدہ ہونا ہے تو وہ ہوجائیں۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ 1962 ء میں ہی فوجی حکمرانوں میں یہ سوچ پیدا ہو چکی تھی کہ مشرقی پاکستان کے ساتھ آئینی اور سیاسی معاملات میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے علٰیحدگی کی صورت حال بنتی جا رہی تھی کہ شاید مغربی اور مشرقی پاکستان مزید ساتھ نہ چل سکیں۔

سابق جنرل یحییٰ خان سیاسی مسائل سے نابلد تھے۔ انہوں نے چند ایسے بڑے فیصلے کیے جو متحدہ پاکستان کے دونوں بازوؤں کی علٰیحدگی کی وجہ بن سکتے تھے۔ ان کے چند آئینی فیصلوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان کو انتخابات میں 62 % اکثریت حاصل ہو گئی۔ اس لئے وہ آزادانہ طور پر قانون سازی کرنے اور باآسانی کسی بھی قانون میں ترمیم کر سکتے تھے۔ مشرقی پاکستان کو اختیارات کے منتقلی کی صورت حال عام انتخابات سے قبل ہی عمل میں آ چکی تھی۔

حالات یہ بتا رہے تھے کہ جنرل یحییٰ خان ملک کے صدر بننا چاہتے ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو کی موجودگی میں ایسا ممکن نہیں تھا۔ اس لئے مجیب الرحمٰن کو وزیر اعظم بنانے کا سوچ لیا گیا تھا۔ یہ بھی ایک شق تھی کہ اسمبلی کے حلف اٹھانے کے بعد 120 دن کے اندر منتخب حکومت دستور بنائے گی، جو کہ صدر جنرل یحییٰ خان کے دستخط سے نافذ العمل ہو گا۔ اس طرح اقتدار کے حصول کی جنگ نے متحدہ پاکستان کو تباہ کر دیا۔

اس کے علاوہ لیگل فریم ورک آرڈر (LFO) دراصل وہ ڈنڈا تھا جو کہ مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کی وجہ بنا۔ اس آرڈر میں بہت سی چیزوں کو ممنوع قرار دے دیا گیا تھا اور حدود متعین کر دی گئی تھیں کی انتخابی مہم کیسے چلی گی۔ ان حدود اور پابندیوں کی وجہ سے سیاسی معاملات بری طرح پامال ہوئے۔ پاکستان کی تاریخ کی سب سے لمبی انتخابی مہم چلی جو 11 ماہ طویل تھی۔ انتخابی مہم کا اس طور طویل چلنا سیاسی لحاظ سے نامناسب تھا۔ اگر 120 کا ڈنڈا نہ ہوتا اور شیخ مجیب سے نہ کہا جاتا کہ وہ اس LFO کو مانیں تو پاکستان ایک اچھی Confedration کی شکل میں بچ سکتا تھا۔

انتخابی مہم کے دوران مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے علاوہ کوئی جماعت جلسہ نہ کر سکی۔ 1970 ء میں ڈھاکہ میں جماعت اسلامی کا پہلا اور آخری جلسہ ہوا یا ہونے نہ دیا گیا، کیونکہ اس جلسے کر شرکاء پر عوامی لیگ کے حملے کے نتیجے میں بہت سی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ جلسے کے سامان کو آگ لگا دی گئی۔ سابق میجر راؤ فرمان علی لکھتے ہیں کہ کہ دراصل پاکستان اسی دن ٹوٹ گیا تھا۔ فوجی حکومت نے عوامی لیگ کو لگام دینے کی بالکل کوشش نہ کی تاکہ دوسری جماعتیں بھی مشرقی پاکستان میں انتخابی جلسہ کر سکتیں۔ اس طرح ایسے ماحول میں دوسری پارٹیاں چار دیواری میں چھوٹی چھوٹی سیاسی میٹنگ کرتی تھیں۔

1970 ء کے عام انتخابات کے بعد مارشل لاء حکومت سے جو کوتاہیاں ہوئیں اس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں مزید حالات بگڑے۔ ایسی صورت میں حکومت کے نزدیک فوجی آپریشن کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنے کے لئے آپریشن سرچ لائٹ کر نا پڑا جو کہ سیاسی طور پر ایک بڑی تباہی کا باعث بنا۔ پاکستانی پرچم کو سرنگوں کر کے جگہ جگہ نئی بنگلہ اسٹیٹ کا پرچم لگایا گیا۔ پھر بھی بغیر خون بہائے حکومتی رٹ قائم کی جا سکتی تھی۔ متحدہ پاکستان کے مشرقی بازو کی علٰیحدگی کے اور بھی محرکات تھے جن کا احاطہ کرنا اور اس کالم میں ممکن نہیں۔

پاکستان کی تاریخ کے یہ دونوں سانحات وہ سیاہ ابواب ہیں جنہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جو ہمیں اپنی آئینی، سیاسی اور عسکری پالیسیوں کو ملک کے مفاد میں تشکیل دینے اور اپنی ظاہرا اور پوشیدہ دشمنوں سے محتاط رہنے پر زور دیتے ہیں۔ کسی بھی میدان میں اور کسی بھی مرحلے پر ملکی بقاء اور مفاد ہی میں پوری قوم کی سلامتی مضمر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments