سولہ دسمبر پر رکی ہوئی ملکی تاریخ


سولہ دسمبر، پاکستان کا ادھ کٹا بازو اس دن مکمل طور پر الگ ہوکر خلیج بنگال میں گرگیا تھا۔ نصف صدی تک یہ ہاتھ کسی لائٹ ہاؤس کی طرح تاریخ کی بندرگاہ پر کھڑا رہا۔ وقت انتظار کرتا رہا کہ ایک دن چمکتی ہوئی لال بتی دیکھ کر لوگ راستہ پائیں گے اور منجھدار میں پھنسے پاکستان کے ٹائٹینک کو درست سمت میں موڑ دیں گے۔ مگر لگتا یہ ہے کہ پاکستان کی خوش بختیوں کی لکیریں اسی ہاتھ میں تھیں جو ٹوٹ کر ہم سے الگ ہوگیا تھا۔ یہ ہاتھ نیلے پانیوں کے تھپیڑے کھاتا ہوا اب گوادر کے ساحلوں پر پہنچ چکا ہے۔ یہ تاریخ کا سبق بن کر آیا ہے، مگر ٹرالرمافیا اسے موٹی تازی مچھلی سمجھ کر پھر سے جال پھینک رہا ہے۔

ابھی اس وقت بھی بلوچستان کے شہر گوادر کے ساحل پر عوام کی ایک بڑی تعداد بیٹھی ہے۔ انہیں اپنے شکوے شکایات کا دفتر پھیلائے ہوئے آج پورا ایک مہینہ ہوگیا ہے۔ یہ شکایتیں حکومت سے کم ریاست سے زیادہ ہیں۔ ان تمام شکایتوں کا خلاصہ نکالا جائے تو ایک ہی تقاضا ابھر کر سامنے آتا ہے، ہمارے ساحل اور وسائل پر ہمارے حق کو تسلیم کیا جائے۔

گوادر کے کنارے چلتے رہیں تو آپ سندھ کے مرکزی شہر کراچی پہنچ جاتے ہیں۔ یہ شہر دنیا کے دس بڑے تجارتی مراکز میں اپنا شمار رکھتا ہے۔ اس شہر کی اکثریتی آبادی اس وقت ریاست سے ناراض ہے۔ یہ لوگ اپنی ناراضی کا اظہار عام انتخابات میں بائیکاٹ کی صورت میں کر چکے ہیں، مگر جس ملک میں دیے گئے ووٹ گنتی میں نہ آتے ہوں وہاں نہ دیے جانے والے ووٹ کیونکر کسی شمار میں آسکتے ہیں۔ خاموشیوں کی زبان بولنے کا حق بھی یہاں صرف ترجمانِ عالی شان کو حاصل ہے۔

پاکستان کے تیسرے صوبے پختونخوا کی نمائندہ طاقتیں اس وقت ریاست سے ناراض ہیں۔ جنوبی پختونخواہ سے سنائی دینے والی آوازوں میں بھی سب لہجے شکایتوں کے ہیں۔ ناراضی کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ مختصر سے عرصے میں ہیومن رائٹس کی ایسی تحریک وہاں بربا ہوچکی ہے، جو دو گھنٹے کی نوٹس پر دنیا کے بیس ممالک میں لوگوں کو متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی تحریک کی کوکھ سے ایک نئی سیاسی جماعت بھی جنم لے چکی ہے۔ انداز مختلف ہوسکتے ہیں، مگر نئی اور پرانی سبھی تحریکوں اور تنظیموں کا کہا ایک ہی ہے، ہم آپ سے ناراض ہیں۔

لے دے کر ایک پنجاب رہ جاتا ہے، مگر اس کی اپنی بغل میں موجود سرائیکی وسیب کا دل بھی جلا ہوا ہے۔ زبان، شناخت، وسائل اور حقوق کے باب میں انہیں بھی ریاست سے ہی معاملہ درپیش ہے۔ لاہور کا سیاسی ذہن طاقت کے غیر جمہوری مراکز کی مداخلتوں پر تشویش کا برملا اظہار کر نے لگا ہے۔ گلگت بلتستان میں بے چینی کی لہر مسلسل موجود ہے۔ اس لہر پر قابو پانے کے لیے جو طریقے استعمال کیے جاتے ہیں وہ بے چینیوں میں اضافے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔

آپ کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ یہ سوال عوام سے کیا جاسکتا ہے۔ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ یہ تجویز عوام سے لی جاسکتی ہے۔ امن اور خوش حالی کی ضمانت کیا ہے؟ یہ عوام سے ہی پوچھا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے دنیا میں صدیوں سے ایک معلوم مکینیزم موجود ہے جسے جمہوریت کہتے ہیں۔ جمہوریت میں عوام اور ریاست کے بیچ کچھ نمائندے ہوتے ہیں جو عوام میں سے ہوتے ہیں۔ عوام اور ریاست کے بیچ سینگیں اڑ جائیں تو یہی نمائندے بیچ بچاؤ کرکے راستہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کوششوں کے روزنامچوں کو نچوڑ کر ہی ملک کا آئین تخلیق کیا جاتا ہے۔

مگر عوامی نمائندے کہاں ہیں اور آئین کہاں ہے؟

ریاست نے پہلے دن سے ہی طے کرلیا تھا کہ معاملے کے حل کے لیے آئین کی ثالثی کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ملک گنوانا پڑے گنوادیں گے، رسوائی کا جو گھونٹ پینا پڑے پی لیں گے، عوامی نمائندوں کو احترام نہیں دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آئین کی حرمت کی جنہوں نے قسم کھائی، وہ ملک و ملت کا غدار قرار دے دیے گئے۔ آئین کے پنوں سے جنہوں نے جوتا چمکائی کا کام لیا، ان کے نام کے جھنڈے بارہ برجوں پر لہرا دیے گئے۔

کسی کو اچھا لگے یا برا لگے، شیخ مجیب الرحمن اول و آخر عوامی نمائندے تھے۔ انہیں بیچ سے نکال کر جب غداری کی لکیر کھینچی گئی تو خود ہمارے پاؤں کے نیچے سے زمین کھنچ گئی۔ اس کا ہمیں ذرا بھی ملال ہوتا تو آج ملک کے ہر کونے میں ایک طرح کا اطمینان ہوتا۔ ہوتا مگر یہ ہے کہ آج شام اطمینان کا کوئی امکان پیدا ہوجائے تو اگلی صبح قومی سلامتی کا سوال پیدا ہوچکا ہوتا ہے۔ جس کسی کے ہاتھ میں اطمینان کی کنجی نظر آجائے، اسے تیسرا ہاتھ کہہ کر امکان کا سر کچل دیا جاتا ہے۔

آج بھی خیبر پختونخوا میں جو قیادت زمین سے اگتی ہے ریاستی مشینری اس کی جان کو آجاتی ہے۔ مقابلے میں ایسے پیداگیر اتاردیے جاتے ہیں جو طاقت کے غیر جمہوری مراکز میں وفاداری کا حلف جمع کرا کر آتے ہیں۔ بلوچستان کے اُن سارے لیڈروں کو نفرت کا نشان بنادیا جاتا ہے جو زمین سے اُگتے ہیں۔ ایسے دریوزہ گروں کو دیوتا بنادیا جاتا ہے جو عسکری سیمینٹ کے گملوں میں اگائے جاتے ہیں۔ کراچی میں عوام کی جنہیں تائید حاصل ہے وہ غدار ہوگئے ہیں۔ جو غدار نہیں ہیں ان کے پاس عوام کے کسی سوال کا جواب نہیں ہے۔ جو جتنا جلدی اسلام آباد سے کیریکٹر سرٹیفیکیٹ لے آئے، اسے اتنی جلدی گلگت بلتستان میں نمائندگی کا حق دے دیا جاتا ہے۔

سرائیکی خطہ کُل ملا کر ترازو کا ایک گھِسا ہوا باٹ ہے، جسے ریاست کے تائید کنندہ مقامی سوداگر سرائیکی انتخابات میں وزن پورا کرنے کے لیے کام میں لاتے ہیں۔

یہ ٹھیک ہے کہ ریاست کی تائید کنندہ جماعتیں بھی بظاہر ووٹ ہی لے کر آتی ہیں، مگر ان کو نجات دہندہ باور کروانے کے لیے غیر سیاسی بیانیوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ حب الوطنی کے نعرے، مذہب کے دائرے، باسٹھ تریسٹھ کے پیمانے، احتساب کے تماشے اور موروثیت والے حوالے۔۔۔ یہ سب غیر سیاسی حربے ہوتے ہیں۔ سیاسی بیانیے وہ ہوتے ہیں جو زمین کے اپنے سگے بچے لگاتے ہیں۔ اس میں وسائل، اختیار اور حقوق کی بات ہوتی ہے۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات تک براہ راست رسائی کا سوال ہوتا ہے۔ پیداوار میں جائز حصے کا تقاضا ہوتا ہے۔ اپنے نصاب، اپنی تاریخ اور اپنی روایات کے لیے اصرار ہوتا ہے۔

بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ زمین زادوں کے بیانیے ریاستی اشرافیہ کے مفادات سے تصادم کھاتے ہیں۔ اس تصادم پر قابو پانے کی طاقت آئین کے پاس ہے۔ آئین سے دامن بچانے کے لیے اشرافیہ کی طرف سے ایک بیانیہ تشکیل دے دیا جاتا ہے جو دلیل اور منطق سے پاک صاف ہوتا ہے۔ اس بیانیے کی زبان صحیفوں جیسی رکھی جاتی ہے تاکہ آئین پر اسے ایک درجہ فضیلت حاصل رہے۔ اپنے اثاثوں کا نام قومی مفاد رکھ دیا جاتا ہے، تاکہ اسے نصابی حیثیت حاصل رہے۔ اپنا قلمی نام پاکستان رکھ لیا جاتا ہے، تاکہ کوئی پاؤں اشرافیہ کی دُم پر آجائے تو قومی سلامتی کا سوال پیدا ہوجائے۔

چونکہ تب اور اب کے اس بیانیے میں کوئی فرق نہیں آیا، اس لیے تب اور اب کی تصویر بھی نہیں بدلی۔ تب کی ڈھاکہ میڈیکل کالج کی تصویر اٹھاکر دیکھ لیں اور اب کی بلوچستان یونیورسٹی کی تصویر دیکھ لیں۔ آپ کو محسوس ہوگا کہ جیسے مورخ لاپتہ ہوگیا ہو اور تاریخ سولہ دسمبر پر رک گئی ہو۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments