کراچی میں بچوں کا میلہ
بچہ کیا سوچتا ہے؟ چاہتا کیا ہے؟ نہ ہمیں اس کی سوچ سے غرض اور نہ ہی چاہتوں سے واسطہ۔ بچہ اس خاکے سے غائب ہے۔ تعلیمی نصاب ہی اٹھا کر
دیکھ لیں کیا ہے اس میں؟ بچوں کی دلچسپی کا کوئی عنصر تو نظر نہیں آتا اور نہ ہی بچے کی نفسیات کو بنیاد بنا کر مرتب کی جاتی ہے۔ نصاب میں ہم نے نظریات تھوپی ہیں۔ نفرت کا ذائقہ ڈال دیا۔ اسے ہم نے مذہب کے پیمانوں سے لبریز کیا۔ نہ بچہ سیکھ پا رہا ہے اور نہ ہی ہم انہیں سکھا پا رہے ہیں۔
ایسے میں بچوں کو یکجا کرنے اور انہیں کھل کر اظہار کرنے کا کوئی ذریعہ مل جائے تو سونے پہ سہاگہ۔ بچوں کا میلہ آرٹس کونسل کراچی میں سجا۔ یہ میلہ گزشتہ دس سالوں سے ادارہ تعلیم و آگاہی کے چھتری تلےاپنی رعنائیاں بکھیر رہا ہے اگر میلے کی روح رواں بیلا رضا جمیل میلے میں مدعو نہیں کرتیں تو یقینا میں اسے دیکھنے سے قاصر ہوجاتا اور فقط کانوں اس کی کہانیاں سنتے رہتے۔
فوزیہ من اللہ کا سیشن کیا بچے اور کیا بڑے دونوں کو پسند آیا۔ کمال کی خاتون ہیں بچوں کے مجمع کو کس طرح متوجہ اور مصروف رکھا جاتا ہے۔ اس میں انہیں کمالِ فن حاصل ہے۔ “امائی اور شبنم” کی تصویری کہانی سے نہ صرف بچے محظوظ ہوئے بلکہ انہوں نے اس کہانی سے کیا سیکھا انہیں اسٹیج پر آنے اور اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا اور کہانی کا خلاصہ نہایت ہی خوبصورت انداز میں بیان کرنے کا بھی۔
نازیہ زبیری حسن کا سیشن “ڈاک بابو” تھا نے ٹیکنالوجی کے دور سے نکال کر ہمیں ڈاک کے دور میں پہنچا دیا۔ وہی میری منتظر نگاہیں اور اماں کا خط۔
شیما سید کی ڈانس پرفارمنس نہیں دیکھ پاتے تو ہم اسے فقط امینہ سید کی بیٹی کے نام سے پہچان پاتے۔ گوادر کتب میلے میں آئی ضرور تھیں مگر کتب میلہ منتظمین نے انہیں فقط ماں کو شال پہنانے تک محدود رکھا۔ مگر چلڈرن لرننگ فیسٹول میں ان کی ڈانس پرفارمنس نے باور کرایا کہ شیما سید کو شناخت امینہ سید کے بجائے اپنے فن کی وجہ سے ملنی چاہیے جو ان کا حق ہے۔ ان کی ڈانس پر دماغ لفظوں کے مجموعے سے نکل کر رقص کرتا رہا۔
لائبریری والی سیشن میں میں خود بطور پینلسٹ وہاں موجود تھا۔ مذکورہ سیشن میں میں نے ایک چیز محسوس کی کہ بچے ہماری گفتگو سے دلچسپی نہیں لے پا رہے اور یقیناً میلہ منتظمین نے بھی اس بات کو محسوس کیا ہوگا۔ لائبریری سیشن کے فوراً بعد جب سیشن “امی کی ڈانٹ” کا آغاز ہوا تو سیشن نے انہیں فوراً اپنی طرف راغب کیا۔ جسے پیش کرنے کے لیے کتاب کی مصنفہ ماہم زہرہ اور بیلا رضا جمیل کی کاوشیں شامل تھیں۔ سیشن نے امی کی ڈانٹ ڈپٹ یاد دلا کر محظوظ کیا۔
میلے میں جہاں کتابوں کے اسٹال تھے وہیں ایک اسٹال سائنس فیوز کا بھی تھا وقاص اور اس کی ٹیم کی سائنسی تجربات سے بچے لطف اندوز ہو رہے تھے سائنس فیوز اپنا یہ کام کئی سالوں سے کر رہی ہے۔ بلوچستان جہاں سکولوں میں نہ سائنس ٹیچر ہے اور نہ ہی سائنسی تجربات ایسی سرگرمیاں وہاں لازماً ہونی چاہئیں۔ میلے میں شریک گرلز ہائیر سیکنڈری سکول پیشکان گوادر کی ہیڈ ٹیچر انیلہ یوسف بچیوں کو سائنسی مضامین پڑھاتی ہیں۔ سائنس فیوز کی سائنسی تحریک کو بلوچستان بالخصوص مکران تک پھیلانے میں وہ اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
پروگرام کا تیسرا دن ٹیچرز کا تھا۔ غالباً دس سالہ تاریخ میں پہلی بار ٹیچرز کا کوٹہ رکھا گیا تھا ٹیچرز ڈے سے وہ اساتذہ استفادہ کرتے دکھائی دیے جنہیں دو دن بچوں کی ذمہ داریاں نبھانے میں لگی تھیں۔ صبح کا پہلا سیشن محترمہ زبیدہ مصطفیٰ صاحبہ کی نئی کتاب “ریفارمنگ سکول ایجوکیشن اِن پاکستان اینڈ دی لینگویج دیلیما” پر رہا۔ شرکا نے نہ صرف کتاب پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا بلکہ تعلیمی بہتری کے لیے اپنی تجاویز بھی دیں۔ شرکا کا زور اس بات پر رہا کہ مادری زبانوں میں دی جانے والی تعلیم سے وہ تعلیمی اہداف حاصل کر سکتے ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے لاگو تعلیمی پالیسیز سے حاصل نہیں کر سکے۔ زبان پر کام کرنے والے افراد کو اس کتاب سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
تین دن کا میلہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اختتام پزیز ہوا تین دن کے اندر جو کچھ میں سمیٹ چکا ہوں کوشش کروں گا کہ اس کا خاکہ سکول کے اُن بچوں کے ساتھ شیئر کروں جو یہ سب کچھ اپنی نگاہوں سے دیکھنا چاہتے ہیں مگر دیکھ نہیں پاتے۔
Latest posts by شبیر رخشانی (see all)
- بچے اور ہمارا نصابِ تعلیم - 27/12/2021
- کراچی میں بچوں کا میلہ - 18/12/2021
- ٹیچر ہونے کا سوال - 11/12/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).