سکولوں کی چھٹیاں مسٸلہ فیثا غورث بن گٸیں


ایک آدمی پریشانی کے عالم میں ایک ”سیانے“ کے پاس اپنے مسئلے کا حل پوچھنے آیا۔ بدقسمتی سے وہ سیانا اور دانا بھی ہماری موجودہ حکومت کی طرح متلون مزاج اور جلد باز سا تھا۔ پریشان حال شخص نے اپنا مسئلہ تفصیل کے ساتھ اس کے سامنے رکھا۔ سیانے نے بھی ہمارے وزیراعظم کی طرح بہت بڑا دانشور اور موٹیویشنل سپیکر بن کر مسئلہ بڑی توجہ اور انہماک سے سننے کی خوب صورت اداکاری کی۔ مسئلہ سن کر پہلے تو نام نہاد سیانے نے ہمارے وزیر خارجہ کی طرح چہرے پر دانشوری اور سنجیدگی کے گہرے آثار طاری کیے۔ اس کے بعد مزید دانشوری بگھارتے ہوئے اسے اپنے قریب بلایا اور شیخ رشید احمد کی طرح کوئی گھنٹا بھر بے معنی اور لایعنی گفتگو فرمائی۔ بابوں اور جوگیوں والی سمجھ میں نہ آنے والی متصوفانہ باتیں کیں۔ حکمت اور دانائی کے نام پر ایسے ایسے فہم و فراست سے اور عقل و خرد سے ماورا نسخے گوش گزار کیے جو پریشان حال شخص کے سر کے اوپر سے گزر گئے۔

گھنٹے بھر کی مغز ماری اور خواری کے بعد اس غریب کو ایسا اوٹ پٹانگ، بے سروپا اور عجیب و غریب حل بتایا کہ جسے سن کر وہ سٹپٹا کر بولا کہ بھائی! مہربانی کر کے تو اپنا حل اپنے پاس رکھ اور مجھے میرا مسئلہ واپس کر دے۔

ہماری حکومت اور اس کے شیریں سخن ترجمان بھی عوام کو درپیش سنگین مسائل کے کچھ ایسے ہی مافوق الفطرت حل بتا کر انہیں شرمندہ کرتے رہتے ہیں۔ کسی اور کی تو بات ہی کیا ہمارے بیک وقت قرآن، حدیث، تاریخ، کلچر، جیالوجی، معاشیات، جغرافیہ، ماحولیات، سائیس و ٹیکنالوجی، موسیقی، تصوف، ”روحونیت“ ، تقابل ادیان، فنون لطیفہ اور دوسرے علوم و فنون میں ید طولٰی رکھنے والے وزیراعظم سے اتنی بڑی تعداد میں ”اقوال زریں“ منسوب ہیں کہ کئی ضخیم کتابیں مرتب کی جا سکتی ہیں۔

شہنشاہ اکبر کے نو رتن تو اینویں ہی مشہور ہو گئے، ہمارے وزیراعظم دانش بگھارنے میں ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے ہیں۔ طوالت کے ڈر سے یہاں صرف دو اقوال نقل کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ فرمایا کہ بجلی پام آئل سے بنتی ہے، اس لیے مہنگی ہو رہی ہے۔ ایک موقعے پر فرمایا کہ نیا پاکستان ہاوٴسنگ سکیم میں ماہانہ پچیس ہزار سے کم آمدنی والوں کو گھر دیے جائیں گے جس کی ماہانہ قسط ستاسی ہزار روپٔے ہو گی۔ جب لیڈر ایسا نابغۂ روزگار ہو تو وزیروں، مشیروں کی فوج ظفر موج کیوں پیچھے رہے۔

لہٰذا وہ بھی دل کھول کے بے پرکی اڑاتے ہیں اور عوام ان کے بیانات سن کر اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ وزیراعظم سمیت ہر وزیر و ترجمان کی تان ہر خرابی کے حوالے سے ماضی کو حکومتوں پر ٹوٹتی ہے۔ اس سردار کی طرح جسے اس کے ڈرائیور نے بتایا تھا کہ سردار جی گاڑی میں پٹرول ختم ہو گیا لہٰذا ہم آگے نہیں جا سکتے۔ اس پر سردار جی نے ترنت جواب دیا تھا کہ ”فیر پشاں مڑ جا“ ۔

ابھی او آئی سی کانفرنس کے موقعے پر فون کی بند ش کے حوالے سے ہمارے وزیر داخلہ کے یکے بعد دیگرے متضاد بیانات سن کر عوام شش و پنج میں تھے کہ موسم سرما کی تعطیلات کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ این سی او سی کے اعلانات اور ہائی کورٹ کے حکم نے قوم کو مخمصے میں ڈال دیا۔ کسی نے اعلان کیا کہ تعلیمی ادارے 23 دسمبر سے 6 جنوری تک بند ہوں گے۔ کہیں 17 دسمبر ہی سے تعطیلات کا آغاز ہو گیا۔ کہیں حکم آیا کہ تعلیمی ادارے 3 جنوری سے 9 جنوری تک بند ہوں گے۔ کوئی بولا کہ چھٹیاں جنوری کے آخر میں ہوں گی۔ ایک ہی صوبے میں چھٹیوں کا شیڈول مختلف علاقوں کے لیے اتنا مختلف تھا کہ عام آدمی سٹپٹا بلکہ ہڑ بڑا کر رہ گیا۔ مرزا غالب نے ایسی ہی کسی مضحکہ صورت حال کے موقعے پر جھنجھلا کر کہا تھا کہ

مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا

اس حکومت نے ایک سیدھے سادے مسئلے کو مسئلہ فیثا غورث بنا دیا۔ اس سے قبل یہ حکومت سکولوں میں کورونا ویکسین کی مہم کو بھی گورکھ دھندا بنا چکی ہے۔ بندہ جائے تو جائے کہاں؟

تعلیمی اداروں میں چھٹیوں کے معاملے پر لگتا ہے کہ اس حکومت کے یو ٹرن جاری رہیں گے۔ جاتے جاتے تفنن طبع کے لیے چھٹی کے حوالے سے ایک بے ضرر اور غیر سیاسی لطیفہ سن لیجیے۔

ایک بیوی نے اپنے فوجی شوہر سے میکے جانے کی چھٹی مانگی۔ ڈھول سپاہی نے کہا کہ فوجی انداز میں چھٹی کی درخواست دو۔ اگلے دن اہلیہ صبح سویرے تیار ہوئی اور شوہر کو فوجی انداز سے سلیوٹ مارتے ہوئے بولی کہ مجھے میکے جانے کے لیے ایک ماہ کی چھٹی چاہیے۔ فوجی شوہر صاحب نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے سوال کیا کہ اس عرصے کے لیے اپنا چارج کس کو دے کے جاوٴ گی؟ یہ سن کر بیوی نے کہا کہ ایسی بات ہے تو میں چھٹی ہی نہیں جاتی۔ اس طرح تو میری پکی چھٹی ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments