سراہا کا شاہی گیت۔ گوتم بدھ کے افکار کی تفسیر


ہر بڑی فکر اور ہر بڑی تحریک وقت کے ساتھ پھلتی پھولتی ہے اور تقسیم در تقسیم کی منزل سے گزرتی ہیں یعنی دعوی (Thesis) ، رد دعوی (Antithesis) اور امتزاج (Synthesis) کا ایک ایسا چکر ہے جہاں سے تحریکوں اور افکار کو وقت کے ساتھ ایک طرف تو توانائی ملتی رہتی ہے جس سے یہ تحریکیں پھیلتی اور توانا ہوتی رہتی ہیں، اسی طرح دوسری طرف یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوتی رہتی ہیں اور اس کے نئے پھل پھول اور نئی شاخیں پھوٹتی رہتی ہیں۔

ایسا ہی بدھ مت کے ساتھ ہوا یہ تحریک بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ پہلی لڑی زین (Zen) کہلاتی ہے۔ یہ شاخ مہا کشیپ سے چلتی ہوئی آگے بڑھتی ہے جب کہ دوسری شاخ تانترا ہے۔ یہ شاخ بدھ سے چلتی ہوئی اس کے بیٹے راہول بھدر اور پھر راہول بھدر سے شری کیرتی تک اور شری کیرتی سے سراہا تھا پہنچتی ہے اور پھر سراہا سے ناگ ارجن تک چلی جاتی ہے۔ سراہا تانترا کا بانی ہے۔

تانترا کا بیج تبت میں فروغ پاتا ہے اور تبت کو تبدیل کر ڈالتا ہے جبکہ بدھ دھرم کی دوسری شاخ زین چین، کوریا اور جاپان کو اپنی تعلیمات کے قبضہ میں لے لیتی ہے۔

تانترا کی حقیقی بنیاد سراہا کے گیت ہیں۔ تانترا کی بنیاد فطری، انقلابی اور باغیانہ افکار پر مبنی ہے۔ تانترا کا نظریہ یہ ہے کہ دنیا اعلی و ادنی میں منقسم نہیں ہے بلکہ دنیا ایک ہی کل ہے اعلی اور ادنی صرف اس کو تھامنے والے ہاتھ ہیں۔ اعلی میں ادنی شامل ہے اور ادنی میں اعلی۔ اعلی ادنی میں چھپا ہوا ہے اس لیے ادنی کو رد نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس کی مذمت کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے کسی طور ختم کیا جا سکتا ہے، یہ ادنی ہے جس کی کایا پلٹ کرنا ہو گی، ادنی کو اوپر ابھرنے کی اجازت دینا ہو گی، اس طرح ادنی، اعلی کی سطح پر آ کر اعلی کو چھونے لگے گا۔

سراہا کون تھا؟ تو جواب یہ ہے کہ سراہا کا نام راہول تھا جب اس نے شری کیرتی کے آگے زانو تلمذ تہ کیا تو شری کیرتی کا پہلا سبق یہ تھا کہ تمام ویدوں کو بھول جاؤ، اپنے تمام حاصل کردہ علوم کو بھول جاؤ۔ یہ ایک مشکل کام تھا، ہمیشہ سے ایسا ہوتا آیا ہے کہ مہا استاد نے اپنے حلقہ بگوش ہونے والے طالب علم کو پہلے سے حاصل ہونے والے علوم اور تعصبات کو بھول جانے کو کہا تا کہ اس کے ظرف کو ایک نئی صورت متشکل کیا جا سکے۔

راہول نے بھی ایسا ہی کیا، وہ سب کچھ بھول گیا، اس نے اپنے علوم، افکار اور تعصبات کو بلائے طاق رکھ دیا، وہ دوبارہ سے معصوم بن گیا، یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ سلطنت چھوڑنا آسان ہے، دولت کو دوسروں میں بانٹ دینا آسان ہے، اپنے من بھیتر میں بسے ہوئے سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہے اور راہول اس پر خطر راہ سے پار اتر گیا تھا۔ اب اگلی منزل، اگلا سبق؛ علوم اور افکار کی تشکیل نو تھا۔ پہلے وہ ایک دانشور تھا اب اس کی شہرت ایک صوفی کی تھی۔

ایک دن جب وہ مراقبہ کر رہا تھا تو اس نے جانا کہ بازار میں ایک عورت ہے جو اس کی گرو یا استاد بننے والی ہے۔ اصل علم اسے اس عورت سے ملنے والا تھا۔

تانترا میں داخل ہونے کے لیے ہمیشہ ایک دانا عورت کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک دانا عورت کے بغیر انسان تانترا کی پیچیدہ دنیا میں داخل نہیں ہو سکتا۔

سراہا بازار جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا شری کیرتی کے استفسار پر سراہا نے کہا ’‘ آپ نے مجھے راستہ دکھایا ہے، آپ نے میرا تمام سیکھا ہوا واپس لے لیا، آپ نے آدھا کام کیا، میری تختی کو صاف کر دیا، اب میں نیا سیکھنے جا رہا ہوں، اگلا آدھا میرا منتظر ہے ”۔

وہ اس عورت تک پہنچا، وہ ایک تیر بنانے والی خوب صورت جوان عورت تھی، تیر کے تیلے کو کاٹتی، نہ دائیں دیکھتی نہ بائیں۔ وہ اپنے کام میں مگن تیر بنا رہی تھی۔ شری کیرتی ایک عظیم فلاسفر تھا جبکہ یہ عورت نہ تو فلسفی تھی اور نہ ہی اس کی مخالف۔ اس کو تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ فلسفہ کیا ہوتا ہے۔ وہ اپنی کامل مسرت میں مگن، فلسفے کی دنیا سے عاری، تفکرات کی دنیا سے ناآشنا ایک عملی عورت تھی۔ وہ اپنے کام میں پوری طرح منہمک تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے سامنے کوئی شخص کھڑا ہے۔

اس نے ایک آنکھ بند کی، اس کی دوسری آنکھ کھلی تھی اور وہ کسی نامعلوم ہدف کا نشانہ لے رہی تھی، جو کہ غائب تھا۔ سراہا کو کچھ پیغام ملتا ہوا محسوس ہوا۔ یہ انداز علامتی تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ ابھی وہ بہت سی دھند اور اندھیرے میں ہے۔ اس نے عورت سے پوچھا کہ کیا وہ ایک پیشہ ور تیر بنانے والی ہے؟ عورت نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ ایک بے ساختہ، وحشیانہ قہقہہ اور کہا ’‘ او بیوقوف برہمن، تم نے ویدوں کو چھوڑا ہے تم نے صرف اپنی کتابیں بدلی ہیں، تم نے اپنا فلسفہ بدلا ہے لیکن تم ہمیشہ سے ہی ایک بیوقوف آدمی رہے ہو ”۔

سراہا کو ایک جھٹکا لگا ’‘ تم سمجھتے ہو، تم بدھ کے پیرو کار ہو؟ ”۔ وہ یقیناً اس وقت بدھ سادھو کے لباس میں ہو گا، زرد چوغا پہنے ہوئے۔ وہ پھر ہنسی اور بولی ’‘ بدھ کا کہا صرف عمل سے جانا جا سکتا ہے، نہ ہی الفاظ سے اور نہ ہی کتابوں سے۔ کیا یہ سب تمہارے لیے کافی نہیں ہے؟ کیا تم ابھی تک اس سب سے سیر نہیں ہوئے؟ اس بیکار تلاش میں اپنا وقت مت برباد کرو۔ آؤ اور میری پیروی کرو۔“

سراہا اب مکمل طور پر اس عورت کے زیر اثر تھا، نہ ہی دائیں دیکھتے ہوئے نہ ہی بائیں۔ صرف ایک مرکز میں دیکھتے ہوئے۔ وہ اس عورت کی تحویل میں تھا۔ پہلی بار اسے سمجھ میں آیا کہ بدھ کا درمیان یا مرکز میں ہونے سے کیا مطلب ہے۔ محور سے اجتناب کرو، مرکز میں رہو۔ پہلے وہ فلسفی تھا۔ اب وہ فلسفے کا مخالف۔ ایک انتہا سے دوسری انتہا۔ پہلے وہ ایک چیز کی پرستش کرتا تھا اب وہ اس کے بالکل الٹ کی پوجا کر رہا تھا۔ اک پرستش تھی جو جاری تھی۔ تم دائیں سے بائیں حرکت کر سکتے ہو، بائیں سے دائیں، لیکن یہ تمہاری کوئی مدد کرنے والی نہیں۔ تمہیں مرکز میں آنا ہو گا۔

اس نے شری کیرتی کو بارہا یہ کہتے سنا تھا، اس کے متعلق پڑھا تھا، اس نے اس پر کافی غور و خوض بھی کیا تھا، اس نے اس پر بحث و تمحیص بھی کی تھی لیکن پہلی بار اس نے اس چیز کو روبعمل دیکھا تھا۔ عورت نہ دائیں دیکھ رہی تھی اور نہ بائیں۔ وہ صرف درمیان یعنی مرکز میں دیکھ رہی تھی۔

اس کی پوری توجہ مرکز پر تھی۔ تم ایک خواہش کو دوسری خواہش سے بدل سکتے ہو، تم بہت ہی دنیا دار ہو۔ ایک دن ایک دنیا کو چھوڑ کر دوسری دنیا کے ہو جاؤ گے۔ یہ دنیا دار ہونا ہے اور دوسری دنیا کا ہونا بھی دنیا دار ہونا ہی ہے۔ دولت کے لیے ہونا، پاگل ہونا ہے، طاقت کا حصول بیوقوفی ہے، فراریت بھی بیوقوفی ہے، صرف مرکز میں ہونا ہی دانشمندی ہے۔ پہلی بار سراہا نے اسے وہاں حقیقت میں ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس نے یہ شری کیرتی میں بھی نہیں دیکھا تھا۔

حقیقت میں وہ وہاں موجود تھا جہاں اسے ہونا چاہے تھا۔ وہ عورت سچی تھی، اس نے کہا ’‘ تم صرف عمل کے ذریعے ہی سیکھ سکتے ہو ”۔ وہ اپنے کام میں مگن تھی وہ سراہا کو دیکھ نہیں رہی تھی۔ وہ اپنے عمل میں یوں جذب تھی کہ اس کی علیحدہ شناخت ممکن نہ تھی۔ یہ بھی ایک بدھی پیغام تھا ’‘ پوری طرح عمل میں ہونا، عمل سے آزاد ہونا ہے۔

کچھ بھی کامل طور پر کرو، وہ ختم ہو جائے گا اور تم اس کی نفسیاتی یاد کو اٹھائے نہیں پھرو گے۔ کچھ بھی نامکمل کرو، وہ تمہارے ساتھ چمٹ جائے گا، وہ چلتا رہے گا۔ یہ خمار ہے اور ذہن تو اس کو جاری رکھنا چاہتا ہے اور مکمل کرنا چاہتا ہے۔ ذہن مکمل چیزوں سے بہت مشتعل ہوتا ہے کچھ بھی کرو، مکمل کرو وہ ذہن سے غائب ہو جائے گا۔ اگر تم چیزوں کو پوری طرح کرتے رہو گے ایک دن اچانک تمہیں پتہ چلے گا کہ اب یہاں کوئی ذہن نہیں ہے، ذہن نامکمل اعمال کی آماجگاہ ہے۔

تم ایک عورت سے پیار کرنا چاہتے تھے اور تم نے پیار نہیں کیا، اب وہ عورت مر چکی ہے۔

تم اپنے باپ کے پاس ان اعمال کی معافی کے لیے جاتے ہو جو تم کرتے رہے ہو، ان تمام اعمال کی معافی کے لیے جو تم نے اس طرح کیے کہ اس کو تکلیف محسوس ہوتی رہی۔ لیکن اب وہ مر چکا ہے۔

اب ایک خمار ایک نشہ تو باقی رہے گا۔ احساس گناہ اور احساس ندامت۔ اب صرف اس کا بھوت یا ہمزاد ہے۔ اب تم بے یار و مدد گار ہو۔ اب کیا کیا جائے؟ کس کے پاس جایا جائے؟ معافی کیسے طلب کی جائے؟

تم دوست کے ساتھ ہمدردی کرنا چاہتے تھے لیکن تم نہیں کر سکے کیونکہ تم نے اپنے آپ کو بند کر لیا تھا۔ اب وہ دوست جا چکا ہے اور یہ بات بڑی تکلیف دہ ہے۔ تم احساس گناہ میں مبتلا ہو جاتے ہو، تم پچھتاتے ہو، افسوس کرتے ہو۔ سلسلہ جونہی چلتا رہتا ہے۔

کوئی بھی عمل پوری طرح کرنے سے تم اس سے آزاد ہو جاتے ہو اور تم پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے اور ایک حقیقی آدمی کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا۔ کیونکہ وہاں دیکھنے کو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس کو کوئی خمار نہیں ہوتا۔ وہ فقط آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس کی آنکھیں ماضی سے صاف ہوتی ہیں اس کی بینائی ابر آلود نہیں ہوتی، اس شفافیت میں ایک شخص جان جاتا ہے کہ یہ حقیقت کیا ہے۔

تم اپنے ناکردہ اعمال کے لیے بہت ہی پریشان ہو، شرمسار ہو۔ تم ایک کباڑ خانے کی طرح ہو۔ ایک چیز یہاں پڑی ہے دوسری وہاں، نامکمل۔ کچھ بھی مکمل نہیں۔ کیا تم نے اس کا کبھی مشاہدہ کیا ہے؟ کیا تم نے کبھی کوئی چیز مکمل کی ہے؟ یا ہر چیز نامکمل ہی رہی ہے؟ اور تم ایک چیز کو مکمل کیے بنا ہی دوسری چیز پکڑ لیتے ہو اور اس سے پہلے کہ وہ مکمل ہو تم کچھ اور نیا شروع کر دیتے ہو۔ تم زیادہ سے زیادہ بھاری ہوتے چلے جاتے ہو۔ یہ ہی تو کرم ہے۔ کرم کا مطلب ہے نامکمل عمل، نامکمل کام۔ مکمل ہو جاؤ۔ تم آزاد ہو جاؤ گے۔

عورت پوری طرح منہمک تھی اسی لیے وہ اتنی تاباں نظر آ رہی تھی، وہ بہت خوب صورت لگ رہی تھی۔ وہ ایک عام عورت تھی لیکن اس کا حسن زمین کا نہیں تھا، اس کا حسن اس کے مکمل انہماک کی وجہ سے تھا، وہ حسین تھی کیونکہ وہ متشدد نہیں تھی، وہ خوب صورت تھی کیونکہ وہ اپنے مرکز میں تھی۔ متوازن۔ توازن ہی حسن ہے۔

اس نے پہلی بار جانا کہ مراقبہ کیا ہے، وہ عرصے سے مراقبہ کر رہا تھا اس نے پہلی بار جانا ایک مقررہ وقت کے لیے بیٹھ کر منتر پڑھا مراقبہ نہیں ہے۔ معمولی چیزوں کو کرتے جانا بلکہ اس انہماک سے کرتے جانا کہ اس کے ہر عمل میں غور و فکر نمایاں ہوتا چلا جائے، مراقبہ ہے۔

پھر اس نے اس عورت کے آسن کو یاد کیا۔ نامعلوم اور غائب کے نشانہ باندھنے کو یاد کیا۔ ہم نامعلوم کو جاننے کے سفر میں ہیں۔ اس کو جاننے کے سفر میں جس کو جانا نہیں جا سکتا، اس کو سوچنا، جو سوچ سے ماورا ہے، اس کا حصول جو ناقابل حصول ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو بندے کو طالب بناتا ہے۔

ہاں، یہ ناممکن ہے۔ ناممکن سے مراد یہ نہیں ہے کہ یہ نہیں ہو گا، ناممکن سے مراد ہے اس وقت تک تک نہیں ہو گا۔ جب تک تمہاری مکمل طور پر کایا پلٹ نہ ہو جائے۔ اگر تم ایسے ہی رہے تو یہ کبھی نہیں ہو سکتا، لیکن یہاں ہونے کے طریقے مختلف ہیں اور تمہیں مکمل طور پر ایک نیا انسان بننا ہو گا۔ تب یقیناً یہ ہو گا۔ یہ ایک مختلف انسان کے لیے ہی ممکن ہے اور یوں ایک نیا شخص پیدا ہوا۔ ایک نیا شعور جنما۔

اس کے انہماک کو دیکھتے ہوئے اس عورت نے اسے ’‘ سراہا ’‘ کہہ کر پکارا، اس کا نام راہول تھا۔ اس عورت نے اسے بار بار سراہا کہا۔ سراہا ایک خوب صورت لفظ ہے اس کا مطلب ہے ’‘ وہ جس نے تیر چلایا ہو یا تیر چھوڑا ہو ’‘ ۔ لفظ ’‘ سرا ”کا مطلب ہے تیر اور ’‘ ہا“ کا مطلب ہے چلانے والا۔ سراہا کا مطلب ہے ’‘ وہ جس نے تیر چلایا۔ تیر انداز۔ ”۔

عورت بہت خوش تھی وہ خوشی سے ناچنے لگی۔ یہ وہ پل تھا جب اسے عورت کے کام کی سمجھ آئی، ان علامتی اشاروں کی سمجھ آئی، اس پل جب وہ ان علامتوں کو سلجھا، سمجھ اور پرکھ سکا، وہ سراہا تھا۔

عورت ناچ رہی تھی اور کہہ رہی تھی ’‘ آج سے تم سراہا ہو، تم اب سراہا کہلاؤ گے۔ تم نے تیر چلا دیا ہے، میرے کام کی علامتوں کی رمز کو سمجھتے ہوئے تم مرکز میں داخل ہو گئے ہو ’‘ ۔

راہول سراہا بن گیا۔

سراہا کے نام سے تین صحیفے دستیاب ہیں۔ پہلا۔ ’‘ سراہا کا لوگوں کے لیے گیت ”۔ یہ ایک سو اسی شعروں پر مشتمل ہے ؛ دوسرا۔ ’‘ سراہا کا ملکہ کے لیے گیت“ ۔ اس کے دو حصے ہیں پہلا حصہ ایک سو ساٹھ شعروں پر مشتمل ہے جب کہ دوسرا حصہ اسی اشعار پر مبنی ہے ؛ تیسرا۔ ’‘ سراہا کا شاہی گیت ”۔ جو چالیس شعروں پر مشتمل ہے۔ یہی وہ گیت ہے جس کا مراقبہ ’‘ باطنی واردات کا راز“ نامی کتاب میں موجود ہے جس کی تفسیر کی ہے گرو رجنیش عرف اوشو نے۔

’‘ سراہا کا شاہی گیت ”گرو رجنیش کی چار کتابوں۔ ’‘ باطنی واردات کا راز“ ، ’‘ نروان کا دروازہ ”، ’‘ ماورائے حدود دانش“ اور ’‘ دعوت خامشی ”۔ کا مجموعہ ہے، جس کے مترجم اقبال رندھاوا ہیں۔ یہ ایک برجستہ اور رواں ترجمہ ہے۔ یہاں آپ گرو رجنیش کو ایک ہی جگہ پڑھ سکتے ہیں اور اس کی سوچ اور فکر سے سیراب ہو سکتے ہیں۔ یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔ پرنٹنگ خوب صورت اور قیمت مناسب ہے۔ اسے فکشن ہاؤس نے چھاپا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments