انقلاب آئے گا رفتار سے مایوس نہ ہو
دسمبر کی سردی اور دھند نے سیاسی گرمی کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے خشک ذہنوں کی صلاحیت کو خشک موسم نے متاثر کر رکھا ہے حکومت کی گاڑی اپنی اگلی اور پچھلی بتیاں جلانے کے باوجود رفتار نہیں پکڑ رہی کیونکہ گاڑی کے سامنے کے شیشے پر اوس پڑ چکی ہے موسم کی تبدیلی میں اپوزیشن اس حد تک کامیاب رہی کہ اس نے قوم کو باوجود دھند کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے چینل اور اخبارات نے بھی سردی سے بچاؤ کے لیے اشتہارات کی چادر اوڑھ رکھی ہے اس طرح وہ سرد موسم کے نقسانات سے بھی بچ رہے ہیں اور کاروبار بھی چل رہا ہے ان کی نظریاتی صحافت تو خیر کب کی روپوش ہو چکی ہے اور کوئی ایسا بھی نہیں کہ لا پتہ نظریاتی صحافت کی شکایت درج کروا سکے البتہ لا پتہ افراد کا معاملہ کورٹ میں ہے جس پر رائے زنی کرنا توہین کے زمرے میں آتا ہے ۔ دھند کے موسم میں کچھ انجوائے کرنے کو کرکٹ رہ گئی تھی اسے بھی کورونا کی نظر لگ گئی اور مہمان ٹیم نے واپسی کا راستہ پکڑ لیا اور ہم پھر سیاسی بیان بازی کو دیکھنے اور سننے کی فضا میں وقت گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں ہر ایک نے چور چور کی رٹ لگا رکھی ہے قوم فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ اصل میں چور کون ہے عدالت جن کا فیصلہ کرتی ہے وہ مانتے نہیں اور جن کے فیصلے التوا کا شکار ہیں وہ ابھی تک صادق امین بن کر قوم پر مسلط ہیں ۔ ایسے میں قوم بھی فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ صادق امین کون اور چور کون ہے کچھ واضح نہیں سیاست کے ایوانوں سے لے کر فیصلہ سازوں کے گھرانوں تک تمام چہرئے غیر نمایاں ہیں اور عوام کو بھی نہ معیار اور نہ مقدار کی سہولت میسر ہے بس اتنا ضرور ہے کہ باوجود فضا کے عدم توازن کے عوام امید کی کرن پر ہی خوش ہیں یہ صبح نکلے یا شام کو عوام کے لیے خوشی کا مقام رکھتی ہے سورج اور چاند کی یہ کرنیں ہی عوام کو آنے والے موسم کا پتہ دئے رہی ہیں ۔ ان ہی کرنوں سے نکلتی شعاعیں جب عوام کے اندر جزبہ پیدا کریں گی تو عوام کے اندر جزبہ انقلاب پیدا ہو گا میرا یہ ماننا ہے کہ جب عوام کے حقوق کی حفاظت کرنے والے ناکام ہو رہے ہوں تو عوام اپنے حقوق کی جنگ خود لڑتے ہیں اور عوام رہنماوں کے رہبر بن جاتے ہیں ۔ ہر شخص زندگی میں کسی ایک انقلاب کا سامنا ضرور کرتا ہے چاہے وہ اس کا خود حصہ ہو یا اس کا سامنا کرے اگر انقلاب منفی ہو تو اس کی زندگی کم ہوتی ہے اور اگر انقلاب کی بنیاد مثبت ہو تو اس کے اثرات طویل عرصہ تک رہتے ہیں ہر دور میں حالات پر منصحر ہوتا ہے کہ کس طرح کا انقلاب اپنے اثرات سے رخ تبدیل کر سکتا ہے پاکستان میں اگر عوام کی اکثریتی سوچ کی بات کی جائے تو عوام خونی انقلاب کی توقع رکھتے ہیں لیکن خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے جو لوگ ملاوٹ رشوت اور دوسرے غیر قانونی کاموں میں ملوث ہوتے ہیں وہ بھی ہر چیز کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیتے ہیں کسی بھی معاشرے کی ترقی یا اس کی بلندی صرف حکومت کا کام نہیں ہوتا جب تک مملکت کا ہر فرد اپنے رویے تبدیل نہ کرے معاشرے میں بہتری ممکن نہیں ۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم یہ ارادہ کر لیں کہ ہم نے اپنے گھر کے باہر یا چلتے ہوے سڑک پر گندگی نہیں پھیلانی کیا ہم یہ پختہ ارادہ کر سکتے ہیں کہ کسی کو ناجاہز کام نہیں کہنا اور اپنے جائز کام کے لیے کسی طرز کی رشوت نہیں دینی کیا ہم سڑک پر جاتے ہوے سگنل توڑنے کی عادت کو ترک کر سکتے ہیں کیا ہم اپنے سامنے کسی کو مشکل میں دیکھ کر یا کسی سے زیادتی ہوتے دیکھ کر خاموشی سے گزر جانے کی رواہت کو ختم کر سکتے ہیں کیا ہم اپنے ایسے نمائندے چن سکتے ہیں جو کسی طرح کی کرپشن میں ملوث نہ ہوں کیا ہم تھانہ کچری کی سیاست ختم سکتے ہیں کیا ہم ظلم کے خلاف یکجا ہو سکتے ہیں کیا ہے ہم ناانصافی کے خلاف آواز آٹھا سکتے ہیں کیا ہم اپنی خواہشات کو روند کر ملک کی ترقی کے لیے کچھ وقت نکال سکتے ہیں وہ ملک جس نے ہمیں آزادی کا سانس لینے کا موقع مہیا کیا جس ملک نے ہمیں شناخت دی جس ملک نے ہماری آنے والی نسلوں کو تحفظ دیا جس ملک کو محلاتی سازشوں نے کمزور کیا جس کو رسہ گیروں نے ظالمانہ انداز میں نوچ کھایا کیا ہمارا اتنا بھی فرض نہیں کہ ہم بھی کچھ حق ادا کر دیں۔ یہ سب کچھ کر پاے تو ایسا انقلاب برپا ہو گا کہ کسی سہارے کی ضرورت نہیں رہے گی پاکستا ن کسی خونی انقلاب کا متحمل نہیں ہو سکتا پاکستان کو موجودہ صورتحال کے پیش نظر ایسے ہی انقلاب کی ضرورت ہے جو تیزی سے نہیں بلکہ ہر شعبے کی اصلاح کرتے ہوئے اگے بڑھے ملک بھر میں موجود رفاعی تنظمیں صرف فنڈ اکھٹا کرنے پر توجہ مرخوز نہ رکھیں بلکہ معاشرے کی تعمیر نو کے لیے اپنا کردار ادا کریں ۔ معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لیے موجودہ حالات میں ہر گھر کے اندر تحریک پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ معاشرے کے حالات اتنی پستی کا شکار ہو چکے ہیں کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو فضائی طور پر تو گنددگی میں ہمارے کئی شہر پہلے نمبر پر چل رہے ہیں معاشرتی طور پر بھی ہمارا معیار گرتا جاے گا ۔قوم خود کو سنوارنے کا ارادہ کرلے تو دنیا کئی کوئی طاقت ہمیں سر نگوں نہیں کر سکتی ہمارے جذبوں کو درست راستے پر ڈالنے کی ضرورت ہے اور یہ کوئی ایسی سائنس بھی نہیں جس پر چلنا ناممکن ہو ۔ایسے میں راجہ نواز ماہی کی چنیوٹ سے پوسٹ موصول ہوئی جس میں ان تمام باتوں کا خلاصہ موجود ہے جو معاشرے کی بہتری کے لیے لکھنا چاہتا تھا معاشرے کی فلاح کے لیے درد رکھنے والے صحافی کا کہنا ہے کہ بطور معاشرہ سچ کا ساتھ دیں اپنی انا اور ضد کی تسکین کے لیے غلط اور جھوٹ کا ساتھ نہ دیں معاشرے میں نا انسافی ہے تو ہم اس کے کہیں نہ کہیں ذمہ دار ہیں ۔ اس طرح کے جذبات ہر وہ شخص رکھتا ہے جو کسی دوسرے کو قصور وار سمجھنے کی بجائے پہلے اپنا احتساب کرتا ہے اگر یہی سوچ معاشرے کا ہر فرد اپنا لے تو ہمیں ملک کے سیاسی معاشی اخلاقی اقدار پر قابض نام نہاد رہنماؤں سے چھٹکارا حاصل کرنے میں وقت نہیں لگے گا یہ ہی وہ انقلاب ہے جس کی رفتار تو کم ہے لیکن کامیابی یقینی ہے
- میڈیا اور اندرونی کہانی - 24/01/2023
- کون بچائے گا پاکستان - 15/11/2022
- سیاسی گورکھ دھندا - 08/11/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).