نوآبادیاتی برصغیر کی دو استعماری جہتیں: مینیجنگ ایجنٹس کون تھے


برطانوی ایمپائر کی ہندستان میں وسعت میں انتظامی صلاحیتوں کا کلیدی کردار رہا تاہم یہ انتظامی صلاحیتیں برصغیر کو اقتصادی ترقی دینے کی بجائے استعماریت کی جڑیں طاقت ور کرنے کے لیے استعمال کی گئیں۔ برطانیہ نے انیسویں صدی کے اوائل میں ہی برصغیر میں تجارتی طاقت کا عروج حاصل کر لیا تھا۔ برطانوی پارلیمان کی سرپرستی میں پہلے ایک صدی تک ایسٹ انڈیا کمپنی کے توسط سے ہندستانی وسائل غارت کیے گئے، کمپنی کا تجارتی چارٹر منسوخ کرنے کے بعد ہندستان سے دولت سمیٹنے کے لئے نجی تجارتی شراکت داری کا نیا روپ اختیار کیا گیا، نجی شراکت داری درحقیقت ہندستان میں استعماریت کا نیا اقتصادی منصوبہ تھا۔

یہی وہ عہد تھا جب دنیا بھر میں کیپٹل ازم کا پھیلاؤ ہوا اور نوآبادیاتی برصغیر بھی اسی کی لپیٹ میں آیا۔ چنانچہ برطانیہ نے ایک نئے روپ میں برصغیر میں اقتصادی استحصال کی حکمت عملی اپنائی اور ہندستان میں تجارت، صنعت اور زراعت کو استعماری مقاصد کے لیے برؤے کار لایا گیا۔

برطانوی استعمار کے خلاف جنگ آزادی نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندستان سے رخصت کیا، برطانوی پارلیمان کے منظور شدہ ایکٹ کے تحت 1858 ء میں ملکہ برطانیہ نے ہندستان کی بادشاہت کا تاج بھی سنبھال لیا اور ہندستان میں کمپنی کے تمام اثاثہ جات، فوجیں اور دولت ملکہ برطانیہ کی ملکیت ہو گئی۔ چنانچہ ہندستان میں سرمایہ دارانہ معیشت کو برقرار رکھنے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کے متبادل ایک نیا نظام نافذ کیا گیا جسے مینیجنگ ایجنسی کہتے ہیں۔ نوآبادیاتی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ سوال ہمیشہ باعث تشنگی رہا کہ کمپنی کی براہ راست حکومت کے خاتمہ کے بعد ہندستان کی دولت کیسے لوٹی گئی؟ مینیجنگ ایجنسی کا سسٹم اسی سوال کا جواب ہے۔

مینیجنگ ایجنسی کا نظام ہندستان میں ابھرا اور رفتہ رفتہ برطانیہ کی دیگر نوآبادیات تک پھیل گیا۔ اس سسٹم کے تحت ایک مینیجنگ ایجنٹ (عام طور پر واحد ملکیت، شراکت داری یا پرائیویٹ کمپنی) جوائنٹ سٹاک کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کرتا اور کمپنی کے کاروبار کو قائم رکھنے، سرمایہ بڑھانے میں کردار ادا کرنے اور کمپنی کو منظم کرنے میں انتظامی فیصلہ کرنے کی طاقت رکھتا تھا۔ اپنے اس کردار کی بنیاد پر مینجنگ ایجنٹ کمپنی کے بورڈ آف کنٹرول میں بھی نمائندگی حاصل کرتا، یہ مینیجنگ ایجنٹس برطانوی یا یورپی النسل ہوتے۔

ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ہندستان کی نوآبادیاتی تاریخ، جغرافیہ اور معاشیات نے مل کر مینیجنگ ایجنسی سسٹم کو تشکیل کیا اور ہندستان میں انڈسٹریل آرگنائزیشن کو اسی سسٹم کے ذریعے سے کنٹرول کیا گیا۔ یہ امر قابل غور ہے کہ ہندستان میں انڈسٹریل آرگنائزیشن کی پیدائش ایسٹ انڈیا کمپنی کی اجارہ داری ختم ہونے کے بعد ہوئی اور اس وقت یورپ صنعتی ترقی کے دوسرے دور میں داخل ہو چکا تھا۔ کمپنی کی اجارہ داری ختم ہونے کے بعد یہاں نئے کاروباری مواقع پیدا ہوئے تاہم ان مواقعوں سے فائدہ لینے کی راہ میں اہم رکاوٹیں تھیں جس میں اہم ترین وینچر کیپٹل کی کمی تھی، کمپنی نے تکنیکی اور انتظامی مہارتیں مقامی ہندستانیوں میں منتقل نہیں کی تھیں گویا اس نئے پیدا ہونے والے چیلنج کی آڑ میں مینیجنگ ایجنسی کا نظام نافذ کیا گیا۔

گویا اس ضمن میں برطانوی استعمار نے ہندستان میں 1857 ء میں کمپنیز ایکٹ نافذ کیا، اس قانون کے ذریعے سے نجی کمپنیوں، بینکوں، انشورنس کمپنیوں کے لیے نئے ضابطے مقرر کر کے حصص میں سرمایہ کاری کا راستہ کھولا گیا۔ اب ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ درجنوں ایجنسیز نے حاصل کر لی، اب برطانوی سرمایہ کار ان ایجنسیز کے ذریعے سے ہندستان میں تجارت کرنے لگے اور ایک نئے روپ میں یہاں ہندستان کی معاشی غارت گری کے سیاہ باب کا آغاز ہوتا ہے۔

انیسویں صدی کے آخر تک برصغیر میں 60 مینجنگ ایجنسی ہاؤسز قائم تھے، جن میں سے ایک درجن کے پاس ایک لاکھ سے 20 لاکھ پاؤنڈز کے درمیان سرمائے کے اثاثہ تھے۔ نوآبادیاتی عہد میں، برطانیہ کی یہ نجی ایجنسیز ہندستان میں براہ راست سرمایہ کاری کی نمائندگی کرتی تھیں اور 1914 ء تک یہ ایجنسیز ہندستان میں 200 ملین پاؤنڈز سے زائد سرمائے کو کنٹرول کر رہی تھیں ان کمپنیوں میں برطانیہ کے 250 سے کم کاروباری افراد کا سرمائے پر کنٹرول تھا۔

یہ حیران کن ہے کہ 1936 ء تک ان مینجنگ ایجنسیز کے لیے ہندستان میں کوئی قانون نہیں تھا اور یہ بغیر کسی قانون کے ہندستان میں کام کر رہی تھیں لیکن اس کے باوجود ایک مینجنگ ایجنسی موثر طریقے سے منظم کمپنی پر مکمل کنٹرول رکھتی تھی۔ زیادہ تر ایجنسیز دو شراکت داروں کے ساتھ شروع ہوئیں اور ان ایجنسیز نے موقع پرستانہ طور پر ہندستان میں وسیع پیمانے پر تجارت کی (موجودہ عہد میں اسے امپورٹ ایکسپورٹ ایجنسی کہا جاسکتا ہے ) ۔ مثال کے طور پر اسکاٹش کمپنی فنلے نے 1870 ء میں کلکتہ میں اپنا دفتر کھولا۔ اس کمپنی نے کچی کپاس، کوئلہ، لوہا اور دیگر دھاتیں برآمد کیں۔ کھالیں، چاول، ریشم، جوٹ ہندستان سے برآمد کیا گیا جبکہ بیئر اور شراب درآمد کی گئی۔

ان ایجنسیز نے ہندستان کی اقتصادیات پر مزید کنٹرول حاصل کرنے کے لیے شیئر ہولڈرز کے ذریعے سے سرمایہ کاری کے منصوبہ بنائے اور انتظامی خدمات فراہم کرنے کے لیے زیادہ منافع پر مبنی طویل المدت معاہدے کیے، چنانچہ یہ برطانوی ایجنسیز پٹ سن ملز، کوئلے کی کانوں، شپنگ لائنز، فلور ملز، پیپر ملز، سیمنٹ فیکٹریوں اور تعمیراتی شعبوں میں داخل ہو گئیں۔ فرنٹ پر کمپنی کا نام اور پس پشت ایجنسیوں میں شامل برطانوی افراد انھیں کنٹرول کرتے۔ مزید برآں، حصص یافتگان کے لیے انتظامی (مینیجنگ) ایجنٹوں کو ہٹانا تقریباً ناممکن تھا کیونکہ اس کے لیے حصص یافتگان کی دو تہائی اکثریت کی حمایت کی ضرورت ہوتی تھی، جو حاصل کرنا مشکل تھا کیونکہ ایجنٹ خود یا تو حصص رکھتے تھے یا کمپنی میں اپنی پوزیشن کا دفاع کرنے کے لیے پراکسیز سرمایہ کاروں کو متحرک کر دیتے۔

اعداد و شمار کے مطابق 1851 ء سے 1882 ء کے درمیان کمپنیز ایکٹ کے تحت 1149 رجسٹرڈ کمپنیوں میں سے 646 کو بند کر دیا گیا تھا۔ ان کمپنیوں میں 55 چائے، 8 پٹ سن ملز، 3 کوئلہ اور 36 نیویگیشن کمپنیاں شامل ہیں۔ کمپنیوں کی بندش کی یہ شرح انتہائی تشویش ناک ہے، ان کمپنیوں پر ایجنسیز کا کنٹرول نہیں تھا اس لیے حکومت ہند نے انھیں مختلف وجوہات کی بناء پر بند کرا دیا، یہ مقامی تاجر پیشہ ہندستانیوں کے معاشی قتل کا عملی اقدام تھا۔

برطانیہ کا یہ طرز عمل استعماری منصوبہ کے باعث تھا، کیونکہ ہندستان کو خام مال کی منڈی، تیار منڈیوں اور غیر تربیت یافتہ لیکن سستے مزدوروں تک جامد رکھنا تھا تاکہ ہندستانی جدید کاروبار کے طرز عمل سے نا واقف رہیں۔ اس دوران 1869 ء میں نہر سویز بننے سے برطانوی تاجروں، سرمایہ کاروں اور نوآبادیاتی روایات کے علمبرداروں کو مسلسل ہندستان درآمد کرنے میں مزید تیزی آئی۔

ہندستان کی 1861 ء کی مردم شماری کے مطابق، یہاں 15 ہزار غیر سرکاری برطانوی رہائش پذیر تھے جو کہ 1851 ء کے تناسب سے آٹھ فیصد زیادہ ہیں اور 1300 مرکنٹائل کلاس سے وابستہ غیر سرکاری برطانوی رہائش پذیر تھے۔ برطانیہ نے یہاں کے غریب طبقات کو بہ طور سستی لیبر حاصل کیا اور یہاں کی مڈل کلاس کی محدود انگریزی تعلیم کا بندوبست کر کے انھیں انتظامی کاموں کے لیے حکومت ہند سے منسلک کر دیا اور یہی مڈل کلاس اقتصادی لوٹ کھسوٹ میں انگریز سرکار کی معاون بن گئی۔ ریاستی سرپرستی میں انتظامی ایجنٹوں کی صورت میں برطانیہ کی اس کیپٹلسٹ کلاس کو ہندستان میں مکمل تحفظ فراہم کیا گیا اور یہاں سے دولت یورپ منتقل کرنے کی سہولت پیدا کی گئی۔

مینیجنگ ایجنسی کے اس نظام کے ذریعے سے ہندستانی تجارت کا کنٹرول برطانوی یا یورپی سرمایہ کاروں کے ہاتھ میں چلا گیا اور اس منصوبہ کی سرپرستی سرکاری سطح پر برطانیہ خود کر رہا تھا۔ برطانوی کاروباری ترقی کا رجحان ہندستان سے برآمد پر مبنی مواقعوں پر مرکوز تھا، جس کے لیے غیر ملکی منڈیوں کے بارے میں اچھی معلومات اور ان کے اندر اچھے رابطوں کی ضرورت تھی، یہ سب کچھ برطانویوں کے پاس دستیاب تھا یوں ہندستانی کاروباری افراد یورپین کے مقابلے پر یورپی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کی زیادہ سکت نہیں رکھتے تھے۔

استعماری حربوں نے برطانویوں کو ایک اور سہولت فراہم کی، برطانوی بینکنگ اداروں کے توسط سے مختصر مدت کے لیے قرضے لینے کے لیے بینک فنانس دیا گیا اور طویل المدتی سرمایہ کاری کی فنڈنگ کے لیے نئے اداروں کے قیام کے لیے ایکویٹی کیپٹل فراہم کرنے کی ریاستی ضمانت میسر رہی۔ اب یہاں انگریزوں کو ایکویٹی کیپٹل کی بنیاد پر کمپنی بنانے کی تکنیک سے واقفیت نے انھیں کاروباری فوائد پہنچائے۔

برطانوی سرکار نے انتظامی ایجنسیز کو مضبوط کرنے کے لیے ہندستان کے مقامی تاجروں، بینکاروں اور کریڈٹ فراہم کرنے والے طاقت ور افراد کی اقتصادی معاونت بھی حاصل کی۔ ہندستان کے اشرافیہ طبقات نے انھی مینیجنگ ایجنٹس کو قرض یا سرمایہ کی صورت میں دولت فراہم کی۔ ہندستان میں طویل عرصہ سے کریڈٹ فنانس سسٹم قائم تھا۔ یہ سسٹم روایتی مغربی بینکنگ پریکٹس کے ساتھ انضمام کی راہ میں ایک ناقابل تسخیر رکاوٹ ثابت ہوا۔ ہندستان میں قرضوں کی ضمانت، تحریری معاہدے کے مقابلہ میں، مغربی بینکاروں کے لیے سیکیورٹی کے طور پر ناقابل قبول تھا، یہی وجہ تھی کہ ہندستانیوں کو قرض دینے میں بینکوں کو ہچکچاہٹ ہوتی۔

اس طرز عمل سے برطانوی حکومت نے تمام عمدہ اور قیمتی سامان جیسے انڈیگو یعنی نیل، قیمتی دھاتوں، کپاس، اجناس اور کپڑے کی تجارت پر برطانویوں کی ہی اجارہ داری قائم کی۔ ایک سامراجی سازش کے تحت جان بوجھ کر ہندستانی انٹرپرائزز کو جدید معیشت میں شمولیت سے باز رکھا گیا۔ سیاسی، اقتصادی، انتظامی اور مالیاتی امور کے ذریعے سے اس سماجی تفریق کو بڑھایا گیا جس نے یورپی تاجروں کو ہندستان میں اپنے حریفوں کے خلاف فائدہ پہنچایا۔

ہندستان کی پانچ بڑی مینیجنگ ایجنسیز کا تذکرہ ضروری ہے جو پٹ سن، کپاس، شپنگ انڈسٹری، چائے کی برآمد، انڈیگو، لوہے کی تجارت میں پیش پیش تھیں جس میں GILLANDERS ARBUTHNOT & CO، MACKINNON، MACKENZIE & CO۔ BIRD & CO، WILLIAMSON MAGOR & CO۔ شامل ہیں۔ JAMES FINLAY & CO

برصغیر میں برطانوی قوانین کا نفاذ نوآبادیاتی مفادات کے حصول کے لیے ہوا، کمپنیز ایکٹ میں ترامیم ہوں یا پھر مینیجنگ ایجینسی سسٹم پر قانونی گرفت قائم نہ کرنا، کالونیل لیسز فیئر کی کلاسیکی مثال ہے۔ ہندستان میں اینٹی کالونیل موومنٹ میں تیزی آئی تو اس مینیجنگ سسٹم کے خلاف بھی مقامی تاجروں اور کاروباری افراد نے آواز اٹھائی اور اس آواز میں اس وقت شدت بڑھی جب 1930 کے عالمی کساد بازاری نے اقتصادی بحران پیدا کیے۔ برطانوی حکومت پر دباؤ کے باعث 1913 ء اور 1929 ء کے انڈین کمپنیز ایکٹ میں ترامیم کی گئیں اور 1936 ء میں پاس ہونے والے کمپنیز ایکٹ میں مینیجنگ ایجنٹس سے متعلق سخت قوانین شامل کیے گئے۔

مانٹیگو چیمسفورڈ اصلاحات اور ہندستان میں آئینی اصلاحات کے تناظر میں 1935 ء کا ایکٹ نافذ ہوا اور اسی کے ذیل میں کمپنیز ایکٹ میں بھی ترامیم ہوئیں اور مینیجنگ ایجنٹ کے استحصالی کردار سے ہندستان کو چھٹکارا ملا۔ یہ وہ عہد تھا جب برطانوی استعماریت کے خلاف سیاسی تحریکوں میں تیزی آ چکی تھی اور عالمی سیاست پر برطانوی گرفت کم زور ہونے کے ساتھ امریکا کی بالادستی بڑھ رہی تھی۔ یہ امریکی بالادستی دوسری عالمی جنگ کے ابتداء میں ہی ثابت ہو گئی اور برطانیہ کو بذریعہ اٹلانٹک معاہدہ اپنی نوآبادیات سے دستبردار ہونے کے لیے امریکا کے آگے سرینڈر کرنا پڑا۔ ہندستان میں برطانوی معاشی لوٹ کھسوٹ کے اثرات آج بھی اس خطہ کی پسماندگی کی بڑی وجہ ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments