معاشرے کی سوچ
معاشرے کی سوچ کو اگر تہذیب کی خوراک نہ ملے تو وہ بےہنگم اور منتشر ہو جاتی ہے۔ اس بےہنگم اور منتشر سوچ کی کوئی خاص سمت نہیں ہوتی۔ یہ حالات کے ہاتھوں کھلونا بنتے ہوئے اسی کی مرضی سے ہانکی جاتی ہے۔ انتشار زدہ یہ سوچ عفریت کا روپ دھارے سارے معاشرے کو چاٹ جاتی ہے۔ کہتے ہیں سوچ ہی حقیقت ہے، سارا جسم محض ایک سوچ کا فرماں بردار ہوتا ہے، شخصیت کی تعمیر سوچ کے مثبت یا منفی ہونے پہ منحصر ہے۔ ایسے ہی کسی معاشرے کی سوچ تہذیب یافتہ نہ ہو تو رواداری، برداشت، اخلاقیات اور مثبت سرگرمیوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ تعفن زدہ خیالات و نظریات سارے معاشرے کے وجود پہ حاوی ہو کر ان واقعات کا باعث بنتے ہیں جو ہم سیالکوٹ میں دیکھ چکے اور دیکھتے رہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس اجتماعی سوچ کو مہذہب کیسے بنایا جائے؟ بےہنگم سوچ کی سمت کیسے متعین کی جائے؟ یہ ذمہ داری معاشرے کے کن افراد پہ عائد ہوتی ہے؟
ایک وقت تھا جب اسی معاشرہ کو حقیقی رہنما میسر تھے، قوم میں مصلح موجود تھے، اچھے ادب کی رسائی سب تک تھی، والدین کی گود تربیت کی پہلی درس گاہ ٹھہرتی تھی، تعلیم ادارے کم سہی لیکن معاشرے کو اعلٰی اذہان بہم پہنچا رہے تھے یہی وجہ تھی ایک رہنما ایک نظریے کے ساتھ منظرِ عام پہ آیا تو عوام نے اس کی شخصیت کو نہیں بلکہ نظریے کو دیکھا۔ تنگ نظر چھوٹی ذہن اور سوچ رکھنے والوں کی طرح شخصیات پہ بحث کے بجائے نظریات پہ بحث کی۔
آج معاشرے کی ذہن سازی کرنے والا ادب اذہان کو بیدار کرنے کے بجائے تھپک تھپک کر سلا رہا ہے، ادب کا اہم جز ڈرامہ جو موجود دور میں سب سے زیادہ اثر انداز ہو رہا ہے وہ محض گھریلو جگھڑوں تک محدود ہو کر عوام کو نفسیاتی بنانے میں پورا کردار ادا کر رہا ہے۔ رہنما بھی نظریات کے بجائے شخصیات تک محدود ہو چکے ہیں سو ان کی گفتگو محض تنگ سوچ کو ہی فروغ دینے کا باعث بن رہی ہے۔ تعلیمی ادارے محض طوطوں کی پرورش کر رہے ہیں۔ تعلیم کا مقصد محض حصول دولت و برتری بن کر رہ گیا ہے۔ اخلاقی تربیت جسے تعلیم کا جز لاینفک ہونا چاہیے تھا اس کا تعلیم سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں رہا۔ مادیت پرستی کی دوڑ انسان کی روح سازی کیسے اور کیونکر ہو سکتی ہے۔ اجتماعی اضطراب کا باعث بن کر ایک ایسی سوچ کو پروان چڑھاتی ہیں جس کو جذبات ہانکتے ہوئے اپنی مرضی کی سمت لے جاتے ہیں۔ معاشرے کی یہ اجتماعی غیر تعمیری سوچ سیالکوٹ جیسے واقعات کا باعث بن رہی ہے۔ جذبات سے ہانکی ہوئی یہ سوچ احساسات سے مکمل عاری ہوتی ہے، یہ بے رحم سوچ انسان کو انسان نہیں تفریق اور تعصب کی آنکھ سے دیکھتی ہے، جذبات سے مکمل مغلوب ہونے کے باعث صحیح اور غلط میں تمیز نہیں کر پاتی، اس سوچ کی لاٹھی تلے جب کوئی انسان آ جائے وہ ان کی نظر میں بےجان شے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ چونکہ اس سوچ کے پاس عقل و دل جیسی چیزوں کی کمی ہوتی ہے سو کسی کا چلانا، اس کی آہیں اور اس کی تکلیف سب کچھ غیر اہم ٹھہرتا ہے۔
معاشرے کی اس تنگ نظر سوچ کو وسعت دینے کے لیے ادب، کھیل، تعلیم جیسے ذرائع کو موڈیفائے(modify) کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ عقل و دل سے عاری یہ سوچ جانے کتنی ہی معصوم جانوں کو نگلتی چلی جائے گی۔
- آزاد کشمیر کی عوامی تحریک اور اس کے محرکات - 15/05/2024
- خیالات کا گونگا پن - 11/02/2022
- معاشرے کی سوچ - 20/12/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).