امیروں کی خودکشی


کہا جاتا ہے کہ غریب لوگ غربت کی وجہ سے خود کشی کرتے ہیں لیکن مختلف امیر و مشہور لوگوں کی خودکشی کو دیکھ کر سوال اٹھتا ہے کہ امیر خود کشی کیوں کرتے ہیں۔

عام طور پر امیروں کے پاس زندگی کی بہت ساری سہولیات ہوتی ہیں۔ اچھی نوکری، اچھی جگہ شادی، بچے، گھر، اور دیگر بہت ساری سہولیات ہوتی ہیں تو وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ ؟ بعض اوقات بظاہر جو خود کشی کی وجہ بیان کی جاتی ہے وہ بہت معمولی سی ہوتی ہے۔ اور بعض اوقات تو کوئی آخری خط تک نہیں ہوتا اور وہ اندھی خود کشی ہوتی ہے۔

دوسری طرف غریبوں کو دیکھا جائے تو ان کے پاس خود کشی کر نے کی بے شمار وجوہات ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک مزدور کو سات سو سے ہزار تک مزدوری ملتی ہے جس میں اینٹیں اٹھانا، سیمنٹ اور دیگر بھاری آلات ادھر ادھر لے جانا اور یہ کام روز کرنا پڑتا ہے اور یہ اتنی سخت مشقت ہوتی ہے کہ اگر امیر کو روز کرنا پڑے تو وہ اسی مشکل کی وجہ سے خود کشی کر لے۔

امیر کا دیکھا جائے تو وہ اعلی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ اعلی عہدے جیسے ڈاکٹر جج، سرکاری افسر ہوتے ہیں یا ایک بڑا کاروبار رکھتے ہیں، باہر کے ملکوں میں سیر سپاٹا، تفریح اور دیگر بہت سی سہولیات حاصل ہوتی ہیں کہ جن کا مزدور طبقہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ پھر ان کے کئی بچے ہوتے ہیں جب وہ سات سو ہزار کما کر گھر پہنچتے ہیں تو ان کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی کہ ہر ایک کو پیٹ بھر کر کھلا سکیں جبکہ امیر کے ایک دن کا ناشتہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ مزدور پورا مہینہ اس کے برابر مہیا نہیں کر سکتا۔ تو پھر امیر کیوں خود کشی کرتے ہیں۔ ؟ بعض حالات میں کہا جاتا ہے کہ لا علاج بیماری کی وجہ سے خود کشی کر لی تھی۔ یہ وجہ اس قسم کے مریض کے معاملے میں تو سمجھ آ سکتی ہے کہ جس کا مرض آخری سطح پر ہو لیکن تھوڑی سی بیماری جس کا علاج میسر ہو، میں خود کشی کرنا سمجھ نہیں آتی۔ پھر آج کل کے زمانے میں جو اہم امراض ہیں، جیسے سرطان، ایڈز، ہیپاٹائیٹس اور دیگر تو امیر کے ساتھ غریب بھی ان کا شکار ہوتے ہیں۔ غریب ان امراض کا علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے جبکہ امیر رکھتے ہیں۔

اسی طرح سے تعلیم کے میدان میں ناکامی کی صورت میں خود کشی کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آتی کہ انسان کو ہر دن ناکامی کا سامنا ہوتا ہے۔ ہر انسان کی ہر خواہش پوری نہیں ہوتی۔

تو صرف تعلیم کے میدان میں ناکامی کو سر پر سوار کر لینا سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا زندگی اتنی سستی چیز کا نام ہے کہ امتحان میں ناکام ہونے یا کم نمبر آنے پر اس کا خاتمہ کر دیا جائے؟ کیا وہ یہ نہیں سوچ سکتے کہ کتنے ہی لوگ اعلی ڈگریاں رکھنے کے باوجود ناکام ہو جاتے ہیں۔ کیا وہ نہیں سوچتے کہ ان سے کتنے لوگوں کی زندگیوں کی خوشیاں وابستہ ہیں؟ ٹھیک ہے، انہیں زندگی میں ناکامی کا سامنا ہے۔ لیکن وہ یہ بھی تو سوچیں کہ ان کے والدین، بہن بھائیوں کی زندگی کی خوشیاں ان سے وابستہ ہیں۔ ان کے والدین نے کتنی مشقتیں اور دکھ اٹھا کر انہیں پال پوس کر بڑا کیا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ خودکشی کرنے سے پہلے ان کا سوچ لیں کہ ان کا کیا بنے گا؟ وہ تو جیتے جی زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔

استاد کی مار سے بھی غریب نہیں امیر کے بچے خود کشی کر لیتے ہیں۔ غریب جب اپنے بچوں کو سکول میں داخل کرواتے ہیں تو استاد سے کہتے ہیں کہ ہڈیاں ہماری گوشت تمھارا یعنی ہڈی توڑنے کے سواء جتنا چاہے پٹائی کر لیجیے۔ جبکہ امیر کے بچے استاد کی پٹائی کر دیتے ہیں۔

اسی طرح امیر افراد جتنی دفعہ چاہیں اپنی تعلیم گاہ، نوکری، کاروبار تبدیل کر لیں تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، جبکہ مزدور اگلے دن بھوکا رہنے کے خوف سے اپنا پیشہ تبدیل کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچتا ہے۔

اسی طرح کسی خاص استثنا کو چھوڑ کر عام طور پر امیر کے لیے رشتے قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ امیر جتنا بدصورت یا بری عادت رکھنے والا ہو، اسے بیوی یا شوہر اپنے پیسے کے بل پر اتنے ہی خوب صورت اور اچھے مل جاتے ہیں۔ پھر اپنی امارت کی وجہ سے وہ جب چاہے، پہلی کو چھوڑ کر دوسری شادی کر نے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی انہیں وقتی طور پر جنسی آسودگی کے لیے بہت سے ساتھی مل جاتے ہیں جبکہ غریب کو اول تو کوئی رشتہ دیتا نہیں اور جب ترس ترس کے اس کی شادی ہوتی ہے تو وہ ذہنی طور پر اتنا تھکا ہوتا ہے کہ برے شریک حیات کو چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ غریب عورت ہو یا مرد، وہ جب مصیبتوں کے دریا عبور کر کے شادی کرتے ہیں تو وہ برا ساتھی ہونے کے باوجود ساتھ نبھاتے ہیں جبکہ امیر کھڑے کھڑے طلاق لے لیتے ہیں۔ تو اس وجہ سے بھی خود کشی کرنا اتنی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔

امیر کو اپنے گھر والوں کے ساتھ ملک کے اندر اور باہر تفریح کے لیے جانے کا موقع مل جاتا ہے کہ وہ ذہنی توانائی بحال کر سکے۔ جبکہ غریب زندگی بھر کولہو کے بیل کی طرح ایک خاص معمول کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں تو پھر آخر امیر کیوں خود کشی کرتے ہیں؟ ہمارے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ صبر و تحمل کا نہ ہو نا ہے۔ جب امیر و کامیاب افراد کو زندگی بھر کامیابی ملتی رہتی ہے تو پھر ان کے لیے کسی چھوٹی سی چھوٹی ناکامی کو برداشت کرنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔

پرانے زمانوں میں امیر اپنے بچوں کو غریبوں کے گھر پلنے بھیجتے تھے تاکہ انہیں غربت کا اچھی طرح سے علم ہو سکے اور اس سے سے ان میں صبر و تحمل کی عادت پیدا ہو سکے۔ اور جب ا نہیں دولت ملے تو انہیں اس کی قدر و منزلت کا بھی احساس ہو سکے۔ ہم نے خود کچھ ایسے امیروں کے بارے میں سناء ہے کہ جن کے والدین خود تو ہوائی جہاز پر ایک سے دوسرے شہر آیا جایا کرتے تھے جبکہ بچے آیا کے ساتھ ٹرین کے تھرڈ کلاس ڈبے میں سفر کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ انہیں غربت کا علم ہو سکے اور وہ دولت کی قدر کر سکیں۔ یعنی۔ اس محاورے کو عملی شکل دی جاتی تھی کہ سونے کا نوالہ اور شیر کی آنکھ۔

آج کل جس طرح دیگر معاملات میں ہر چیز کا معیار گر گیا ہے، اسی طرح یہ معیار بھی ختم ہو گیا ہے کہ سونے کا نوالہ اور شیر کی آنکھ۔

مزدور کو مجبوراً ہی اپنے بچوں کے ساتھ سختی سے کام لینا پڑ جاتا ہے۔ یوں وہ ناکامیوں کے عادی ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ مزدور اپنی غربت کی وجہ سے انہیں سونے کا نوالہ نہیں دے سکتا اور اسے شیر کی آنکھ سے کام لیتے ہوئے ان کی ہر خواہش کو دبانا پڑتا ہے یعنی یہ اس لطیفے جیسا ہوتا ہے کہ ایک کنجوس آدمی اپنے بچوں کو گھی کے ڈبے پر روٹی رگڑ کر کھانے کو دیتا تھا۔ ایک دفعہ وہ دوسرے شہر جانے لگا تو گھی کے ڈبے کو الماری میں رکھ کر تالا لگا کر چلا گیا۔ دوسرے دن واپسی پر اس نے بچوں سے پوچھا کہ تم نے روٹی کیسے کھائی تو بچوں نے بتایا۔ الماری پر رگڑ کر تو اس پر اس نے کہا کم بختو کبھی تو روکھی بھی روٹی کھا لیا کرو۔

یہ امیر ہی تو ہوتے ہیں کہ جن کی آنکھ پر اتنے پردے پڑ جاتے ہیں کہ اپنی پسندیدہ ٹیم کے ہارنے پر ٹی وی سیٹ توڑ دیتے ہیں جبکہ غریب کبھی اپنے واحد ٹی وی کو نہیں توڑتے۔ غریب کے پاس زیادہ سے زیادہ ایک ہی سیکنڈ ہینڈ ٹی وی ہوتا ہے جو کئی منتوں اور مہینوں سالوں کے انتظار کے بعد اسے ملا ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اسے کیسے توڑنے کا متحمل ہو سکتا ہے۔

دوسری طرف بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کی اپنی زندگی کا بظاہر کوئی مقصد نہیں ہوتا لیکن ان کی موت سے دوسروں کی زندگیاں بہت تباہ ہو جاتی ہیں چنانچہ وہ دوسروں کے لیے زندہ رہتے ہیں۔ چنانچہ آپ بھی اسی طرح سوچیے۔ اگر کسی کا اپنا کوئی نہیں ہے تو اسے دوسروں غیروں کا سوچنا چاہیے کہ شاید انہیں اس کی مدد کی ضرورت ہو

ویسے جو لوگ خود کشی کرنے کا سوچتے ہیں، انہیں کیسے یقین ہوتا ہے کہ دوسری دنیا میں جا کر ان کی زندگی زیادہ بہتر ہو جائے گی۔

پھر ایسے لوگ جو براہ راست خود کشی نہیں کرتے لیکن ان کے اقدامات خود کشانہ ہوتے ہیں جیسے کہ بے انتہاء اور پرہیز کیے بغیر کھانا پینا، سیگریٹ نوشی کرنا یا جان بوجھ کر اپنے اور اپنے خاندان کے لیے چھوٹی موٹی بات پر جانی دشمنیاں مول لینا، وہ بھی خود کشی کے زمرے میں آتا ہے۔ پھر ایسے لوگ زیادہ شادیاں کر کے اور زیادہ بچے پیدا کر کے کہتے ہیں کہ یہ ہماری دشمنی کو آگے جاری رکھیں گے تو وہ بھی ایک طرح سے اجتماعی طور پر نسل کشی اور خود کشی کا ہی معاملہ ہوتا ہے۔ اور ایسے افراد کے بچے بھی بغیر کچھ سوچے سمجھے اپنے والدین کی دشمنیاں آگے بڑھاتے چلے جاتے ہیں، انہیں یہ سمجھ یا اتنی عقل نہیں ہوتی کہ کیا ان کی زندگی کا مقصد والدین کی مول لی ہوئی دشمنیوں کو آگے بڑھانا رہ گیا ہے۔ تو یہ بھی خود کشی کا ہی ایک رویہ ہے۔

اگر کسی کو خود کشی کے خیال آتے ہیں تو اسے دوسروں سے مدد مانگنے میں ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اور علاج کروانا چاہیے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو خود کشی سے بچاؤ کے لیے ایک باقاعدہ ہیلپ لائن ہوتی ہے جہاں ایسے لوگوں کو مدد دی جاتی ہے۔ تو آپ بھی مدد مانگیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments