رب کا وعدہ اور رزق کی تلاش میں سرگرداں انسان


کائنات کا ہر ذرہ اللہ تعالی کا تخلیق کردہ ہے وہی خالق و مالک اور رزاق ہے۔ اللہ تعالٰی نے اس کائنات کو بنانے سے پہلے حضرت آدم علیہ اسلام کو خود اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا پھر تمام فرشتوں کو جو اللہ تعالی کی عبادت پر مامور تھے اورجن کو نور سے بنایا گیا تھا ان سب کو حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ اسلام کو سجدہ کیا جائے۔

اللہ تعالٰی کا قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ :
” اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز کا ذمہ لینے والا ہے“

حضرت آدم علیہ اسلام کی پیدائش کے بعد ہر چیز کو صرف کن پر تخلیق کیا گیا۔ انسانوں کو افضل مخلوق بنایا گیا اور پھر اس کو اشرف المخلوقات کے عہدے پر سرفراز کیا گیا۔ اس پوری کائنات میں ایسی کوئی مخلوق نہیں جس کو بلا مقصد پیدا کیا گیا ہو یا اس کی تخلیق کا کوئی جواز نہ ہو۔ اسی طرح ہم انسانوں کو بھی اللہ تعالی کی عبادت کے لئے اس دنیا میں اتارا گیا لیکن ہم اس کا نام لینے کے علاوہ تمام کام بخوشی کرتے ہیں۔

ہم بحیثیت انسان ناشکرے ہیں ہم عطا کی گئی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے خود کو مزید کی تلاش میں سرگرداں رکھتے ہیں۔ ایک چیز حاصل ہو جائے تو اگلی چیز کی خواہش میں نکل پڑتے ہیں اپنی زندگی کے اصل مقصد کو بھول جاتے ہیں لوٹ کر واپس اسی خالق کی طرف جانا ہے اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں۔

واصف علی واصف فرماتے ہیں کہ : ”لوگ تو اس مالک کا بھی شکریہ ادا نہیں کرتے جو انہیں مفت میں بینائیاں عطا کرتا ہے اور ان کے دیکھنے کے لئے نظارے پیدا کرتا ہے ’جو آسمانوں سے مینہ برساتا ہے اور اس سے خوراک مہیا کرتا ہے۔ لوگ حصول رزق کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور دینے والے سے تعلق اتنا ہی ہے کہ وہ دیتا چلا جائے اور لوگ لیتے چلے جائیں۔ وصولی کی رسید اور شکریہ کی ضرورت نہیں۔ “

رازق اللہ تعالٰی کی ذات ہے اور اس نے اپنی تمام تخلیق کردہ مخلوق کو رزق دینے کا وعدہ کیا ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے رزق حاصل نہیں ہو جائے گا اس کے لئے محنت اور جستجو کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ انسان کا رزق اس کے اپنے اندر موجود ہے یعنی اس کی اپنی عقل ’سوچ‘ قابلیت ’صلاحیتوں اور عمل پر منحصر ہے کہ کیسے وہ اپنی عطا کردہ صلاحیتوں کو پہچانتا ہے اور اس کی قدروں میں وقت کے گزرنے کے ساتھ اضافہ کرتا ہے اور اپنی قابلیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے لئے رزق کے دروازے کھولتا ہے۔

ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے ہر عمل کے ہونے اور مقصد یا منزل حاصل ہونے کا ایک وقت مقرر کیا ہے اس وقت سے پہلے آپ جتنی بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں آپ کو کبھی اس مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہو گی اور نہ ہی اس مقرر کردہ سے زیادہ یا کم حاصل ہو گا۔ لیکن چونکہ ہم انسان ہیں اور اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے مایوسی کا شکار جلدی ہو جاتے ہیں اور اپنی قسمت ’وقت و حالات کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں اور اسی نا امیدی میں دل چھوڑ کر اس مقام پر بیٹھ جاتے ہیں جس سے آگے کامیابی ملنی ہوتی ہے اور یہی نہیں بلکہ اکثرو بیشترانتہائی قدم اٹھانے سے بھی باز نہیں آتے۔

اس کائنات کی کوئی بھی مخلوق بھوکی نہیں سوتی سوائے انسان کے جس کی بھوک کبھی ختم نہیں ہوتی۔ کیونکہ انسان بنیادی طور پر لالچی ہے ’اس میں حرص‘ بغض اور کینا پروری بھری ہوئی ہے ’غاصب ہے‘ دوسروں کے حقوق چھیننے والا اور ظلم کرنے والا ہے اور دوسروں کی اپنے معمولی فائدے کے لئے عزتیں پامال کرنے والا ہے۔ یہ انسان اپنا پیٹ تو بھر لیتا ہے ’آنے والے وقت کے لئے ذخیرہ تو کر لیتا ہے لیکن اپنے اردگرد‘ اپنے ہمساؤں میں نظر ڈالنا بھول جاتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ اس کے اس عمل کا اس کو جواب دینا ہو گا کیونکہ حقوق العباد میں ہی حقوق اللہ ہے آج ہم اللہ کی مخلوق کا خیال کریں گے تو کل کو اللہ تعالی ہمارا خیال کریں گے۔ وہ مال جو خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے ’باعث اطمینان ثابت ہوتا ہے۔

جب ہم دوسروں کا سوچتے ہیں ان کے لئے آسانیاں بانٹتے ہیں تو اللہ تعالی غیب سے ہماری مدد کرتے ہیں اور وہ کوئی بھی چیز جو بانٹی جائے چاہے رزق ہو یا علم کبھی کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ کہہ دینا کہ کسی کی مدد صرف پیسوں سے ہی کی جا سکتی ہے ایسا ہرگز نہیں ہے خدمت کر کے بھی انسانیت کا حق ادا کیا جاسکتا ہے ’کسی بیمار کی تیمارداری کر دی جائے‘ کسی کو مسکرا کا دیکھ لینا اس کے دل کا دکھ سن لینا بھی عبادت تصور کیا جاتا ہے۔

ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو بہت سارے ایسے لوگ نظر آئیں گے جن کو ہماری ضرورت ہے ان کو اپنا وقت دے کر ہم دعائیں حاصل کر سکتے ہیں۔ دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر ان کے کام آ کر ہم اپنی آخرت سنوار سکتے ہیں۔ اگر ہم ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال کر لیں تو ہم اپنی زندگی کو خوشیوں اور اطمینان سے بھر سکتے ہیں۔

واصف علی واصف فرماتے ہیں کہ : ”سکون حاصل کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان سکون کے حصول کی تمنا چھوڑ کر دوسروں کو سکون پہنچانے کی کوشش کرے۔ سکون دینے والے کو ہی سکون ملتا ہے۔ کسی کا سکون برباد کرنے والا سکون سے محروم رہتا ہے۔

ہمیں زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کا لالچ دل سے نکال کر جو حاصل ہے اس میں خوش ہونے کا ہنر سیکھنا چاہیے اور بغیر کسی حرص ’لالچ اور غرض کے دوسرے لوگوں کے کام آنا چاہیے اسی میں ہماری بھلائی پنہا ہونے کے علاوہ دل کا سکون موجود ہے۔ کسی کا حق نہیں مارنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالی کی لاٹھی بے آواز ہے ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو ذات آپ کو نواز سکتی ہے وہ اپنی عنائیتیں واپس بھی لے سکتی ہے۔

ہمیں اپنی زندگی میں قناعت پسندی کا عنصر ضرور ڈالنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف ہماری شخصیت میں مضبوطی آئے گی بلکہ ہم ایک پرسکون زندگی گزارنے کے بھی متحمل ہو سکیں گے۔ خوب سے خوب تر حاصل کرنا ایک فطری عمل ہے لیکن جو ہمیں عنایت کیا گیا ہے اس پر اپنے رب کا شکرگزار ہونا چاہیے اور اس دیے ہوئے میں سے دوسروں کو دینا چاہیے اور یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ یہ عطا بھی اسی رب کی جانب سے ہے جس کو ہم اپنے ہر عمل کے لئے جواب دہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments