سموگ اور سگریٹ


لاہور ملتان موٹر وے پر گزشتہ ماہ سفر کے دوران میں دیکھ رہا تھا، دونوں اطراف جگہ جگہ آگ لگی ہوئی تھی۔ یہ کوئی حادثاتی آگ نہیں تھی جو کسی گھر، دکان، بلڈنگ یا فیکٹری کو لگ جاتی ہے بلکہ یہ آگ کسان اپنی فصلوں کی کٹائی کے بعد باقی ماندہ بھوسے کو لگا دیتے ہیں۔

سموگ آج خاص طور پنجاب کا بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ ہم اس بات پر ہلکان ہو رہے ہیں کہ لاہور دنیا کا سب سے آلودہ شہر بن چکا۔ کراچی آلودگی میں نام پیدا کر رہا ہے۔ ملتان اور بہاولپور کے آسمان نیلگوں کی بجائے سیاہ ہو چکے اور دلی کا چاند سموگ نے گہنا دیا ہے۔

ہوا میں جب تین چیزوں کا تناسب بڑھتا ہے تو گراؤنڈ لیول اوزون کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ جو ہمارے پھیپھڑوں کے ڈی این اے کو تباہ کرتی ہے۔ اس کے سانس پر دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں، جو جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔ سموگ ہوا میں موجود ذرات کی مقدار اور سائز بڑھنے سے بنتی ہے۔ یہ دونوں عوامل ہوا میں شامل ہونے والے کاربن، سلفر اور نائٹروجن کے مرکبات ہوتے ہیں جو سورج کی روشنی میں موجود الٹرا وائلٹ کے عمل سے گراؤنڈ لیول اوزون کی مقدار بڑھا دیتے ہیں۔ گراؤنڈ لیول اوزون کی مقدار پلیوشن کی مقدار کا تعین کرتی ہے۔

ہوا میں آلودگی پیدا کرنے والے عوامل میں دھواں چھوڑتی گاڑیاں، کارخانوں اور اینٹوں کے بھٹوں کے چمنیاں، فصلوں اور جنگلات کو لگی ہوئی یا لگائی ہوئی آگ، شہروں میں بے پناہ ٹریفک کے مسائل کھڑی کرتی گاڑیاں اور موٹر سائکلیں جن کی تعداد میں روزانہ ہزاروں کے حساب سے ترقی ہو رہی ہے۔ گاڑیاں خریدنے والوں کی لمبی قطار ہے اور موٹر سائکل کمپنیاں گھروں میں جا جا کر قسطوں پر موٹر سائکلیں بیچ رہے ہیں۔ ملک میں فوڈ کے علاوہ پٹرول کا کاروبار بڑھ رہا ہے اور نئے پٹرول پمپ لگے جا رہے ہیں۔ پٹرول مگر ناکارہ اور پلیوشن میں بے پناہ اضافے کا سبب ہے۔ کوئلے کے کارخانے اور بھٹیاں مزید آلودگی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ ہسپتالوں کا ویسٹ غیر قانونی طور پر جلایا جاتا ہے۔ گیس اور ایل این جی کی قلت ہے۔ لکڑی کوئلے اور اپلے جلانے پر لوگ مجبور ہو گئے ہیں۔

سموگ کے برے اثرات بچوں اور بوڑھوں پر زیادہ ہوتے ہیں۔ ان کے پھیپھڑے کی جھلیاں زیادہ نازک اور بیماری کو جلد قبول کرنے والی ہوتی ہیں۔ اوزون ان جھلیوں پر عارضی اور مستقل سوزش کا باعث بنتی ہے۔ عارضی سوزش سانس کی نالیوں کی تنگی کا باعث ہوتی ہے۔ سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور دمہ کی شکایت ہوجاتی ہے۔ ایسے بچے اور بوڑھے جو پہلے سے ہی سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں، ان کے لئے سموگ زہر قاتل ثابت ہوتی ہے اور شرح اموات میں اضافے کا باعث ہے۔

سموگ کے دنوں میں نزلہ، کھانسی، سانس میں تنگی اور نمونیا بڑھ جاتے ہیں۔ سانس کی نالیوں میں تنگی دل کی آکسیجن کی ڈیمانڈ پوری نہیں کر سکتی تو انجائنا اور دل کے دورے بھی بڑھ سکتے ہیں۔ یہ امراض بعض میں پھیپھڑوں کے سرطان کا باعث ہوتے ہیں۔ پھیپھڑوں کے سرطان کی ایک بڑی وجہ سگریٹ کا دھواں اور دوسری مسلسل سموگ ہے۔ یاد رہے پاکستان میں ایک سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات کی دوسری وجہ نمونیا ہے جو کہ اب آلودگی کی وجہ سے مزید بڑھ سکتی ہے۔

سموگ نہ صرف پھیپھڑوں بلکہ آنکھوں پر بھی اثر کرتی ہے۔ آنکھوں کی سوزش، خارش اور مستقل چبھن سموگ کا تحفہ ہے۔ کچھ لوگوں میں نظر کی خرابی میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ سموگ ناک کی جھلی میں بھی سوزش پیدا کرتی ہے اور سموگ کے دنوں میں اکثر لوگوں کی ناک بہتی رہتی ہے۔ انسانوں کے علاوہ سموگ پودوں اور فصلوں کی پیداوار پر اثر انداز ہوتی ہے کیونکہ گراؤنڈ اوزون پتوں کا رنگ پیلا کرتی ہے اور نارمل فوٹو سنتھسز کے عمل کو روکتی ہے۔

انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت پاکستان اپنے دو دریا انڈیا کو دے چکا۔ باقی کے تین دریا صرف پنجاب اور سندھ کو کسی حد تک سیراب کرتے ہیں۔ ناکافی پانی، بڑھتی آبادی، سیوریج کے پانی کو بغیر ٹریٹمنٹ کیے دریاؤں، نہروں اور سمندر میں پھینکنے سے زیرزمین پانی آلودہ ہوتا جا رہا ہے جو مضر صحت ہے۔ پینے کی صاف پانی کی کمی اور گندا پانی پینے سے معدے اور انتڑیوں کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔

ایک طرف صاف پانی نایاب ہوتا جا رہا ہے تو دوسری طرف سانس لینے کو صاف ہوا اور آکسیجن میسر نہ ہے۔ صحت کی ناکافی سہولیات مل کر ہیلتھ انڈیکس کو بری طرح پچھاڑ رہی ہیں۔ یہ ساری چیزیں مل ملا کر ہماری اکنامکس کا بیڑہ غرق کر رہی ہیں اگرچہ اکانومی ڈوبنے کی اور وجوہات بھی ہیں مگر پلیوشن کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہے۔

آلودگی آسانی سے کنٹرول کی جا سکتی ہے۔ اگر اس کو پیدا کرنے والے عوامل کو نیک نیتی سے روکا جائے۔ پنجاب میں ایک ٹرانسپورٹ کا شعبہ ہے۔ سیکرٹری ٹرانسپورٹ اوپر سے نیچے ہر ضلع میں موجود ہے۔ یہ صرف دھواں دینے والی گاڑیاں پکڑیں اور چالان کریں تو پرانے انجن اوورہال ہونے لگیں گے۔ یہاں ہر سال گاڑیوں کا چیک اپ کیوں نہیں ہوتا جبکہ ساری دنیا میں سالانہ ہر گاڑی کا لیب سے سرٹیفکیٹ لینا پڑتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی گاڑی سڑک پر چل نہیں سکتی۔ ایک ماحولیات کا شعبہ ہے۔ ہر ضلع میں ماحولیات کے افسر بیٹھے ہیں، ان کارخانوں کی چمنیاں ٹھیک سائنسی طریقے پر کیوں نہیں بنواتے۔ زراعت کے افسر گاؤں گاؤں پھرتے ہیں۔ مفت کا ٹی اے بناتے ہیں، کسانوں کو فصلیں جلانے پر کیوں نہیں پکڑتے۔ بہتر کوالٹی کا پٹرول اور ڈیزل کیوں نہیں امپورٹ ہوتا۔

دراصل دفتروں میں بیٹھنے والے اور گرمیوں میں یخ اے سی چلا کر ٹائی کوٹ پہنے باؤ صاحبان فیلڈ میں نکل کر اپنی ذمہ داریاں پوری کریں تو آسانی سے سموگ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ یاد رکھیں لاہور، کراچی اور پنجاب کے شہری روزانہ کی بنیاد پر اپنی زندگی کم کر رہے ہیں۔ روزانہ ایک آدمی تیس سگریٹ کے برابر دھواں اپنے پھیپھڑوں میں انڈیل رہا ہے۔ اور جو اس سموگ میں سگریٹ بھی پیتے ہیں ان کا تو اللہ حافظ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments