پاکستان کی ابتدائی فلموں کے ستارے ملک رحیم خان المعروف سکے دار


 قیام پاکستان کے وقت جہاں حکومت کے اپنے وسائل برائے نام تھے وہیں ہماری فلمی دنیا کا حال بھی اس سے کچھ الگ نہیں تھا۔ 1950 کی دہائی میں فلمی دنیا میں مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔ یاد رہے کہ اسی دہائی میں پاکستانی فلمی صنعت میں سکہ بند لوگوں نے اپنے انفرادی اور اجتماعی کام سے اپنا اپنا سکہ منوا یا۔ ایسا ہی ایک نام جس نے اپنی پہچان فلمی کہانی لکھنے میں کروائی اور اس کے ساتھ ساتھ مکالمہ نگاری، گیت نگاری اور اداکاری میں بھی اپنا سکہ جمایا وہ ملک رحیم خان المعروف سکے دار ہیں۔

حضرت تنویرؔ نقوی سے متعلق ان کی لکھی ہوئی کتاب ’دل کا دیا جلایا‘ میں نے کئی مرتبہ پڑھی۔ اس کو پڑھنے سے ہی میری عقیدت حضرت تنویرؔ نقوی سے ہوئی۔ پھر میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان کے بیٹے شہباز ؔ تنویر نقوی تک جا پہنچا۔ شہباز سے ملاقاتوں میں اکثر سکے دار صاحب کے بیٹوں سے ملاقات کرنے کا کہتا لیکن وہ بیرون ملک تھے۔ پھر ایک روز شہباز نے سکیدار صاحب کے نواسے بلال سے ملاقات کروائی۔ اور پچھلے دنوں سکے دار صاحب کے بڑے بیٹے اسلم جب جرمنی سے لاہور آئے تو میں خاص طور پر ان سے ملنے اپنے احباب کے ساتھ نیاز بیگ بھی گیا۔

سکے دار صاحب کے نواسے بلال سے گفتگو :

” میرا نام بلال ہے۔ میں نے سی اے کیا اس کے بعد ایک بینک میں کام کیا پھر وکالت شروع کر دی۔ میں کریمنل پریکٹس کرنا چاہتا ہوں۔ میری پہچان سکے دار صاحب کی وجہ سے ہے۔ وہ میرے نانا جی تھے اور میں ان ہی کے پاس پلا بڑا۔ جب پاکستان میں فلم انڈسٹری کی ابتدا ہو رہی تھی اور کام کرنے والے بہت کم تھے میرے خیال سے حقیقی کام بھی تب ہی ہوا۔ اس وقت میرے نانا جی نے فلم انڈسٹری میں بہت کام کیا۔ بحیثیت مصنف، مکالمہ نگار، اسکرین پلے رائٹر، ہدایتکار، فلمساز، اداکار، گیت نگار اور فلم سے متعلق دیگر شعبہ جات میں جس حد تک وہ تعاون کر سکتے تھے وہ کیا۔ انہوں نے پاکستانی سنیما کے لئے ہٹ فلمیں بنائیں۔ جیسے“ جبرو ” ( 1956 ) ، گولڈن جوبلی“ ملنگی ” ( 1965 ) ،“ انورا ” ( 1970 ) ،“ اصغرا ” ( 1971 ) ،“ امام دین گوہاویا ” ( 1967 ) وغیرہ۔ ان کی لکھی ہوئی زیادہ تر فلموں کی کہانی برطانوی راج کے ظلم کے خلاف گھومتی تھی“ ۔

نانا جی کی تین کتابیں :

” میں نے نانا جی کے پاس کافی عرصہ گزارا اور بہت کچھ سیکھا۔ گو جتنا سیکھنا چاہیے تھا اتنا نہ سیکھ سکا لیکن آج بھی جو بچپن کی پرانی یادیں اور جو زندگی کی اچھی چیزیں ہیں وہ ان ہی سے منسلک ہیں۔ آپ اسے تربیت بھی کہہ سکتے ہیں۔ جن لوگوں کا ادب سے لگاؤ ہوتا ہے ان کی عزت و تکریم کرنا میں نے نانا جی سے سیکھا ہے۔ یہ میرے لئے ایک بڑی فخر کی بات ہے۔ انہوں نے 3 کتابیں لکھیں :

’ الاپ‘ یہ ان کی پنجابی شاعری کا مجموعہ ہے، ’ہوک‘ جو ان کی کی خود نوشت سوانح عمری ہے اور ’دل کا دیا جلایا‘ جو ان کی تنویرؔ نقوی صاحب کے ساتھ رفاقت کی عکاسی کرتی ہے۔

نانا جی ایک روایت شکن شاعر:

ان کی پنجابی شاعری کا میں اپنی بساط کے مطابق معترف ہوں! طالب علمی کے زمانے میں مجھے جتنا وقت ملا اس کو مد نظر رکھتے ہوئے کتاب کا مطالعہ کیا۔ نانا جی کی پنجابی شاعری مکمل طور پر روایت شکن تھی۔ جس چیز کو لوگ رومانوی کہتے ہیں اس کی انہوں نے ہمیشہ مخالفت کی ہے۔ مثلاً پاکستان میں ساون کے موسم کو رومان سے جوڑا جاتا ہے۔ عوام، خواص اور شاعر کو ساون میں محبوب یاد آتا ہے۔ پھر ہجر اور جدائی بھی ساون ہی سے منسلک ہے۔ لیکن مجھے اپنے نانا جی کی یہ نظم یاد آتی ہے :

ساڈے ویہڑھے وڑھیں نہ ماہیا رت ساون دی آ گئی اے
ایدہر نوں منہ کریں نہ ماہیا رت ساون دی آ گئی اے
ہمسایاں دیاں اوچیاں کندہاں ویڑھا ساڈا چھوٹا اے
اک ٹوٹے بالے دے تھلے بالا ہور کھلوتا اے
اچی نیوی گلی اے ساڈی چکڑ پتلا پتلا اے
پیدل چل کر گھر تک آنا بڑا ای وڈا مسئلہ اے
ایدہر نوں منہ کریں نہ ماہیا رت ساون دی آ گئی اے
کتابی سوچ کی مخالفت:

اسی طرح میں نے بھی پنجاب کی کتابی سوچ کی مخالفت ان ہی سے سیکھی۔ مجھے یاد ہے کہ ہیر رانجھا کے قصے میں کیدو کے کردار کی میرے نانا جی تعریف کرتے تھے۔ شاید ان کو یہ علم تھا کہ زندگی کے کسی مقام پہ جا کے یہ مجھے یاد آئیں گی اور پھر میں ان کا تجزیہ کروں گا! وہ کہتے تھے :۔ ”کیدو چنگا بندہ تے غیرت مند سی“ ۔ میں نے پوچھا وہ کیوں؟ نانا جی نے جواب دیا کہ اس نے رانجھے کو اپنے گھر رکھا۔ کھانا پینا اور نوکری بھی دی۔ پھر وہ گھر کی بیٹی سے عاشقی معشوقی کر نے لگا۔ تو پھر اس پس منظر میں جب کیدو نے رانجھے کی مخالفت کی تو یہ اچھا کام کیا نہ کہ برا؟ تو میں نے سوچا اگر اپنی معاشرتی اقدار اور تہذیب کو رکھ کر یہ سوچا جائے تو ان کی یہ بات کسی حد تک ٹھیک ہے۔ پیار کرنے والوں کا ساتھ دینا چاہیے لیکن میں اور آپ کبھی یہ گوارا نہیں کر سکتے۔ آپ کا کوئی ملازم ایسی حرکت کرے تو ہم بھی اس کو سزا ہی دیں گے ”۔

” اسی طرح ان کی مذہب کے بارے میں رائے بھی بالکل وضع تھی۔ میں نے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جن کا علمی اور ادبی لحاظ سے تو مقام بلند ہوتا ہے لیکن مذہبی گفتگو میں وہ بہت جلد غصہ میں آ کر شدت پسندی اختیار کرتے ہیں۔ میرے نانا جی ان معاملات میں بہت پر سکون رہتے تھے۔ اگر وہ نہ بتاتے کہ ان کا عقیدہ کیا ہے تو کسی کے لئے یہ فیصلہ کرنا شاید ممکن نہ ہو تا۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ اہل تشیع کی مجلس ہے تو وہاں میر انیس و دبیرؔؔ کا ذکر کرتے اور ان کے مشہور مرثیوں کے حوالے دیتے۔ اگر اہل سنت کی مجلس ہے تو میلاد، معراج شریف کی بات کرتے۔ اس زمانے میں ٹھوکر کا علاقہ ہندووں کا تھا وہ اب بھی بھارت سے وہاں آتے رہتے ہیں۔ نانا جی ان کے مذہب کے حساب سے ان کو احساس دلاتے تھے کہ شاید وہ بھی ٹھیک ہیں۔ یہ آج ہم نہیں کرتے! “ ۔

حادثاتی طور پر فلموں میں آنا:

” میرے نانا حادثاتی طور پر پاکستان کی فلمی دنیا میں داخل ہوئے تھے۔ ہماری فلمی صنعت بھی اس وقت پروان نہیں چڑھی تھی۔ فلم“ جبرو ” ( 1956 ) کی تمام ٹیم میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں تھا جس کا فلم کے شعبے سے پہلے با ضابطہ تعلق رہا ہو! غالباً ڈائریکٹر مظفر طاہر صاحب کسی اچھے ڈائریکٹر کو اسسٹ کر چکے تھے۔ سب ٹیم دوستی یاری اور کھیل کھیل میں بن گئی کہ اس وقت ملک میں مثبت تفریح کی کمی ہے۔ موسیقی ماسٹر عاشق حسین نے دی جو نانا جی کے بچپن کے دوست تھے۔

فلمساز فقیر سید صلاح الدین کو کسی تیسرے آدمی کو بلانا پڑا کہ اگر ہم نے فلم بنانی ہے تو ہمیں کیا سامان درکار ہو گا۔ اب تو بہت جدید سامان ہے اس دور میں ٹیپ ریکارڈر، مائک، فلم نیگیٹیو انہوں نے درآمد کیا۔ فلمساز کی کوئی فیکٹری سندھ میں تھی اس نے کہا کہ میرے پاس بجٹ محدود ہے لہٰذا ہم فیکٹری کے قریب ہی مکمل فلم شوٹ کریں گے۔ ہوا بھی یہ ہی اور ساری فلم ادھر ہی مکمل ہوئی۔ میرے نانا جی نے فلم کے لئے کہانی لکھ دی جو کہ ایک لوک داستان یا کہانی تھی۔

اس وقت پنجاب کے دیہات کی ثقافت تھی کہ یہاں داستانیں اور لوک کہانیاں لوگ تفریح کے لئے سنتے سناتے تھے۔ میرے نانا جی نے بھی ایسی کئی ایک لوک کہانیاں سن رکھی ہوں گی پھر اس میں اپنا تڑکا بھی لگایا۔ پھر تمام ٹیم نے ایک جان ہو کر جب کام کیا تو “ جبرو ”ایک شاہکار بن گئی اور پاکستان کے سینماؤں میں بہت پسند کی گئی۔ اسی طرح پھر جب انہوں نے“ جبرو ”لکھی تو عوام نے اسے بھی پسند کیا۔ اس وقت بھارت میں فلم“ مغل اعظم ”( 1960 ) بن رہی تھی جس کے ہدایتکار کے آصف نے تنویرؔ نقوی صاحب کو مذکورہ فلم میں گیت لکھنے کے لئے دعوت دی۔ نقوی صاحب اور میرے نانا جی کا وقت ایک دوسرے کے بغیر نہیں گزرتا تھا۔ لہٰذا وہ بھی نقوی صاحب کے ساتھ ہی بمبئی، بھارت گئے۔ جب وہ واپس آئے تو فلم“ جبرو ”ہٹ ہو چکی تھی۔ اور فلمساز ان کو ڈھونڈ رہے تھے“ ۔

ملک رحیم خان سکے دار بنتے ہیں :

’ سکے بند‘ ان کا تکیہ کلام تھا۔ ہر کسی چیز کی تعریف میں وہ یہ ’سکہ بند‘ ضرور استعمال کرتے تھے کہ فلاں چیز تو بہت ہی سکہ بند ہے۔ تو کسی نے مذاق سے ان کا نام فلم کے کریڈٹ میں رحیم سکہ بند لکھوا یا۔ جو مزید مختصر ہو کر فلمی نام ’سکے دار‘ تجویز ہوا اور پھر یہ ہی نام فلم کے ٹائٹل میں لکھ دیا گیا۔ واپس آ کر وہ سب کو بتاتے رہے کہ میرا نام ملک رحیم خان ہے لیکن فلم چوں کہ ہٹ ہو چکی تھی لہٰذا فلمساز اور ہدایتکار کو ملک رحیم خان کی ضرورت نہیں تھی۔ ان کو سکے دار کی ضرورت تھی! پھر نانا جی نے بھی اپنا یہ ہی نام اپنا لیا۔ اسی سکے دار نام سے تقریباً انہوں نے 100 فلمیں لکھیں ”۔

سچوایشن پر گیت:

” سچوایشن پر گیت لکھنے سے بعض شعرا ء گھبراتے ہیں۔ شاید وہ مشکل بھی ہوتا ہے۔ اب اگر کسی فلم کی کہانی کو گانے کی مدد سے ہی آگے بڑھنا ہے تو میرے نانا جی یہ کام بہ آسانی کر لیتے تھے۔ مثلاً ملنگی“ کی کہانی میں ایک ایسا موڑ آتا ہے جب ملنگی ساہوکار کے گھر پر حملہ کرتا ہے۔ وہاں پولیس کا پہرا ہوتا ہے۔ دو سکھ مزاحیہ کردار ان پولیس والوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کے لئے گانا گاتے ہیں۔ اس گانے میں یہ بھی بتانا مقصود تھا کہ پیچھے کیا ہو رہا ہے۔ اسی طرح فلم ”جبرو“ کی ایک قوالی : ’حق لا اللہ الا اللہ تو سامنے آ کے نہیں دسدا۔ ‘ بھی کہانی کو آگے بڑھاتی ہے ”۔

نانا جی اور بنیے کا کردار:

” فلم“ جبرو ”اور“ ملنگی ”کے بعد فلمسازوں اور ہدایتکاروں کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ ہندو بنئے کا کردار میرے نانا جی سے ہی کروایا جائے۔ وہ ایسا کردار بہت اچھا کرتے تھے۔ وہ یوں کہ نیاز بیگ جہاں ہماری اب بھی رہائش ہے، بنیادی طور پر وہاں بہت سے ہندو خاندان آباد تھے۔ میرے نانا جی کا ان میں بہت زیادہ اٹھنا بیٹھنا تھا۔ ان کی عادات، چال ڈھال، بول چال ان کو اس قدر یاد تھی کہ جب وہ ایسا کردار کرتے تو اصل کا گماں ہوتا۔ انہوں نے“ جبرو ”سمیت بیس پچیس فلموں میں ہندو بنیے کے کردار ادا کیے ہوں گے۔ وہ شرمیلی طبیعت کے تھے انہیں خود اداکاری کرنا زیادہ پسند نہیں تھی لیکن ضرورت کے تحت، فرمائش یا دوستوں کے کہنے سے وہ اداکاری کر لیتے تھے“ ۔

پڑھنے لکھنے کا شوق:

” ان کو شاعری سے بڑا لگاؤ تھا۔ پہلے وہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ ان کے سر پر باپ کا سایہ نہیں تھا شاید پڑھنے کے وسائل و مواقع میسر نہیں ہوں گے۔ وہ مجھے بتاتے تھے کہ جب میں نے اپنی پہلی فلم لکھی اور گاؤں سے باہر لوگوں سے ملنا شروع کیا تو مجھے ایک خوف تھا کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ جس سے آپ لوگ فلم لکھواتے ہیں وہ تو پڑھا لکھا ہی نہیں ہے! پھر انہوں نے خود ہی ادیب فاضل کیا، ایم اے اردو کیا پھر ایم اے انگریزی۔

گو کہ یہ کام اپنی عمر کے لحاظ سے کافی دیر میں شروع کیا۔ انہوں نے انگریزی اور اردو ادب بہت پڑھا۔ جیسے شیلے، ملٹن، غالبؔ وغیرہ۔ ان کو شوق تھا کہ آنے والی نسلوں کو اردو پڑھنے بولنے کا رجحان ہو اور وہ پنجابی کو بھی پیار کریں۔ میں ان کو بچپن سے ہی دیکھ رہا تھا لیکن جب ان کا بغور مشاہدہ کیا تو ان کی عمر کافی زیادہ تھی۔ شاید اس وقت وہ 70 کے پیٹے میں تھے۔ اس وقت جو کوئی بھی ان کے پاس کام کروانے آتا تھا تو اسے نانا جان کے لئے بہت اصرار کرنا پڑتا تھا۔

اگر کوئی فلم لکھوانے یا کسی فلم کے کام کے لئے آتا تو اسے بھی نانا جی کے پیچھے پڑنا پڑتا۔ پھر انہیں عارضہ قلب لاحق تھا اس سلسلے میں وہ علاج کے لئے وقتاً فوقتاً ملک سے باہر بھی جاتے رہے۔ آج بھی بھارت سے ان کے ملنے اور چاہنے والوں کی کوئی ای میل آ جاتی ہے۔ دلیپ کمار، ساحرؔ لدھیانوی اور محمد رفیع سے ان کی بڑی اچھی دوستی تھی۔ اس وقت ہر آرٹسٹ دوسرے کی دل سے عزت و قدر کرتا تھا، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا چلن نہیں تھا۔ کئی ایک لوگ جو مجھ سے رابطے میں ہیں وہ میرے نانا جی کی بہت تعظیم کرتے ہیں۔ اس سے مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک بڑے آرٹسٹ تھے“ ۔

” سکے دار صاحب اپنے گھر اور خاندان والوں کے ساتھ کیسے تھے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” ان کی پہلی برسی کے موقع پر جیو ٹی وی چینل کی ایک ٹیم ہمارے گھر تاثرات لینے آئی۔ اس نے بھی یہ ہی سوال کیا تھا کہ وہ گھر اور خاندان والوں کے ساتھ کیسے تھے؟ انہوں نے میری نانو سے پوچھا تھا۔ نانو نے یہ جواب دیا تھا کہ میرا کوئی بہن بھائی اور ماں باپ، نہیں تھے۔ وہ تعلیم حاصل کرنے کبھی اسکول بھی نہیں گئیں۔ مجھے کبھی شوہر سے کوئی تکلیف نہیں پہنچی اس سے آپ حساب لگا سکتے ہیں کہ وہ ( سکے دار ) کس قسم کے انسان تھے۔ ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ یہ سب باہر مقیم اور بڑے تابعدار ہیں۔ میری نانو نے اس ٹیم کو بتایا کہ میں نے ایک بہترین زندگی گزاری“ ۔

” آج بھی ہماری فیملی میں جب باتیں ہوتی ہیں تو ہمیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ نانا جی ہمارے درمیان موجود نہیں! اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف بڑوں سے نہیں بلکہ خاندان کے ہر ایک فرد سے انفرادی تعلق تھا۔ جو بچہ جس عمر کا ہے اس لحاظ کی بات، کھیل اور گفتگو کر نے کے ماہر تھے۔ اب میں بھی نانا جی کی طرح ’کرنے‘ کی کوشش کرتا ہوں لیکن نہیں کر پاتا۔ انسان کا ایک اپنا مزاج ہوتا ہے لیکن میں نے آج تک کبھی اپنے نانا جی کو خراب موڈ میں نہیں دیکھا۔ یا دوسرے بزرگوں کی طرح کمرے میں لیٹے ہیں۔ میرا جب بھی دل چاہا کہ ان سے ملنا یا ان کے پاس بیٹھنا ہے تو انہوں نے ہمیشہ ہی بڑے اچھے انداز سے خوش ہو کر بات کی۔ بلکہ کئی کئی گھنٹے ہمیں باتیں بتائیں۔ میں نے اپنے نانا جی سے بہتر ایک مکمل شخص جو باپ، شوہر اور دوست بھی ہو، نہیں دیکھا! “ ۔

” ہمارے علاقے میں جب کوئی شخص بیمار ہوتا وہ سب سے پہلے ان کے پاس آتا۔ نانا جی کے پاس ایک دو اؤں کا باکس تھا۔ یہ ہی چھوٹا موٹا کام کر جاتا کیوں کہ اس وقت گاؤں میں کوئی ڈاکٹر نہیں تھا۔ نانا جی پہلے مریض کا خود علاج کرتے تھے اگر افاقہ نہیں ہوتا تو پھر اسپتال لے کر جانا بھی ان ہی ذمہ داری ہوتی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ صرف خاندان والے ہی نہیں بلکہ ہمارے ہمسائے، برادری اور اہل علاقہ بھی ان کو بہت یاد کرتے ہیں“ ۔

۔ ”ہاں البتہ ان کو اپنی تعریف سننے سے بڑا مسئلہ تھا۔ اگر ان کے روبرو کوئی شخص ان کی تعریف کرتا تو نانا جی اس بات اور اس شخص سے بہت چڑتے اور کوشش کرتے کہ میری ایسے شخص سے دو بارہ ملاقات نہ ہو! خاندان سے باہر ان کے حلقہ احباب میں چند مخصوص لوگ تھے جن کے ساتھ ملنا جلنا انہیں پسند تھا۔ اور یہ تمام لوگ بہت ہی منکسر المزاج تھے۔ جیسے ماسٹر عاشق حسین، تنویر نقوی صاحب اور کچھ دوسرے لوگ جن میں انا کا مادہ نہیں تھا۔ انسان کو انسان سمجھتے تھے۔ ایسے ہی لوگوں کے ساتھ میرے نانا جی کی بنتی تھی“ ۔

” انہوں نے اپنے سارے حقوق پورے کیے۔ نانا جی نے اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا اور باہر بھیجا۔ میرے تینوں ماموں باہر ہیں اور اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنی وراثتی زمین کو بھی بچایا جب کہ ان کے ساتھ کے لوگ اپنے حصے کی زمینیں بیچ چکے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی ایک جگہ بھی ایسی رہ گئی ہے جہاں انہوں نے ذمہ داری سے اپنا کردار ادا نہ کیا ہو! “ ۔

نانا جی کا حافظہ:

” ان کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ جب انہوں نے نقوی صاحب والی کتاب ’دل کا دیا جلایا‘ لکھی تو اس میں تنویرؔ نقوی صاحب کا وہ کلام بھی شامل کیا جو کہیں بھی لکھا ہوا موجود نہیں تھا۔ یہ تیس سے چالیس سال تک نانا جی کو زبانی یاد تھا! ایک دن انہوں نے کہا کہ جب میں مر جاؤں گا تو پھر اتنا اچھا کلام تو کوئی کسی کو سنا ہی نہیں سکے گا! پھر انہوں نے اپنی زندگی کے آخری سال میں اس کتاب کو لکھا اور تب تک نانا جی کو نقوی صاحب کا سالوں پرانا کلام زبانی یاد تھا۔ وہ سندھ کے مقام ماتلی پر لکھی گئی بیس بیس صفحات کی نظمیں ہیں۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ میرا کلام ہے بلکہ خود کتاب میں لکھا کہ یہ نقوی صاحب کا کلام ہے۔ اس کلام کو نانا جی ’خفیہ خزانہ‘ کہتے تھے“ ۔

” نانا جی نے اچھی زندگی گزاری۔ خوش خوراک تھے۔ روزانہ صبح سیر کرنا معمول تھا۔ کثرت کرتے اور جوانی میں پہلوانی اور دنگل بھی کیے۔ مجھے ان کی بہت باتیں یاد ہیں۔ ہماری برادری میں لوگ ایک دوسرے کی چیزیں چھینتے اور لڑتے ہیں۔ دشمن داریاں بھی کافی زیادہ ہیں۔ میں ان کی زندگی کے آخری سال ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بزرگ وہاں آ گئے اور کہنے لگے کہ سکے دار! میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جو تیرے باپ کا تھا وہ کچھ کم کر کے تو اپنے بچوں کے لئے چھوڑ کر جا رہا ہے۔ یہ بتا کہ تو خود ان کے لئے کیا چھوڑ کر جا رہا ہے؟ مجھے نانا جی کا جواب آج تک یاد ہے کہ میں اپنے بچوں کے لئے کسی بھی قسم کی کوئی دشمنی چھوڑ کر نہیں جا رہا! “ ۔

کالج میں جھگڑا:

” کالج کے زمانے میں میرا کسی سے کوئی جھگڑا ہو گیا۔ میں نے گھر آ کر کہا کہ ایک لڑکے نے مجھ سے لڑائی کی۔ نانا جی فوراً بولے کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ میں اس کو بیس لاکھ روپے دوں گا جو مجھ سے لڑے! خواہ مخواہ ہی لڑے گا؟ کوئی مجھے گالی بھی دے گا تو میں اس کا جواب دیے بغیر وہاں سے چلا جاؤں گا۔ لہٰذا بیٹے وہ نہیں بلکہ تو اس سے لڑا ہے! وہ بہت سلجھی اور اچھی بات کرتے تھے۔ بچہ بڑا کوئی بھی نانا جی سے سیکھنے آتا وہ ضرور اس کو کچھ سکھا کر ہی بھیجتے تھے۔

روپے پیسے سے بھی ضرورت مندوں کی ایسے مدد کرتے کہ دوسروں کو پتا نہ چلے۔ ان کے انتقال کے بعد ایسے کئی لوگ آئے جنہوں نے بتایا کہ یہ ہمیں وظائف دیتے تھے یا ماہانہ بنیاد پر ہماری کفالت کرتے تھے۔ تو پھر ہم سب نے کوشش کی کہ اس سلسلے کو جاری رکھیں لیکن نہیں کر سکے۔ اب جیسے جیسے میں زندگی کی تلخیوں کو دیکھ رہا ہوں اور پھر نانا جی کے ساتھ ان کا مقابلہ کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ وہ اس معاشرے کے فرد نہیں تھے۔ وہ جس طرح مسائل حل کرتے تھے وہ طریقہ ء کار بالکل ہی اور طرح کا تھا۔

وہ کوئی رسمی یا روایتی طریقہ نہیں تھا۔ وہ مجھے کہتے تھے کہ مرد بننا بڑا مشکل ہے۔ ہمیں ہر روز ثابت کرنا پڑتا ہے کہ میں مرد ہوں! گھر میں اور باہر بھی۔ تو بیٹا اگر مرد بننا ہے تو روز ثابت کرنا ہو گا۔ مجھے آج بھی کوئی مشکل فیصلہ کرنا ہوتا ہے تو میں نانا جی کو سامنے رکھ کر سوچتا ہوں کہ اگر میرے نانا جی اس موقع پر ہوتے تو وہ کیا کرتے؟ اس طرح یہ فیصلہ کرنا میرے لئے آسان ہو جاتا ہے“ ۔

نانا کی بات پر ساحرؔ لدھیانوی کی تائید:

” نانا جی کی یہ حتی الامکان کوشش ہوتی تھی کہ کسی کو بھی دکھ نہ پہنچے خواہ طنز و مزاح میں ہی کیوں نہ ہو! ان کے ساتھ گفتگو میں ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ آپ پانچ منٹ یا تین منٹ ان سے کوئی چٹکلا یا کوئی ہنسی والی بات نہ سن لیں! فلم“ جبرو ”میں ان ہی کا ایک مکالمہ تھا۔ اس فلم میں اداکار طالش نے ایک شاعر کا کردار ادا کیا تھا۔ جبرو اسے کہتا ہے کہ تمہیں یہ حرکتیں چھوڑنا پڑیں گی۔ وہ کہتا ہے کہ میں شاعر ہوں۔ جبرو کہتا ہے کہ تجھے بندہ بننا پڑے گا اس پر وہ کہتا ہے کہ ’شاعر مرتا مر جاتا ہے مگر بندہ نہیں بنتا‘ ۔ اس بات کی

تائید ساحرؔ لدھیانوی نے میرے نانا جی سے بمبئی میں ایک ملاقات میں کی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی یہ بات ’شاعر مرتا مر جاتا ہے مگر بندہ نہیں بنتا‘ تو پتھر پر لکیر ہے۔ میں نے تین چار سو روپے ماہانہ کرایہ پر ایک اچھا مکان لیا جس میں مجھے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن بس ایسے ہی میں نے اتنا اچھا مکان چھوڑ کر ایک برا مکان سات سو روپے مہینہ پر لے لیا جس میں پانی بھی نہیں آتا ”۔

اسلم سکے دار:

میں لاہور میں اپنے دوست افراز علی شاہ بخاری کے دفتر کو اپنا ہی دفتر سمجھتا ہوں! اکثر احباب وہیں پر آ جاتے ہیں۔ اب کی مرتبہ جب میرا لاہور جانا ہوا تو شہبازؔ تنویر نقوی نے خوش خبری سنائی کہ چچا سکے دار کا بیٹا اسلم سکے دار جرمنی سے آیا ہوا ہے۔ اسلم سے ملاقات افراز صاحب کے ہاں ہوئی۔ اس کی خاص خاص باتیں پیش خدمت ہیں :

قصہ فلم ”جبرو“ بننے کا :

” میرے والد سکے دار صاحب ایک زمیندار گھرانے کے فرد تھے۔ ان کے والد بہت ہی نوعمری میں فوت ہو گئے۔ والدہ نے پرورش کی۔ والد صاحب کا کوئی سگا بہن بھائی نہیں تھا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول سے حاصل کی۔ تھوڑا شعور آیا تو والدہ ان کو اندرون لاہور لے گئیں۔ وہاں ان کو مختلف جگہوں پر کام سکھانے کی کوشش کی۔ پھر ایک جگہ ان کو درزی کا کام سکھوا دیا۔ اس کام میں انہوں نے کافی مہارت حاصل کر لی۔ اس طرح ان کے پاس بڑے بڑے فلمی لوگ بھی کپڑے سلوانے آنے لگے۔

جن میں سب سے بڑا نام تنویرؔ نقوی صاحب کا ہے۔ میوزیشن اور میوزک ڈائریکٹر بھی آتے تھے۔ ماسٹر عنایت صاحب بھی تھے۔ پھر ان لوگوں کو دیکھ کر خود ان کو بھی پڑھنے لکھنے اور تعلیم کے ذریعے کچھ بننے کا شوق پیدا ہو گیا۔ پھر انہوں نے وہیں رہ کر منشی فاضل کیا۔ اس کے بعد بھی پڑھائی جاری رکھی۔ اسی دوران ان کو واپس گاؤں آنا پڑا۔ وہاں ان کی زمینیں بھی تھیں ان کی دیکھ بھال بھی ضروری تھی۔ پھر ان کی شادی ہو گئی اور انہوں نے گاؤں، نیاز بیگ میں رہنا شروع کر دیا۔

آج بھی وہاں ان کا خاندان آباد ہے۔ دوستی کی وجہ سے بہت سے فلمی لوگ ان سے گاؤں میں ملنے آتے تھے۔ ان میں تنویرؔ نقوی، ماسٹر عاشق، ماسٹر عنایت، ماسٹر عبد اللہ اور بہت سے دوسرے۔ شاید انہی لوگوں میں سے کسی نے میرے والد صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ پنجابی فلم کے لئے کہانی لکھیں۔ ہمارے گاؤں میں ایک سید نام کا دکاندار تھا اس کے پاس بیٹھ کر وہ روایاتی قصے کہانیاں سنتے تھے۔ ایسا ہی ایک قصہ جبرو نامی ڈاکو کا بھی سنایا گیا جو پتا نہیں کس گاؤں کا تھا۔ والد صاحب کو یہ قصہ پسند آیا اور وہ اس کو

سننے کے ساتھ لکھتے بھی رہے۔ اس کو مکمل کرنے کے بعد تنویرؔ نقوی کی وساطت سے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر سے رابطہ کیا۔ یہ کہانی ان لوگوں کو پسند آئی ”۔

سکے دار بننے کی وجہ تسمیہ :

” یہ پہلی ایسی کہانی ہے جو ڈاکو، سفید کپڑے، گھوڑوں وغیرہ کے حساب سے ایک الگ طرح کی فلم تھی۔ کہانی مکمل ہوئی اور فلم بننی بھی شروع ہو گئی۔ اسی دوران وہ تنویرؔ نقوی کے ساتھ بمبئی چلے گئے۔ ان کی عدم موجودگی میں فلم مکمل ہو گئی اور اس کے کریڈٹ لکھے جانے لگے۔ والد صاحب کا نام ملک رحیم خان وہاں کون یاد رکھتا سب ان کے تکیہ کلام ’سکے بند‘ سے واقف تھے۔ سکے بند کی مناسبت سے اب کریڈٹ میں کہانی نگار کا نام ’سکے دار‘ لکھ دیا گیا۔ تو سکے دار ہونے کی یہ وجہ بنی۔ ہمیں اب نیاز بیگ گاؤں میں سب لوگ سکے دار کے نام سے ہی جانتے ہیں! ویسے ہم کھوکھر برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ میرے پاس دو تین دفعہ جرمنی بھی آئے، پیرس بھی گئے۔ جہاں مجھ سمیت ان کے بچے ہوتے ہیں“ ۔

” پھر فلموں میں ماحول تبدیل ہوا اور بڑھتی عمر میں گاؤں سے لاہور آنا مشکل ہوتا گیا۔ فلموں میں کام کم ہو گیا۔ تب انہوں نے لکھنا لکھانا شروع کر دیا اور تین کتابیں لکھ ڈالیں۔ آخری کتاب جب لکھی تو اس وقت بیماری کا غلبہ تھا۔ میں یہیں ان کے پاس موجود تھا۔ میرا بیٹا رومیص اسلم جو امراض قلب کا ماہر ڈاکٹر ہے، اپنے دادا سے بہت قریب تھا۔ اسے پتا چل گیا کہ اب دادا جان کا زندہ رہنا مشکل ہے لہٰذا وہ فوراً دادا کے پاس لاہور، اسپتال پہنچ گیا۔ دادا جان ابھی بات چیت کرتے تھے وہ ان کی باتیں سننے چلا آیا۔ دادا کے ساتھ اس کا بہت زیادہ پیار تھا۔ میرے والد صاحب کا 2006 میں انتقال ہوا“ ۔

فلم جبرو تین مرتبہ بنتی ہے :

” اللہ نے انہیں بہت سی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ انہوں نے پہلی ہی فلم میں فلم کی کہانی اور مکالمے لکھے اور اداکاری بھی کی۔ جبرو کی کہانی پر تین فلمیں بنیں۔ انہوں نے مجھے خود بتایا کہ فلم“ جبرو ” ( 1956 ) کو دوبارہ گولڈن جوبلی فلم“ ملنگی ” ( 1965 ) کی شکل میں بنایا گیا۔ دونوں میں یہ کردار اداکار اکمل نے کیا۔ اس کے بعد انہوں نے جبرو کو پھر“ جبرو ”( 1977 ) کی شکل میں بنایا۔ اس میں یہ کردار اداکار یوسف خان نے ادا کیا۔ اس فلم میں ان کی لکھی ہوئی بڑی مشہور قوالی بھی ہے :

’ حق لا اللہ الا اللہ تو سامنے آ کے نۂیں دسدا۔ ‘

” گھر میں لکھنے کے دوران ان کے چہرے کے تاثرات بھی بدل جاتے تھے۔ اگر کوئی فلمی شاٹ سوچ رہے ہیں تو وہ ان کے چہرے پر عیاں ہو جاتا تھا۔ پھر وہ اسے لکھ لیتے تھے۔ گاؤں میں وہ کسی سے ملتے نہیں تھے“ ۔

” کیا وہ تنہائی پسند تھے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” نہیں! وہ زیادہ تر وقت لکھتے اور پڑھتے تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ آدمی فلمی تھے لیکن ملنا جلنا اپنے خاندان والوں سے ہی تھا۔ بلا جواز وہ کبھی راتوں کو باہر نہیں رہتے تھے“ ۔

” جب میں جرمنی گیا تو اس وقت گاؤں کے گھروں میں ٹیلی فون ہی نہیں تھے۔ خطوط ہی واحد رابطہ کا ذریعہ تھے۔ کبھی موقع ہوا تو میں اپنے والد کے لکھے ہوئے خطوط دکھاؤں گا۔ میرا دعویٰ ہے کہ اس طرح کے خطوط آپ کو کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملیں گے۔ وہ اپنے خط میں السلام علیکم لکھنا بھی اضافی خیال کرتے تھے“ ۔

” اچھا! “ ۔ میں نے حیرت سے کہا۔

” ان کا خط ایسا ہوتا جیسے وہ میرے سامنے بیٹھ کر باتیں کر رہے ہوں۔ خطوں کے ذریعہ وہ مجھے حوصلہ دیتے۔ انہوں نے کبھی ایسا کوئی خط نہیں لکھا جس میں کسی کے انتقال کی خبر ہو۔ ان کے ہر ایک خط میں پھولوں کی طرح خوشی اور خوشبو ہوتی۔ کبھی ان کے خط سے مایوسی نہیں چھلکی“ ۔

بچپن کا ایک یاد گار واقعہ:

” میڈم نورجہاں اور ان کی بڑی بہن عیدن بائی اکثر ہمارے گھر ساگ وغیرہ کھانے آتیں۔ ان دنوں تو نیاز بیگ بالکل ہی گاؤں تھا۔ آج بھی ایک جانب گاؤں اور دوسری جانب شہر ہے۔ مجھے ایک قصہ ابھی تک یاد ہے کہ میں نے ایک لمبا کرتا پہنا ہوا تھا اور نیچے کچھ نہیں۔ میڈم کہنے لگیں کہ مجھے بھاڑ سے مکئی کے دانے بھنوا کر لا دو ۔ میں چھتوں کو پھلانگتا ہوا گیا اور کرتے کی جھولی میں وہ دانے بھنوا کر لے آیا اور عین میڈم کے آگے کھڑا ہو گیا۔ نیچے سے ننگا۔ ( سب کے قہقہے ) میڈم نے وہ دانے کسی برتن میں ڈالے اور ہنس کر کہا

شا باش! ”۔

” ہمارے گاؤں میں ایک کنواں تھا۔ یہاں سارا سارا دن تنویرؔ نقوی بیٹھ کر لکھتے اور نہاتے تھے۔ ایک قدرتی ماحول تھا۔ میرے والد صاحب نے بھی یہاں بیٹھ کر لکھا ہے۔ تنویرؔ نقوی کے میرے والد صاحب سے بڑھ کر کوئی مداح نہیں تھا۔ ان کے ایک ایک گانے کے بارے میں ہمیں بتاتے تھے کہ یہ کیوں لکھا اس خیال یا لفظ کا کیا معنی ہے! سندھ کے واقعات سناتے۔ نقوی صاحب کے گزر جانے کے بعد میرے والد صاحب ہمیں ان کی باتیں سناتے تھے۔ نقوی صاحب ہمارے ہاں اکثر آتے تھے۔ والد صاحب کا لکھنے کا انداز

دوسروں سے مختلف تھا۔ آپ ان کی پنجابی فلمیں دیکھیں۔ بنیے اور ساہو کار ہمارے گاؤں میں بہت رہتے تھے۔ والد صاحب ان کے بہت قریب رہے اور مشاہدہ کیا۔ اسی لئے فلموں میں یہ کردار ان سے ہی کروایا جاتا ”۔

فلم ملنگی میں اکمل کا لہجہ:

” فلم“ ملنگی ”میں اداکار اکمل نے اپنا لہجہ الگ طرح استعمال کیا۔ ہمارے گاؤں میں ایک شیدا تھا۔ وہ شادیوال گاؤں کی ٹھیٹھ پنجابی بولتا تھا۔ میرے والد صاحب اداکار اکمل کو رشید عرف شیدا کے پاس لے کر گئے اور کہ کہ غور سے اس کو سنو! تمہیں اس طرح بولنا ہے۔ اکمل نے پھر اسی لہجہ میں مکالمے بولے۔ اس کے بعد پھر پنجابی فلموں میں وہ ہی اسٹائل شروع ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے لاہور میں گولڈن جوبلی اور کراچی میں پہلی پنجابی پلاٹینم جوبلی کرنے والی فلم“ انورا ” ( 1970 ) لکھی۔ فلم“ غلام ” ( 1973 ) کی کہانی بھی ان ہی کی لکھی ہوئی ہے“ ۔

” آپ اپنے والد صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فلم نگری میں کیوں نہیں آئے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” ( مسکراتے ہوئے ) میں اس لئے نہیں آیا کہ مجھے کسی وجہ سے یہ ملک چھوڑ کر باہر جانا پڑا۔ ارادہ تو مستقل وہاں رہنے کا نہیں تھا۔ پھر وہاں پر کام شروع کر دیا۔ سوچا کہ جلد واپس چلا جاؤں گا۔ مگر یہ نہیں ہو سکا۔ میرا ایک بھائی پہلے ہی جرمنی میں تھا اور دوسرا بھی باہر“ ۔

” کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کے والد صاحب کو آپ بھائیوں کا فلمی دنیا میں کام کرنا پسند نہیں تھا؟“ ۔
” نہیں ایسا نہیں تھا“ ۔
” وہ آپ سب کے ساتھ کیسے تھے؟ کیا ڈانٹ ڈپٹ والے تھے؟“ ۔

” وہ تو بہت پیار محبت والے تھے۔ ڈانٹ ڈپٹ والے بالکل بھی نہیں تھے! البتہ جب ان کو کوئی چیز نا پسند ہوتی تو وہ خط لکھ کر ہاتھ میں تھما دیتے تھے“ ۔

” بچوں کو بھی؟“ ۔ میں نے حیرت سے سوال کیا۔
” جی ہاں ان کو بھی۔ بچوں کے ساتھ بہت شفیق تھے“ ۔
بغیر دشمنی کے دنیا چھوڑنا:

فلم کی عکس بندی یا گانے کی صدا بندی میں جب کوئی غلطی کرتا یا کوئی گڑ بڑ ہوتی تو ان کا کیا رد عمل ہوتا؟ ”۔

” بہت ٹھنڈے مزاج کے تھے۔ بڑے تحمل سے کام لیتے تھے۔ وہ نیاز بیگ کے واحد شخص تھے جن کی گاؤں میں کسی بھی فرد سے کوئی لڑائی نہیں تھی۔ انہوں نے اپنی سوانح حیات میں کوئی بات بھی نہیں چھپائی۔ ہم بھائیوں کا کوئی جھگڑا ہو گیا اس کا بھی انہوں نے ذکر کیا ہے۔ وہ ہم بھائیوں کے درمیان رنجش اور ناراضگی یا لڑائی سخت نا پسند کرتے۔ اسی گھر میں جہاں اس وقت آپ بیٹھے ہیں مقامی لوگوں نے والد صاحب پر کیس کر دیا کہ یہ زمین ان کی ہے جب کہ ہم نے وہ جگہ قیمتا خرید رکھی تھی۔

کیس والد صاحب کے حق میں ہو گیا۔ والد صاحب نے مکان بنانا شروع کر دیا۔ اب ساتھ والے پڑوسی جنہوں نے والد صاحب پر کیس کیا تھا انہوں نے گلی میں ہمارا دروازہ نہیں بننے دیا حالاں کہ وہاں ہمارا دروازہ بنانا عدالت کے فیصلے کی روشنی میں بنتا تھا۔ والد صاحب نے دروازہ نہیں بنوایا۔ اس سلسلے کوئی پوچھتا تو کہتے کہ میں اپنے بچوں کو وراثت میں کوئی جھگڑا دے کر نہیں جانا چاہتا۔ گاؤں میں رہ کر ان کے دشمن بھی دشمنی نہیں کرتے تھے۔ یہ

حقیقت ہے کہ انہوں نے بغیر کسی دشمنی کے دنیا چھوڑی! ”۔

اس بات پر وہاں موجود افراز بخاری اور حضرت تنویرؔ نقوی کے بیٹے شہباز تنویر نے کہا کہ ہاں سکے دار صاحب نے شاہ صاحب ( حضرت تنویرؔ نقوی) کی مستقل رفاقت سے طبیعت میں عجز و انکساری اور حلم پایا۔ شہباز نے بتایا کہ میں نے سکے دار صاحب کو کبھی بھی غصہ کی حالت میں نہیں دیکھا۔

” سنا ہے کہ بہت سے سماجی اور بہبود کے کام اب آپ کی ذمہ داری بن گئے ہیں۔ یہ کیا کہانی ہے؟“ ۔ میں نے اسلم سکے دار سے سوال کیا۔

” گاؤں والے کسی سڑک، کبھی کسی اسپتال بنوانے کے لئے مجھے آگے کرتے ہیں۔ برادری اور گاؤں میں کسی کا انتقال ہو جائے تو ایسے تمام کاموں میں اب اہل برادری اور اہل علاقہ والد صاحب کی جگہ مجھے کہہ رہے ہیں۔ میں ایک لمبا عرصہ باہر رہا ہوں۔ یہاں کے لوگوں اور سرکاری دفاتر میں کام کرنے کا طریقہ اور جرمن طریقہ کافی مختلف ہے۔ میں واقعی چکرا کر رہ گیا ہوں“ ۔

” آپ کے دیگر بہن بھائیوں نے والد صاحب کا اثر کس کس طرح سے لیا؟“ ۔

” ہمارے کسی بہن بھائی نے والد صاحب کی فیلڈ کا دس فی صد بھی حاصل نہیں کیا۔ ہاں البتہ ان کی شخصیت کا اثر یقینی لیا۔ کچھ لوگ مشرق وسطیٰ یا یورپ صرف پیسہ کمانے جاتے ہیں۔ لیکن میں نے والد صاحب کی جانب سے ملنے والی صلاحیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں کی زندگی کو سیکھا۔ یہ کہ جینا وہاں پہ کیسا ہے! وہ لوگ اپنا وقت کن مثبت کاموں میں گزارتے ہیں؟ ملازمت کیسے کرتے ہیں۔ کپڑے کیسے پہنتے ہیں۔ انسان کا اپنا نظم و ضبط وہاں سے سیکھا! “ ۔

” انہوں نے بیک وقت فلم کے کئی ایک شعبوں میں کام کیا۔ ان کا پسندیدہ شعبہ کون سا تھا؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” وہ کہانی لکھنا تھا۔ انہوں نے اردو فلمیں بھی لکھیں جیسے“ واہ بھئی واہ ” ( 1964 )“ ۔
باتیں بھی بھلا کبھی ختم ہو سکتی ہیں۔ بہرحال مجبوری تھی اور اتنی اچھی نشست ختم کرنا پڑی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments