ماورائے ریاست؟ ایک شکوہ


یوں محسوس ہوتا ہے پاکستانی دنیا میں سب سے زیادہ کنفیوزڈ ذہنی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جدید سادہ سیاسی سائنس کے عام تصورات کی یا تو غلط تشریح کی جاتی ہے یا معصوم عوام کو انہیں الجھانے کے لیے سکھایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، آئیے ”ریاست“ کو لیں، جو کہ سیاسیات کا سب سے عام موضوع ہے۔ ہم ریاست کو دنیا کی نسبت مختلف طریقے سے سمجھتے ہیں، جیسے کہ پاکستانی دانشور، بیوروکریسی، سیاسی اشرافیہ اور یہاں تک کہ صحافی حضرات تک بھی اکثر ریاست کے حوالے سے غلط فہمی کا شکار نظر آتے ہیں۔

کیا آپ نے کبھی نہیں سنا کہ ریاست نے تحریک لبیک کے خلاف سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ یا ریاست نے دہشت گردوں کے حوالے سے اپنا بیانیہ بدل دیا ہے؟ ریاست نے ٹی ٹی پی کے ساتھ معاہدہ کیا ہے؟ یہاں تک کہ تین بار پاکستان کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف نے بھی شکوہ کیا کہ ”پاکستان میں ریاست سے ماورا ایک اور ریاست ہے“ ۔ یہ اور ایسے بہت سے سوالات؟ جہاں لفظ ”ریاست“ اکثر مختلف ریاستی اداروں یعنی پولیس، فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے باہمی متبادل کے طور استعمال کیا جاتا ہے؟

ریاست کے تصور کو سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے بنیادی سوالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جیسے کے ریاست ہے کیا؟ ریاست کے بنیادی اجزاء ترکیبی کیا ہیں؟ اور، ریاست کیسے کام کرتی ہے؟ وغیرہ

آئیے گفتگو کا آغاز ریاست کی بنیادی تعریف کے ساتھ شروع کرتے ہیں۔ ”ایک آبادی جو کسی مخصوص علاقے میں رہائش پذیر ہو، ایک اتھارٹی (حکومت) کے زیر انتظام منظم ہو جو کہ اندرونی اور بیرونی طور پر خودمختار ہو اسے ریاست کہا جاتا ہے“ ۔ جدید دانشوروں نے ”بین الاقوامی شناخت“ کو بھی ریاست کے جزو کے طور پر شامل کیا ہے۔

ریاست کے پاس اپنے کام کی فراہمی کے لیے 3 اہم شاخیں /ستون ہیں۔ جو کہ، ”انتظامیہ“ (حکومت) ، ”مقننہ“ یعنی ”پارلیمنٹ“ اور ”عدلیہ“ ہیں۔ انتظامیہ اپنے معاملات چلانے کے لیے مختلف ماتحت اداروں مثلاً پولیس، انٹیلی جنس سروسز، فوج، مقامی انتظامیہ وغیرہ سے کام لیتی ہے۔

اب ہمیں سب سے اہم سوال یعنی ریاست کیسے چلتی ہے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے؟

ریاست کا بنیادی کام معاشرے کی ”اجتماعی دانش“ کو نافذ العمل کرنا ہوتا ہے۔ ہم ”اجتماعی دانش“ کا اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں؟

جدید دانشوروں کا خیال ہے کہ ”اجتماعی دانش“ کو عوام کے منتخب نمائندے ہی نافذ کر سکتے ہیں۔ جس مقصد کے لیے ہر پانچ سال بعد عام انتخابات ہوتے ہیں۔ عوام اپنی امنگوں کے مطابق قانون بنا کر ”اجتماعی دانش“ نافذ کرنے کے لیے اپنے منتخب اراکین پارلیمنٹ پر اعتماد کرتے ہیں۔ جن کے بنائے قوانین اور پالیسیوں کو حکومت نافذ کرتی ہے۔

حکومت صرف پارلیمنٹ کے نمائندے کے طور پر کام کرتی ہے اسی طرح پارلیمنٹ عوام کی نمائندہ ہے۔ حکومت کو پارلیمنٹ سے اپنے تمام اعمال کی توثیق کی ضرورت ہوتی ہے، بصورت دیگر، وہ نا اہل قرار پاتی ہے۔

اب آتے ہیں غلط فہمی کی طرف۔ ہمیں اکثر کئی جملے سننے کو ملتے ہیں جیسے، حکومت نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا ہے وغیرہ؟ بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم کس کو حکومت تصور کرتے ہیں؟ کیا یہ مذاکرات سرکاری نمائندوں یعنی ”منتخب وزراء“ کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچے ہیں یا ان کی شروعات صرف آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے ہوئی ہے؟ پاکستان میں، یہ ایک کھلا راز ہے کہ ٹی ٹی پی، ٹی ایل پی، دہشت گرد گروہوں وغیرہ کے ساتھ مذاکرات صرف فوج اور سیکورٹی ایجنسیاں ہی کرتی ہیں۔ ان معاہدوں کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جاتا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ ایسے معاہدے کے مسودے کو طلب کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اگر معاہدہ فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان کرتے ہیں تو اسے ریاستی اقدام (معاہدہ) کیونکر کہا جا سکتا ہے؟

کیونکہ فوج، پولیس، آئی ایس آئی وغیرہ ریاست کے ماتحت ادارے ہیں جنہیں کسی صورت ریاست نہیں تصور کیا جا سکتا۔ یہ محض ریاستی ادارے ہیں نہ کہ ریاست۔ ان اداروں کی طرف سے کیے گئے کسی بھی فیصلے یا کسی معاہدے کو وہ تقدس حاصل نہیں ہو سکتا جو کہ حکومت نے پارلیمنٹ کی منظوری سے کیا ہو۔ اس طرح کے استدلال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریاست صرف حکومت کے ذریعے اپنا ارادہ (اعمال) ظاہر کرتی ہے۔ مزید برآں، حکومت کے علاوہ جو بھی فیصلے کیے جاتے ہیں، وہ بالآخر جمہوریت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یوں ریاست لوگوں کے دلوں میں اپنی عزت کھوتی جاتی ہے۔ نتیجتاً اس کے اجزاء (اکائیاں یعنی صوبے ) خود کو اس سے الگ کر لیتے ہیں۔ یہ عمل بالآخر ریاست کے خاتمے پر منتج ہوتا ہے۔ بنگال (مشرقی پاکستان) اسی کی مثال ہے۔

ہمارے طرز عمل نے دنیا میں ہماری ریاست کا امیج (تصور) بری طرح مسخ کر رکھ دیا ہے۔ اس طرح کی بگاڑ ہمارے مستقبل کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن رہی ہے۔

بدقسمتی سے دنیا بھی پاکستان کے ساتھ ایک دہرا طرز عمل روا رکھے ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر، بین الاقوامی حکومتی شخصیات، پاکستان کی ریاست (حکومت) کے ساتھ برائے راست بات چیت میں شامل ہونے کے بجائے، تمام مذاکرات کے لیے آرمی چیف کو ترجیحی دیتی ہیں۔ ذرہ حالیہ تاریخ پر نظر تو ڈالیں۔ سعودی ولی عہد، امریکی حکام، افغانستان سے امریکی انخلاء کی حتمی شکل اور اس انخلا کے لیے فوج کی حمایت، افغان حکومت کی حمایت، سی پیک پر چینیوں کے ساتھ معاملات وغیرہ؟ ان تمام معاملات پر بین الاقوامی دنیا نے پاکستانی افواج کے سربراہ (آرمی چیف) سے مذاکرات کو ترجیحی دینا پسند کیا ہے۔ حتی کی ملک کے اندر تاجر برادری بھی آرمی چیف سے معاشی استحکام کے لیے کچھ ضمانتیں مانگتی پھر رہی ہے۔ ایسی فہرست اور نہ ختم ہونے والے سوالات۔

ان واقعات کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا گیا یا نہیں؟ کیا ان پر بحث اور منظوری حاصل کی گئی؟ کیا عوام ایسے معاہدات کو عزت دینے کے پابند ہیں جن میں ”اجتماعی دانش“ شامل نہیں؟

یہ واقعات کیا بتا رہے ہیں؟ پاکستان میں اصل ریاست کون ہے؟

کوئی بھی ادارہ ٹوٹ سکتا ہے لیکن ریاست قائم رہتی ہے۔ ایک ریاست کو مضبوط، پائیدار اور ناگزیر رکھنے کے لیے ریاست کو پہلے ان تصورات کی تشکیل نو اور پھر از سر نو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے جو دنیا کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔

عوام کے دلوں میں صرف ریاست کا احترام ہو سکتا ہے۔ ان کی مختلف محکموں / اداروں سے کچھ جذباتی وابستگی ہو سکتی ہے۔ حتیٰ کہ بسا اوقات عوام مختلف اداروں کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے تک دریغ نہیں کرتے، لیکن واحد قوت جو انھیں کسی رشتے میں باندھ سکتی ہے وہ ریاست ہے، نہ کہ کوئی بھی ادارہ۔

اس غلط فہمی سے بچنے کے لیے ملک بھر میں ایک تعمیری بحث کی حوصلہ افزائی کی اشد ضرورت ہے۔ اس طرح کے غلط تصورات کے ازالے کے لیے جدید سیاسی علماء (دانشوروں ) کو بحث و مباحث جیسے اقدامات شروع کرنے ہوں گے ۔ سول حکام بالخصوص حکومت کو چاہیے کہ وہ اس کی غصب شدہ طاقت کو بحال کرتے ہوئے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دے۔ مزید برآں، حکومت کو اپنی رٹ (عملداری) مستحکم رکھنے کے لیے صرف ”اجتماعی دانش“ پر مبنی اقدامات کا احترام کرتے ہوئے اپنی اتھارٹی کو بحال کرنا چاہیے۔ صرف ایسے فیصلے جنہیں پارلیمنٹ توثیق حاصل ہو۔ تبی حکومت عوام کی ”اجتماعی دانش“ کی صحیح معنوں میں نمائندگی کی حقدار کہلا سکتی ہے۔

مصنف اونٹاریو بار کینیڈا میں بار ایٹ لاء کا طالب علم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments