کچھ خار کم تو کر گے گزرے جدھر سے ہم



کیا دیا ہے ہمیں اس ادارے نے؟ کیا احسان کیا ہے؟ کیا رکھا ہے اس ملک میں؟ سوائے بھوک افلاس اور غربت و بے روزگاری کے۔

یہ ہیں وہ چند حوصلہ شکن سوالات اور شبہات جن کا اظہار آج کل ہمارے نوجوان بہت کثرت سے کرتے ہیں۔

تو آئیں آج ہم بات کا آغاز کرتے ہیں اپنے تعلیمی اداروں سے کہ وہ اس قوم، اس ملک اور اس دنیا سے ہمارا تعارف کرواتے ہیں۔ یہاں ہمارا واسطہ ان عظیم لوگوں سے پڑتا ہے جو ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہمیں چلنا سکھاتے ہیں۔ اور ہم زندگی میں کامیابیوں کی منازل طے کرتے ہوئے ان کے نام ہی نہیں چہرے اور خدمات بھی فراموش کر دیتے ہیں۔ جن کا ہماری کامیابیوں میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔

جی ہم بات کر رہے ہیں اپنے ان سکول کے اساتذہ کی جنہوں نے ہاتھ پکڑ کر ہمیں اس دنیا سے روشناس کرایا۔ جنہوں نے ہاتھ پکڑ کر لکھنا سکھایا۔ جو ہماری کامیابیوں کا سنگ بنیاد ہیں۔ لیکن کبھی سوچیں کہ ہم نے ان کی ان خدمات کا کیا صلہ دیا۔

آپ سوال کریں گے انہوں نے ہمیں کیا دیا؟ اور جو کچھ انہوں نے کیا وہ ان کی مجبوری یا نوکری تھی جس کے بدلے ان کو معاوضہ ملتا رہا؟ ایک لمحے کے لیے ضرور سوچیں کہ کیا آپ ایک مختصر معاوضے کے بدلے اپنی ساری دولت کسی دوسرے کو دے دیں گے؟ اور صرف دولت نہیں قیمتی وقت اور توانائیاں بھی۔

اگر جواب نفی میں ہے تو پھر اپنے ان اساتذہ کی عظمت کو تسلیم کر لیں اور اپنی کامیابیوں میں ان کو حصہ دار بنائیں۔ ان کو نہ تو آپ کی دولت کی ضرورت ہے نہ آپ کی کسی ہمدردی اور احسان کی۔ لیکن یاد رکھیں آپ کو ان کی دعاؤں کی اشد ضرورت ہے۔

تو پھر سوچیں کہ آپ ان کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

اس کے لیے ہم سب اپنے سکولوں میں واپس جائیں اور اپنے اساتذہ سے رابطہ کریں۔ ان کی خیریت دریافت کریں۔ اپنی کامیابیوں میں ان کو شریک کریں۔ آج جب آپ اپنی کسی کامیابی کا سرٹیفیکیٹ وصول کریں تو اپنی اس کامیابی کو اپنے ان اساتذہ کے نام کریں اور ان کو یہ احساس دلائیں کہ آج آپ جو کچھ ہیں وہ صرف ان کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ اور یقین کریں اس لمحے ان کے چہروں پہ آنے والی خوشی اور دل سے نکلی دعا آپ کو یقیناً کامیابی سے ہمکنار کر دے گی۔

دوسرا شکوہ جو ہمیں اپنے سکولز سے رہتا ہے وہ یہ کہ ادارے کا معیار وہ نہیں رہا جو ہمارے دور میں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت ادارے کو آپ جیسے مخلص اور وفادار لوگوں کی ضرورت ہے جو اس کے لیے بے لوث خدمت کر سکیں۔ چونکہ ہم اپنے ادارے کی گزشتہ خدمات اور اصول و ضوابط سے آگاہ ہیں تو ہم وہاں جاکر غلطی اور نقص کا ادراک بخوبی کر سکتے ہیں۔ اور آپ کی یہ خدمت نہ صرف ادارے کا معیار بلند کرے گی بلکہ آپ کی زندگی میں بھی حیران کن تبدیلی لے آئے گی۔

ہماری اگلی منزل کالجز ہوتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں آپ زندگی کا بہترین وقت گزارتے ہیں۔ جہاں آپ کو تھوڑی سی آزادی کے ساتھ اپنی مرضی سے سے معاملات کو نمٹانے کا اختیار دے دیا جاتا ہے۔ جہاں آپ کو بغیر سہارے کے جینا سکھایا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں پھر بھی شکایت ہوتی ہے کالج والوں نے ہمارے لیے کیا کیا۔

ہم ان ساری باتوں کو مان بھی لیں تو ہمارا اگلا سوال یہ ہو گا ہم کیا کر سکتے ہیں؟ تو ساتھیو! ہم ان کی مالی معاونت نہیں کر سکتے۔ ہم ان کی مشکلات کو دور نہیں کر سکتے۔ ہم نظام تعلیم نہیں بدل سکتے لیکن یاد رکھیں ہم معیار تعلیم بدل سکتے ہیں۔ ہم کالج کا معیار بلند کر سکتے ہیں۔ ہم اس کے قواعد و ضوابط کی پابندی کر کے، شجر کاری کر کے اور صفائی ستھرائی کا خیال کر کے اس کو شہر کا بہترین کالج بنا سکتے ہیں۔

ہمارے نظام تعلیم کے مطابق ہماری آخر تعلیمی منزل یونیورسٹی ہے۔ جہاں سے فراغت کے بعد ہم نے عملی زندگی میں قدم رکھنا ہوتا ہے۔ تو جب ہم عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو ایک وعدہ خود سے ضرور کریں کہ ان اداروں میں کام کرنے والے ان عظیم لوگوں کو نہ بھولیں جن کی محنت کے بغیر آپ کچھ نہیں تھے۔

زندگی کے اگلے دور میں ہمیں اپنے اداروں سے حکومت سے اور حفاظتی اداروں سے بے پناہ شکایات ہوتی ہیں۔

سب سے پہلے بات کرتے ہیں اپنے حفاظتی اداروں کی۔ ہماری فوج دنیا کی بہترین فوجوں میں شمار ہوتی ہے۔ ملک میں کئی سال فوجی حکومت ہونے کے باوجود ہم اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں اور اس پر اعتماد کرتے ہیں۔

لیکن ہمارا سب سے زیادہ واسطہ پولیس سے پڑتا ہے۔ اور ان محافظوں سے ہمیں کرپشن کے علاوہ بھی بہت شکایات ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ پولیس اور پبلک میں فاصلے پیدا کرنے میں جتنا ہاتھ پولیس کے محکمے کا ہے اتنا ہی ہاتھ ہماری پبلک کا بھی ہے۔ ہم سب میں سے کسی نے ایک لمحے کے لیے بھی سوچا کہ ہر تہوار پر جب ہم سب اپنے گھر والوں اور عزیزوں کے ساتھ خوشیاں منانے میں مصروف ہوتے ہیں تو یہی محافظ موسم کی شدت کا احساس کیے بغیر صرف ہماری خوشیوں کی حفاظت کے لیے اپنی خوشیاں قربان کر دیتے ہیں۔ عید پر جب ہر شخص عید کی نماز کی تیاری میں مصروف ہوتا ہے تو یہ ہماری حفاظت کے سامان کر رہے ہوتے ہیں۔

ہم ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتے لیکن یہ تو کر سکتے ہیں نا کہ عید نماز کے بعد چالان اور تفتیش کے ڈر سے دوسرے راستے سے جانے کے بجائے ایک منٹ کے لیے رک کر ان محافظوں کو گلے لگا کر عید کی مبارک باد دے دیں اور ان کی خدمات کا شکریہ ادا کر لیں۔ اگر آپ اس محکمے سے وابستہ ہیں تو سوچیں اس ادارے سے وابستہ ہونے سے پہلے آپ کو پولیس سے کیا شکایات تھیں۔ اور پھر کوشش کریں کہ اس ادارے سے یا اپنے اردگرد سے یا کم از کم ذاتی طور پر ان شکایات کا ازالہ کریں۔

ہماری پبلک کو سب سے زیادہ شکایات حکومت سے ہوتی ہیں۔ حکومت نے یہ کیا۔ حکومت نے وہ کیا۔ بجٹ صحیح نہیں تھا۔ یہ فیصلہ درست نہیں تھا۔ حکومت نے پبلک کے لیے کچھ نہیں کیا اور اس طرح کی ہزاروں شکایات۔

لیکن ہم نے حکومت کے ساتھ کیا کیا اس بات پر کبھی کسی نے غور کیا۔ حکومت کو بدعنوان کہا اور خود؟ ہمیں جب موقع ملا ہم سب نے کرپشن کی۔ ریڑھی والے سے لے کر اعلی افسران تک جس کو جب اور جتنا موقع ملا اس نے اتنی ہی کرپشن کی۔

حکومت نے ملکی آئین کی پاسداری نہیں کی۔ تو سوچیں ہم کتنے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔ ہم میں سے جس کو جب موقع ملتا ہے قانون توڑتے ہیں پھر چاہے وہ ٹریفک کے ہوں یا اداروں کے، مذہب کے ہوں یا ملک کے۔ اور پھر ان سب سے بڑھ کر اس کام کو اپنا کارنامہ سمجھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔

سو اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ یہ قدرت کا اصول ہے
”جیسے تمہارے اعمال ہوں گے ویسے تم پر حکمران ہوں گے۔“

ہمیں اس ملک سے شکایت ہے کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ملک صرف زمین کا ایک ٹکڑا ہے۔ ملک کو اچھا یا برا اس کے مکین بناتے ہیں۔

ایک بات ضرور یاد رکھیں کہ ملک کو آپ کی ضرورت نہیں ہے آپ کے ہونے یا نہ ہونے سے ملک پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں آپ کی پہچان یہی ملک ہے۔ اور آپ اپنی عادات، طور اطوار اور چال چلن بدل سکتے ہیں پہچان نہیں۔

آخر میں ہم سب کے ذہنوں میں یہی بات ہو گی کہ یہ سب ہم اکیلے کیسے کر سکتے ہیں۔ ہم یہ نظام نہیں بدل سکتے۔ تو اس کے لیے عبدالستار ایدھی کو سامنے رکھیں۔ وہ اس بات کی عمدہ مثال ہیں۔ ہم اکیلے یہ نظام نہیں بدل سکتے لیکن بارش کا پہلا قطرہ ضرور بن سکتے ہیں۔ اور پھر ہم اس بات کے دعویدار بن سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments