امراء کی جائیدادوں پر ٹیکس لگانے کا نیا آئیڈیا


ہسٹری کی کتابیں پڑھیں تو انسانی معاشروں کے بعض قدیم ترین مسائل بھی پرانے نہیں لگتے بلکہ یوں لگتا ہے کہ یہ سب کچھ آج کل کی دنیا کے بارے میں بہت پہلے لکھا گیا ہے۔ انہی مسائل میں سے ایک امیر اور غریب طبقے کے درمیان معاشی فرق کو کم کرنا ہے۔ یہ ایک ایسا ایشو ہے جس پر ہر معاشرے، ہر تہذیب اور ہر دور میں بات کی گئی ہے۔ مثلاً چارسو برس قبل مسیح میں یونان کے شہر ایتھنز کے قوانین میں امیر لوگوں پر سیلف اسیسمنٹ کے ذریعے ویلتھ ٹیکس کا تصور موجود تھا جسے ”ایسفوراً کہا جاتا تھا۔

ایسفوراً ایک ایسا عمومی لفظ تھا جس کا مطلب یونان کی ریاستوں میں مشترکہ عوامی کاموں کے لیے امیر لوگوں کی پراپرٹی پر ٹیکس لگانا تھا۔ پرانے یونان کے وہ امیر لوگ جو اس ٹیکس کے دائرے میں آتے انہیں ایک گروپ کے تحت ظاہر کیا جاتا۔ اس گروپ کو“ سیموریا ”کہا جاتا۔ سیموریا میں شامل افراد پر ان کی پراپرٹی کے اعتبار سے مختلف فارمولوں کے تحت ٹیکس وصول کیے جاتے۔ اس ٹیکس سے حاصل شدہ رقم عوامی مفاد کے کاموں میں استعمال ہوتی۔

معاشرے کے امیر طبقے پر ویلتھ ٹیکس کا تصور مختلف صورتوں میں تقریباً سب معاشروں میں آگے بڑھتا رہا۔ مختصراً اگر جدید دور کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یورپ کے ممالک مثلاً آئس لینڈ میں امیر شہریوں سے 2006 ء میں بھی ویلتھ ٹیکس وصول کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد آئس لینڈ نے ویلتھ ٹیکس کی ایک نئی صورت 2010 ء میں متعارف کروائی جس کے تحت امیر شہریوں پر چار سال کے لیے عارضی ویلتھ ٹیکس نافذ کیا جاتا۔ ڈنمارک میں بھی 1997 ء تک مختلف فارمولے کے تحت گھروں اور دیگر جائیدادوں پر امیر طبقے سے ویلتھ ٹیکس وصول کیا جاتا۔

اس کے علاوہ امیر ملکوں کی ایک تنظیم او ای سی ڈی یعنی آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ کے تقریباً ایک درجن رکن ممالک میں ان کے امیر شہریوں سے 1990 ء کی دہائی تک ویلتھ ٹیکس وصول کیا جاتا تھا۔ ان درجن بھر ممالک میں سب سے زیادہ ٹیکس کی شرح ڈنمارک میں تھی جو کہ تقریباً 2.2 فیصد کے برابر وصول کی جاتی جو کہ ٹیکس کی ایک بڑی شرح تھی۔ بعد ازاں ڈنمارک نے یہ ٹیکس ختم کر دیا۔ اس کے بعد کچھ دیگر یورپین ممالک نے بھی ویلتھ ٹیکس ختم کرنے کے اقدامات کیے جن میں جرمنی 1997 ء، فن لینڈ 2006 ء، لکسمبرگ 2006 ء اور سویڈن 2007 ء وغیرہ شامل ہیں۔

ان کے علاوہ پرانے یورپ کے برطانیہ اور بعض ممالک میں وہاں کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے پراپرٹی کو کسی بھی فرد کا مرکزی سرمایہ تصور کر کے مختلف ناموں سے ٹیکس عائد کیے گئے جن میں ونڈو ٹیکس 1696 ء، کونسل ٹیکس، میونسپل پراپرٹی ٹیکس اور مینشن ٹیکس وغیرہ شامل ہیں۔ ویلتھ ٹیکس کی حمایت میں سب سے چونکا دینے والی مثال 2020 ء کے امریکی صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران سامنے آئی جب صدارتی دوڑ میں شامل ڈیموکریٹک امیدوار برنی سینڈرز اور الزبتھ وارن نے ویلتھ ٹیکس کے حق میں بھرپور کمپین چلائی۔

امریکہ میں فروری 2020 ء میں ایک سروے کیا گیا جس کے مطابق 67 فیصد رجسٹرڈ امریکی ووٹروں نے ویلتھ ٹیکس کی حمایت کی تاکہ امیر ترین لوگوں سے دولت نکلوا کر معاشی طبقاتی فرق کو کم کیا جا سکے جن میں 85 فیصد ڈیموکریٹس، 66 فیصد آزاد اور 47 فیصد ری پبلکن رجسٹرڈ ووٹرز شامل تھے۔ پاکستان کے ممتاز ماہر فائنانس اور معاشیات قانت خلیل اللہ جو کہ جماعت اسلامی کے رہنما خرم جاہ مراد کے صاحبزادے ہیں نے بھی امیر طبقے کی جائیدادوں پر ویلتھ ٹیکس کی صورت میں زکوٰۃ اکٹھی کرنے کا نیا آئیڈیا پیش کیا ہے جسے ملک کے غریب طبقے میں تقسیم کر کے امیر اور غریب کے فرق کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

قانت خلیل اللہ کے تجویز کردہ فارمولے کے تحت اکٹھی ہونے والی رقم حیران کن حد تک بہت زیادہ ہے۔ وہ اپنے فارمولے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ہر سال سالانہ بجٹ میں نئے ٹیکسوں کا نفاذ، پرانے ٹیکسوں کا خاتمہ اور ٹیکسوں کی شرحوں میں تبدیلی وغیرہ دیکھتے ہیں۔ اگر ان کی جگہ دولت و جائیداد کی مختلف اقسام پر ڈھائی فیصد زکوٰۃ (جسے ویلتھ ٹیکس کا متبادل نام بھی دیا جاسکتا ہے ) لگائی جائے تو تقریباً 2500 ارب روپے سے زیادہ رقم حاصل ہوگی جس سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے 7 سے 8 کروڑ پاکستانیوں کو فی خاندان ہر سال لاکھوں روپے امدادی رقم دی جا سکتی ہے۔

پاکستان کی مجموعی زرعی اور دیگر پیداوار تقریباً 47000 ارب روپے ہے جس پر 5 فیصد عشر (زکوٰۃ کی وہ قسم جو پیداوار پہ ادا کی جاتی ہے ) لگانے سے 2350 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ مذکورہ عشر کا نظام پیچیدہ قسم کے جی ایس ٹی، وی اے ٹی نظام کے مقابلے میں کہیں زیادہ آسان ہے اور اس میں ان پٹ ٹیکس کی ایڈجسٹمنٹ کا کوئی پیچیدہ میکنزم بھی نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ عشر و زکوٰۃ کا نظام غریب طبقے کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہوتا ہے۔

اس طرح یہ بالواسطہ ٹیکس یعنی جی ایس ٹی جو غریبوں کے لیے ایک برا ٹیکس سمجھا جاتا ہے کی طرح مہنگائی پیدا کرنے کے بجائے غریب طبقے کی بنیادی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ پالیسی سود کی شرح دوسرے ممالک کی طرح صفر فیصد یا اس سے قریب تر مقرر کرنے کے نتیجے میں حکومت کے قرضوں کی لاگت میں سے ہر سال تقریباً 2000 ارب روپے بچائے جا سکتے ہیں جو گورنمنٹ کی ٹیکس وصولی کا ایک تہائی سے زیادہ ہے۔ یہ خطیر رقم ملک کے دوسرے تعمیراتی کاموں میں خرچ ہو سکتی ہے۔

ہمارے ملک میں تقریباً 7 سے 8 کروڑ افراد غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور جب تک یہ لوگ معاشی سرگرمی میں حصہ نہیں لے پاتے، پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔ ان لوگوں کو اور ان کے بچوں کو تعلیم اور صحت کی سہولیات اور اپنی خراب حالت کو بہتر بنانے کا کوئی موقع نہیں ملتا۔ اس لیے یہ لوگ ایک انتہائی مشکل اور غیرانسانی زندگی گزارتے چلے آ رہے ہیں۔ لہٰذا سب سے اہم اور بنیادی مسئلے کا حل شفاف اور جامع انداز میں ریاستی سطح پر زکوٰۃ یا ویلتھ ٹیکس کا نفاذ ہے جس کے نتیجے میں دولت مند لوگوں سے ان کی دولت کا ایک طے شدہ حصہ غریب اور نادار افراد کی بنیادی ضروریات کے لیے ریاست کو لازمی طور پر لینا چاہیے خواہ اسے ویلتھ ٹیکس کا نام ہی کیوں نہ دے دیا جائے۔

اگر یہ ایک زبردست عوامی مطالبہ بن جائے تو اس کا بھرپور نفاذ ممکن ہو سکتا ہے۔ قانت خلیل اللہ کا مندرجہ بالا فارمولا وزیراعظم عمران خان کے ریاست مدینہ کے نظریے کو عملی جامہ پہنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ بیشک امیر طبقہ اپنے اوپر لگائے جانے والے ہر جائز ٹیکس کو اپنی طاقتور لابی کے ذریعے مسترد کر دیتا ہے لیکن اگر قانت خلیل اللہ کے آئیڈیے کو عوامی پذیرائی مل جائے تو جہاں امیر طبقے کو پسپا ہونا پڑے گا وہیں ان سے زکوٰۃ یا ویلتھ ٹیکس کی صورت میں حاصل شدہ رقم سے پاکستان سے غربت کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments