انسان اشرف المخلوقات ہے اور یہ شرف اس کو علم کی بناء پر حاصل ہوا ہے۔ اسلام میں حکم دیا گیا کہ طلب العلم فریضة علی کل مسلم
علم کی طلب ہر مسلمان ( مردو عورت) پر فرض ہے۔

یوں تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے۔ ایک جانب ہمارے ملک میں آبادی کا ایک بڑا حصہ اس حق سے محروم ہے تو دوسری طرف اس شعبے سے وابستہ افراد کا استحصال جاری ہے۔ استاد قوم کی بنیاد رکھتا ہے اگر وہ ہی ظلم و جبر کا شکار ہو تو خود اندازہ لگائیے کہ قوم میں نفرت، غصہ، بدانتظامی اور انتہا پسندی نہیں پھیلے گی تو اور کیا ہو گا؟ ہمارے یہاں استاد کی حیثیت محض ایک مزارع کی ہے جس کا کام مالک کا حکم بجا لانا ہے اور اداروں کے مالکوں کے ساتھ ساتھ طلباء اور ان کے والدین کو خوش رکھنا ہے۔ ایسا استاد کیسے اپنے بچوں کو محبت و ہمدردی کا درس دے گا۔

استاد جس کے مضبوط کندھوں کا سہارے ادارے تشکیل دیے جاتے ہیں معاشی لحاظ سے سب سے زیادہ پسماندگی کا شکار ہے۔ ڈاکٹر، انجینئر، فوج یا کسی بھی دوسرے ادارے سے وابستہ افسر اپنے اساتذہ کے مقابلے میں دس گنا زیادہ کماتے ہیں۔ خاص طور پر نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کا بری طرح معاشی استحصال کیا جاتا ہے کہ کام زیادہ بلکہ بہت زیادہ اور تنخواہیں برائے نام۔ ایسے میں کیوں کر ایک استاد اپنے طلباء کو کتابوں سے محبت سکھائے گا۔ وہ کیسے طلبہ کو مزید اس شعبے کی طرف راغب کرے گا اور کیوں؟

سیکورٹی کے نام پر تنخواہوں سے کٹوتی اور پھر ملازمت چھوڑ دینے پر مختلف حیلے بہانے بنا کر وہ واپس نہیں دی جاتی یا پھر اس قدر معاملات کو طول دیا جاتا ہے کہ لینے والا خود عاجز آ جائے۔ استاد چاہے بیمار ہو یا مردہ اس کو ہر حالت میں اپنی ڈیوٹی نبھانی ہے بصورت دیگر تنخواہ روک لی جاتی ہے یا کاٹ لی جاتی ہے۔ گویا استاد کی حیثیت ایک دیہاڑی دار مزدور کی سی ہوگی ہے۔

ہمارے تعلیمی اداروں خاص طور پر نجی تعلیمی اداروں میں ظلم کی انتہا یہ استاد کا کام صرف تعلیم و تربیت ہے لیکن یہاں پڑھانے کے علاوہ بھی سارے کام اساتذہ سے ہی لیے جاتے ہیں۔ مثلاً بریک کے دوران وہ آیا بھی ہے اور چھٹی کے وقت چوکیدار اور سیکورٹی گارڈ بھی۔ ادارے کے سارے انتظامی معاملات بھی استاد کی ذمہ داری ہیں۔ ادارے کے لیے بچے اکٹھے کرنے ہوں، گھر گھر جا کر داخلوں کے پمفلٹ تقسیم کرنے ہوں یا بچوں سے فیسیں لینی ہوں یہ کردار بھی اساتذہ ہی ادا کرتے ہیں۔

یہ وہ اضافی ذمہ داریاں ہیں جن کے لیے لازمی طور پر اداروں کے مالکان کو اضافی اجرت دینی چاہیے لیکن نہیں دیتے۔ طلبہ کو اعزازی لیکچر دینا بھی اسی استاد کا فرض ہے اور اگر پھر بھی بچے اپنی نا اہلی اور لاپرواہی کے سبب فیل ہوجائیں تو قصور ہمیشہ استاد کا ہوتا ہے کہ وہ ایک اچھا استاد ثابت نہیں ہوا اور یوں اس کو نوکری سے ہی فارغ کر دیا جاتا ہے۔

اساتذہ پر کام کا اس قدر بوجھ ڈالا جاتا ہے کہ اس کی شخصی خوبیاں دب جاتی ہیں۔ کاموں میں اس قدر الجھا دیا جاتا ہے کہ وہ طلبہ پر کوشش کے باوجود بھرپور توجہ نہیں دے پاتے۔ ہمارے یہاں تعلیمی معیار کے پست ہونے کا ذمہ دار اساتذہ کو ٹھہرایا جاتا ہے لیکن جہاں استاد کو فیل کرنے یا سخت مارکنگ کرنے کا اختیار ہی حاصل نہ ہو وہاں استاد کیسے تعلیمی معیار قائم کر سکتا ہے۔

ایک انتہائی بڑا ظلم یا زیادتی جو تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے ساتھ کی جاتی ہے وہ یہ کہ انتہائی ناکام اور نا اہل شخص کو بطور ایڈمنسٹریٹر یا کوآرڈینیٹر کے طور پر بٹھا دیا جاتا ہے جو خود کو کسی حکمران سے کم نہیں سمجھتا اور استاد اس کی بات ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

نجی تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کے سروں پہ لٹکتی ایک تلوار ان کی نوکری کے حوالے سے ان سیکورٹی ہے جو ان کو ہر جائز اور ناجائز بات ماننے پر مجبور کر دیتی ہے۔ وہ یہ کہ اداروں کے مالکان کا جب دل چاہے وہ بغیر کسی جواز یا جائز اور ناجائز وجوہات کی بنا پر اساتذہ کو نوکری سے نکال دیتے ہیں یا پھر اس طرح کے حالات پیدا کر دیے جاتے ہیں کہ وہ خود مستعفی ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

ہمارے نجی تعلیمی اداروں میں شادی شدہ خواتین کے حوالے سے ایک متعصب رویہ پایا جاتا ہے۔ اول تو شادی شدہ خواتین کو ترجیح ہی نہیں دی جاتی اس خیال کے تحت کہ وہ اچھی استاد ثابت نہیں ہو سکتیں اور اگر نوکری دے بھی دی جائے تو وہ بچے ساتھ نہیں لا سکتیں۔

ایک بڑا المیہ یہ کہ ہمارے یہاں ہر ادارے میں نئے آنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ تعلیمی اداروں میں اس حوالے سے دو متضاد رویے موجود ہیں۔ اول یہ کہ ناتجربہ کاری کی بناء پر ان کی معصومیت کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور انتہائی کم اجرت پر بہت زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ہمارے سینئر اساتذہ اکرام نئے آنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کی خامیوں کو نمایاں کرتے ہیں شاید اس کی بڑی وجہ ان کی اپنی نوکری چلے جانے کا خدشہ ہے۔

کرونا نے جہاں ہر طبقے کو متاثر کیا وہاں معاشرے کے اس مظلوم طبقے کے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ میری تعلیمی اداروں کے سرپرستوں سے یہ گزارش ہے کہ اساتذہ کا استحصال بند کریں۔ قومیں استادوں سے بنتی ہیں اور اگر ان کے ساتھ یہی رویہ قائم رہا تو یقین کریں پھر دنیا ہماری تذلیل اور رسوائی کا تماشا یونہی دیکھتی رہے گی۔ سیالکوٹ جیسے حادثات رونما ہوتے رہیں گے۔