بنگلا دیشی فرشتے اور ہمارا من و سلویٰ


دروغ بر گردن راوی، گزشتہ عشرہ کے دوران سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ گردش کر رہی تھی جس میں سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کی ترقی اور کامیابی کا تذکرہ کیا گیا تھا اور کہا یہ گیا کہ یہ اشتہار بنگلہ دیشی حکومت نے اپنے آزادی کے پچاس سال مکمل کرنے پر شائع کیا ہے، گو میں اس بات سے متفق نہیں ہوں لیکن جب انٹر نیٹ اور مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کیں تو تمام اعداد و شمار میرا منہ چڑا رہے تھے کہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی، ایک ایسا ملک جس کو ہم سے الگ ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے تھے، کیسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا اور ہمارے مذہبی طبقے کے مطابق ملک بھی ایسا جہاں کفار ایک کثیر تعداد میں موجود ہیں۔

یہ ایک الگ بحث ہے کہ مغربی پاکستان یعنی موجودہ بنگلہ دیش ہم سے کیوں اور کن وجوہات کی بنا پر الگ ہوا؟ ہندوستان کے زیر اثر کیوں ہے لیکن اگر ہم اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت پاکستان کا موازنہ بنگلہ دیش سے کریں تو ہمارے سامنے حیران کن نتائج ہوں گے۔ ہمارے مفکرین اور محققین کے مطابق ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کے پاس ایک آزاد خارجہ پالیسی موجود ہونے کے ساتھ ساتھ پوری مسلم امہ کی قائد اور رہنما ہونیپر بضد ہیں۔

لیکن جب ہم واحد ایٹمی طاقت کا موازنہ جنوبی ایشیاء کے ممالک سے کرتے ہیں تو ہمیں خبر ہوتی ہے کہ ہمیں اعداد و شمار کے ایک ایسے گورکھ دھندے میں پھنسا دیا گیا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اگر ہم پاکستان اور بنگلہ دیش کی موجودہ ترقی اور اس کی رفتار کا موازنہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ بنگلہ دیش کی موجودہ فی کس آمدنی 2064 ڈالر جبکہ پاکستان کی فی کس آمدنی 1130 ڈالر، جب کہ کوویڈ۔ 19 کے دوران بنگلہ دیش کی جی ڈی پی گروتھ پاکستان کی 0.4 فیصد گروتھ کے مقابلے میں 5.2 فیصد رہی۔ زر مبادلہ کے ذخائر پاکستان کے پاس 20.8 بلین اور بنگلہ دیش کے پاس 42 بلین ہیں۔ جہاں تک تعلیم کی بات ہے تو بنگلہ دیش اس میدان میں بھی ہم سے بہت آگے ہے کہ اس کے 98 فیصد افراد خواندہ ہیں، اس کے مقابلے میں پاکستان میں تا حال 72 فیصد پرائمری پاس افراد موجود ہیں۔

دیکھا جائے تو 1971 ء میں بنگلہ دیش معاشی اور معاشرتی طور پر ایک پسماندہ ملک تھا۔ اس کی صنعت و تجارت عملاً غیر فعال تھی افراد کی بیشتر تعداد کسان تھی اور اپنی ذاتی ضروریات کے لئے ہی غلہ اگانے کے قابل تھی۔ 15 اگست 1975 ء کو شیخ مجیب الرحمٰن کی حکومت کا تختہ الٹنے سے لے کر 2009 ء میں حسینہ واجد کے حکومت میں آنے تک، سیاسی کش مکش اور کھینچا تانی عروج پر رہی۔ لیکن جیسے ہی 2009 ء میں حسینہ واجد اقتدار میں آئیں، انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنی سیاسی جماعت سے تمام کرپٹ اور بے ایمان قائدین اور کارکنان کا بوریا بستر گول کر دیا، اپنے اس اقدام سے وہ بنگلہ دیشی عوام کے سامنے یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئیں کہ وہ ایک دیانت دار اور کرپشن سے پاک رہنما ہیں۔

دوسری اہم اقدام یہ اٹھایا کہ انہوں نے وزراء اور مشیران کی کڑی نگرانی کے ساتھ ساتھ فوج اور افسر شاہی کی مدد سے قومی معیشت کی ترقی کے لئے ایسے اقدامات کیے جس کہ وجہ سے ملک بغیر کسی رکاوٹ ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا۔ بنگلہ دیش کی گزشتہ بارہ سال کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے فوج، افسر شاہی، عدلیہ اور میڈیا ایک ہی پلیٹ فارم پر متحد ہو کر مسلسل حسینہ واجد کی حمایت کرتے رہے جس کی وجہ سے وہ بلا شرکت غیرے حکمران بن کر ملکی ترقی کے ایسے اقدامات کرتی رہی جن کو عوامی تائید بھی حاصل رہی اور اس طرح بنگلہ دیش معاشی اور ملکی ترقی کی دوڑ میں ہمیں پیچھے چھوڑ گیا۔

اس کے مقابلے میں پاکستانی قوم کی بات کی جائے تو ہمارا موجودہ حال بنی اسرائیل سے ملتا جلتا ہے۔ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ بنی اسرائیل ایک ایسی قوم تھی جس کا کھانا آسمان سے فرشتے لے کر آتے تھے، اس کھانے کا نام من و سلویٰ تھا۔ یاد رہے کہ من و سلویٰ ایک قسم کی خوراک تھا، جس کا ذکر قرآن مجید کی سورہ البقرہ میں ہوا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق چھ لاکھ بنی اسرائیل جب صحرائے سینا میں بھٹک رہے تھے تب اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے آسمان سے من و سلویٰ اتارا تھا۔

لیکن بعد میں جب بنی اسرائیل نے نخرے دکھانے شروع کر دیے تو اللہ تعالیٰ نے من و سلویٰ واپس چھین لیا۔ کہا جاتا ہے کہ بنی اسرائیل ایک ایسی نافرمان، کاہل اور سست الوجود قوم تھی کہ جب فرعون سے جنگ کا وقت آیا تو انہوں نے کہا کہ ”اے موسیٰ ؑ! ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں موجود ہیں بس تم اور تمہارا رب، دونوں جاؤ اور لڑو، ہم یہاں بیٹھے ہیں“ ہمیں بھی انگریزوں کے پنجہ استبداد سے آزاد ہوئے ایک صدی کے قریب ہو گئے ہیں لیکن ہم بھی آئی ایم ایف اور دوسرے بھیک دینے والے یہودی سرمایہ کاران اداروں کے من و سلویٰ کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ ہر آنے والی سیاسی اور غیر سیاسی حکومتیں اپنے تمام حربہ جات اور ہتھکنڈوں کے استعمال کے ساتھ ساتھ اغیار کی منت سماجت اور قوم کا مستقبل اور اثاثہ جات کو گروی رکھنے کے بعد کم از کم ایک دو سال کا سرمایہ بطور قرض لے کر اپنے اللے تللے کر کے تھوڑا سرمایہ ہم پر خرچ کر کے چلتی بنتی ہیں اور ہم ایک بار پھر بنی اسرائیل کی طرح کسی من و سلویٰ کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔

سقوط ڈھاکہ سے پہلے ادوار کو بھی اگر ہم بھول جائیں تو یحییٰ خان اور بھٹو سے لے کر عمران خان تک جو بھی سیاسی، فوجی یا نیم فوجی حکمران مسند اقتدار پر برا جمان ہوا، وہ ہمارے نظام معیشت، معاشرت اور سیاست میں ایسی کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں لا سکا جس کی وجہ سے ہم بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو سکتے۔ اس کا بنیادی سبب بھی اس کو اقتدار تک پہنچانے والے وہ پس پردہ عناصر ہیں جو کسی بھی صورت میں ہر حکمران کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔

میری یہ ذاتی رائے ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک ہی حکمران آیا ہے جسے عدلیہ، فوج، افسر شاہی اور میڈیا کی آشیر باد حاصل رہی اور آج تک پھانسی پر چڑھنے کے بعد بھی وہ نہ صرف عوام کے دلوں میں زندہ ہے بلکہ ہر انتخابات میں اس کا ووٹ بنک اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے۔ اسی دوران گو آمرانہ طرز حکومت بھی مکمل طور پر حاوی رہا لیکن پاکستانی حکمرانوں اور اقتدار کی مسند پر برا جمان صاحب حیثیت لوگوں کو ایٹمی قوت بننے کے علاوہ کوئی بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔

جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف گو کافی عرصہ اقتدار میں رہے اور اپنی بہترین پالیسیوں کیو جہ سے آج بھی جانے جاتے ہیں لیکن سازشی عناصر نے ان کا پتہ کاٹنے کے بعد پورے نظام کو چھیڑنے اور الٹ پلٹ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ ضیا ء الحق کی اسلامائزیشن، آنے والی کسی بھی حاکم اور ان کی ڈوریاں ہلانے والے کسی بھی ملک کو ایک آنکھ نہ بھائی تو انہوں نے ملک کو سیکولرازم کی طرف لانے کے لئے نہ صرف میڈیا کا سہارا لیا بلکہ اپنے سرمائے سے این جی اوز کا ایسا جال بچھا یا جس کو کاٹنا، بعد میں ہر مصلح کو مشکل نظر آتا ہے۔

دیکھا جائے تو ہمارے ملک کا قانونی، انتظامی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی ڈھانچہ آج تک اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکا اور نہ ہی اس کی بنیاد کسی بھی بین الاقوامی نظام اور اصولوں پر قائم ہے۔ ہم ارے کار پردازوں نے ملکی نظام کے نام پر ایک ایسا متنجن تیار کر کے دیا ہے جس کے بارے میں بلا شک و شبہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ بھان متی کا کنبہ ہے جس کو جوڑنے میں ایک بھی اینٹ ہمارے مسائل سے مماثلت نہیں رکھتی۔ حال ہی میں ٹرانسپرینسی انٹر نیشنل کی رپورٹ نے ہمارے ملک کے دو اہم اداروں کی کار کردگی کی قلعی تو کھول ہی دی ہے لیکن ریاست مدینہ کا خواب دیکھنی والی حکمران جماعت کے کسی بھی فرد کے کان پر جوں نہیں رینگی۔

ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے جس خواب کی تکمیل کی خاطر عوام نے تحریک انصاف کو سپورٹ کیا تھا، وہ بھی سوائے ذاتی اور سیاسی مفاد کے حصول کے علاوہ قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا سکا۔ مشیران کرام اور وزراء کی فوج ظفر موج سوائے حکومتی نا اہلی چھپانے اور مریم نواز کی ڈریس کی قیمت بتانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکی۔ اگر کسی بھی وزیر کا کسی کرپشن میں نام آتا ہے تو اس کا محکمہ تبدیل کر کے، عوام کو بھونڈی تبدیلی کی جھلک دکھانے اور نوٹس لینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہو رہا حالانکہ میرے جیسے ہر سنجیدہ شہری اس فکر میں غلطاں تھا کہ یہ وہ حکومت ہے جس کو فوج اور اسٹیبلشمنٹ کی بھر پور تائید حاصل ہے اس لئے ممکن ہے کہ ہم بھی کسی تبدیلی کا منہ دیکھنے کے قابل ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments