بطور استاد میں شرمندہ ہوں


میرا تعلق ٹیچنگ پروفیشنل سے ہے تقریباً زندگی کے چودہ سال اس فیلڈ میں لگا چکا ہوں۔ ہمارا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے جہاں پر مختلف مذاہب کے بہت تھوڑے تھوڑے لوگ آباد ہیں مگر عیسائی لوگ کچھ زیادہ تعداد میں ہیں۔ لیکن اس طبقے کی حالت کوئی زیادہ اچھی نہیں ہے اور ان کی اکثریت سینٹری ورکر ہوتی ہے، ان میں سے کچھ پڑھے لکھے والدین ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے بچے بچیوں کو پڑھا لکھا کر اعلٰی مرتبہ تک پہنچایا اور کچھ یورپ جا کر آباد ہو جاتے ہیں اور اپنی کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے رہتے ہیں۔

اس تھوڑی سی کمیونٹی کے بچے جب ہمارے اسکول، کالج، یونیورسٹی یا اکیڈمی میں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں تو ہمارے مسلم دوست، طلبا ء یا اساتذہ کا برتاؤ ان کے ساتھ کوئی زیادہ اچھا نہیں ہوتا اور ان کے ساتھ ایک ”سیگری گیٹڈ“ قسم کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس رویہ کو یہ کمیونٹی تکلیف دہ سمجھتے ہیں مگر اقلیت میں ہونے کی وجہ سے اس کا کھلے عام اظہار نہیں کر پاتے کیونکہ ایسی جرات کرنے کے نتائج کو وہ بڑے اچھے سے جانتے ہیں۔

مگر بطور استاد میرا یہاں مسئلہ کچھ اور ہے اور اس مسئلہ کو میں بڑے عرصہ سے آبزرو کرتے آ رہا ہوں، میں جب اس کمیونٹی کے بچوں کو ”مائی ہیرو ان ہسٹری، مسلم کمیونٹی، نیشنل یونیٹی، آور مورل ویلیوز“ جیسے مضامین کے علاوہ مطالعہ پاکستان اور اسلامیات جیسے مضامین پڑھاتا ہوں تو مجھے بہت زیادہ شرمندگی سی محسوس ہوتی ہے چو نکہ میں جو کچھ انہیں پڑھا رہا ہوتا ہوں اس میں تو صرف ”ہم ہم“ کی تکرار ہوتی ہے، ہمارے ہیروز اور ہماری ویلیوز کا تذکرہ ہوتا ہے دوسرے مذاہب کے لوگوں کا ان سے کیا لینا دینا ہے۔

جب بطور استاد ہم صرف اپنی اقدار اور ہیروز کا تذکرہ دوسری کمیونٹی کے طلباء کے سامنے کرتے ہیں تو ہم ایک طرح سے احساس فخر یا ”رلیجیس سنوبری“ کو فروغ دے کر نسلی امتیاز کا شکار ہونے جیسی ذہنیت کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں اور اسے آج کی دنیا میں کوئی اچھا رویہ نہیں سمجھا جاتا۔ ہم اخلاقیات کی جس مچان پر کھڑے ہیں اس کا مظاہرہ ہمارے ایک وفاقی وزیر نے مذہبی تعلیم کو ترویج دینے کے معاملہ پر ایک بیان دے کر کچھ اس انداز سے کیا تھا کہ ”جب اسلامیات کا لیکچر کلاس روم میں ہو رہا ہو تو دوسری کمیونٹی کے طلبا ء کو کلاس سے باہر چلے جانے کا کہہ دیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہو گا“ ہم آج تک یہ بات سمجھ ہی نہیں پائے کہ ”تکثیری اقدار“ کیا ہوتی ہیں اور قوموں کی ترقی میں ان کا کتنا اہم کردار ہوتا ہے۔

عظمت رفتہ یا ”ہم ہم کی گردان“ سے ہم اپنی نظروں میں تو بہت بڑے مہان بن سکتے ہیں مگر دوسروں کی نظروں میں ہم روزبروز ”بونے“ بنتے جا رہے ہوتے ہیں مگر ہمیں اس کا ادراک نہیں ہوتا۔ ہمارے مہان ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہوتا اگر دوسرے مذاہب کے لوگ اپنی مذہب میں خود کو محفوظ سمجھتے اور اپنی اقدار کو مکمل آزادی کے ساتھ جیسے ہم انجوائے کر رہے ہیں وہ بھی اسی طرح کرتے۔ ہمارے علاقہ میاں چنوں میں بہت سے عیسائی مسلمان ہوئے اس کے پیچھے وجہ غربت اور معاشرتی تفریق ہے، کچھ دنوں پہلے ایک عیسائی میاں بیوی اپنے دو بچوں کے ساتھ میری اکیڈمی آئے اور التجا کی کہ ہم مسلمان ہونا چاہتے ہیں اور گھر میں غربت ہونے کی وجہ سے ہماری کچھ مالی امداد کر دو۔

جب صورت حال اس حد تک گمبھیر ہو جائے تو سوائے شرمندگی کے اور کیا ہو سکتا ہے؟ مذہبی بنیادوں پر نفرت کی جڑیں ہمارے اندر اتنی زیادہ جڑ پکڑ چکی ہیں کہ ایک عیسائی بچہ کرسمس کی خوشی میں کیک لے کر اکیڈمی آیا تاکہ میرا استاد اور کلاس فیلوز مل کر ان خوشی کے لمحات کو انجوائے کرسکیں مگر میری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب اس کے کلاس فیلوز نے یہ کہہ کر کیک کھانے سے انکار کر دیا کہ ”ہم تو کرسمس کو تسلیم ہی نہیں کرتے“ اس تشویش ناک صورتحال میں آگے بڑھ کر سب سے پہلے کیک میں نے کھا کر ان بچوں کو تلقین کرتے ہوئے کہا کہ انسانی خوشیاں سانجھی ہوتی ہیں اور تمام تہوار انسانی ورثہ ہوتے ہیں۔

ہمارا تعلیمی نصاب اس طرح کا ہونا چاہیے جس میں سب مذاہب کو بطور لٹریچر پڑھایا جائے تاکہ معاشرے کے کسی فرد کی بھی دل آزاری نہ ہو اور مختلف مذاہب کے لوگ اپنی اپنی مذہبی تعلیم کے مطابق آزادی سے معاشرے میں جی سکیں۔ مذہبی بنیادوں پر چھوٹائی بڑائی کے تصورات کی آج کی دنیا میں گنجائش بہت کم ہو چکی ہے۔ اس لیے میں بطور استاد شرمندہ ہوں کہ میں جس مچان پر بیٹھ کر درس و تدریس کا فریضہ سرانجام دے رہا ہوں میں نصاب کی وجہ سے دوسرے مذاہب کے طلباء کو تکثیری تعلیم دینے سے قاصر ہوں مگر انسانیت پر کامل یقین ہونے کی وجہ سے میں اپنے تمام مذاہب کے طلبہ کا دل سے احترام کرتا ہوں اور نصابی تفریق پر معافی کا طلب گار ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments