سنگِ سیاہ: بلوغت میں داخل ہوتے نوجوانوں کے لیے خصوصی تحریر


 ”امی ی ی ی! “ سوٹ دیکھ کر اس نے رو دینے والی آواز میں امی کو پکارا۔

 ”ہونہہ“ امی جو ابھی بازار سے آکر تھک کے لیٹی تھیں انہوں نے آنکھیں بند کیے کیے ہی جواب دیا۔

 ”امی میں یہ سوٹ بالکل بالکل بالکل بھی نہیں پہنوں گی۔ “ اپنی بات کا زور بڑھانے کے لیے اس نے بالکل کا بے دریغ استعمال کر ڈالا۔

 ”مت پہنو میری بلا سے۔  زیادہ نخرے ہیں تو خود بھی ساتھ چلا کرو بازار۔ ایک تو ان کے لیے سارا دن بازاروں میں رل کے آو، شہزادی کو پسند ہی نہیں آتی چیز“۔  تھکن کی وجہ سے امی کا موڈ ویسے ہی خراب تھا اس کے نخرے دیکھ کر اور غصہ آگیا۔

 ”ہر بار تو کام دے کر خود چھوڑ جاتی ہیں۔  آپ خود دیکھیں یہ ہرا اور نارنجی رنگ پہن کے تو اچھا خاصا انسان گولا گنڈا لگنے لگے۔ “ اس نے جھنجھلائے ہوئے انداز میں امی کی طرف سوٹ بڑھایا

 ”تو بیٹا وہ تو انسان لگتے ہیں نا گولا گنڈا۔ سوٹ تو تمہارا ہے“ امی کی حس مزاح غصے میں بھی خوب کام کرتی تھی۔

وہ چڑ کے کچن میں آ گئی۔ اب کم از کم دو دن سوٹ کے رنگ کا سوگ چلتا پھر ہمیشہ کی طرح وہ کچھ اور سوچتی۔ وہ یعنی انیسہ ایک متوسط کے بھی نچلے طبقے کے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ چھوٹا سا گھرانا تھا ماں باپ اور یہ دو بھائی بہن۔ گھر کا ماحول روایتی سا ہی تھا جس کا اندازہ ان کے ناموں سے ہی ہو جاتا تھا۔ والد کا نام محمد ذاکر اور انہی کے نام کی مناسبت سے بڑے بھائی کا نام محمد شاکر، والدہ کا نام نفیسہ اور اس کا نام انیسہ۔ امی نے انٹر تک پڑھا ہوا تھا اور گھریلو خاتون تھیں، جبکہ ابو نے گریجویشن کیا ہوا تھا اور ایک نجی ادارے میں پچھلے کئی سال سے درمیانے درجے کی نوکری کر رہے تھے۔  دونوں بہن بھائی بالترتیب گریجویشن کے پہلے اور دوسرے سال میں تھے۔  بھائی شام میں پارٹ ٹائم جاب بھی کرتا تھا۔ انیسہ نے بھی کوشش کی تھی کہ کم از کم بچوں کو ٹیوشن ہی پڑھا لیا کرے، مگر امی، ابو سے اجازت نہیں ملی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تمہاری ذمہ داری اٹھانے کے لیے باپ بھائی موجود ہیں تو آرام سے تعلیم حاصل کرو، کمانے کی فکر چھوڑو۔

جبکہ وہ صرف اتنا چاہتی تھی کہ اس کے اپنے پاس اتنے پیسے ہوں کہ وہ اپنی پسند سے کوئی چیز خرید سکے۔  امی کو بتا کے بھی بھیجو تو وہ اپنی مرضی کی ہی چیز لاتی تھیں۔  انیسہ کو چمکتے شوخ رنگوں سے شدید چڑ تھی جب کہ امی کو وہی رنگ بھاتے تھے۔  ان کا موقف تھا کہ کھلے کھلے رنگ پہننے سے رنگت بھی کھلی کھلی لگتی ہے جبکہ کئی بار ایسے ”کھلے کھلے“ رنگ پہن کے وہ اپنا مذاق اڑوا چکی تھی۔ گھر میں ویسے تو سکون تھا امی ابو خیال رکھتے تھے بھائی سے بھی ہلکی پھلکی نوک جھونک ہی رہتی تھی جس میں پیار کا عنصر زیادہ ہوتا تھا۔ اسے صرف اپنی زندگی سے کوئی شکوہ تھا تو اپنی رنگت کی وجہ سے۔  حالانکہ گھر میں سب کی ہی رنگت گہری تھی مگر اسے لگتا تھا کہ اس کے لیے یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔  کسی شادی، میلاد، حد یہ کہ موت پہ بھی جاتی تو سب سے دبتی ہوئی اسے اپنی ہی ذات لگتی تھی۔ باقی ہر لڑکی کھلی کھلی چمکتی ہوئی ہوتی۔ اس کے اپنے خاندان میں ہی سب لڑکیاں یا تو گوری گوری تھیں یا کھلتے گندمی رنگ والی۔ بجٹ میں میسر ہر گورا کرنے والی کریم مل کے بھی دیکھ لی مگر رنگ تو کیا گورا ہوتا دو تین نے ری ایکشن ایسا کر دیا کہ دانوں کے نشان بھی مستقل ہوگئے۔

آج کل بھی ایک چچا زاد بھائی کی شادی نزدیک تھی جس کی تیاریوں میں سب سے پہلی تیاری کے طور پہ انیسہ کا خود سے کیا گیا عہد تھا کہ اسے تمام تقاریب میں ”کچھ“ گورا لگنا ہے اور سب میں نا لگ سکی تو کم از کم شادی یا ولیمے والے دن تو ایسی تیاری ہو کہ وہ گوری لگے۔  اس ساری پلاننگ میں اول چیز اس نے رکھی کہ ایسے دھیمے رنگوں کا چناؤ کرنا ہے جس میں اس کی رنگت نمایاں نا ہو۔ مگر پہلا پلان تو امی کی مہربانی سے آج فلاپ ہو ہی گیا۔ تقریبات بھی دو ہی تو رہ گئی تھیں۔  کیونکہ یہ لوگ کراچی میں رہتے تھے اور شادی کے لیے میرپورخاص جانا تھا اور ولیمے تک کی ابو کو چھٹی نہیں ملی مایوں کے لیے ایک سوٹ رکھا ہوا تھا اور بارات کا سوٹ آج امی لے آئیں۔  دو دن تک وہ سڑا ہوا منہ بنائے گھومتی رہی۔ کالج میں بھی سارا دھیان اسی طرف رہا بے دلی سے کلاسیں لیں۔  پھر آہستہ آہستہ وہ غم پرانا ہوا تو سوچا چلو میک اپ سے ہی کوشش کر لی جائے۔  آج کل تو میک اپ کی کرامت سے کوے کو راج ہنس بنا دیتے ہیں کچھ تو مجھ پہ بھی فرق پڑے گا۔ یہ بھی اس کا ہمیشہ بننے والے پلان کا حصہ تھا جو عموما فیل ہی ہوتا مگر اس کی امیدیں ختم نا ہوتیں۔  لہذا کالج سے واپس آکر جیسے ہی امی کھانا کھا کے سونے لیٹیں ہمیشہ کی طرح وہ اپنے رسالے اور میک اپ کی گنتی کی چیزیں لے کر چھوٹے کمرے میں گھس گئی۔ پہلے تو رسالوں میں سے مناسب میک اپ کے طریقے ڈھونڈتی رہی حالانکہ یہ رسالے وہی تھے جن میں اس نے کافی مغز کھپانے کے بعد کچھ ایسے طریقے کھود نکالے تھے جن میں کم سے کم کاسمیٹکس استعمال ہو سکیں۔  پھر بھی کچھ چیزیں اس کی پاس نہیں تھیں جن کا متبادل اسے انہی دو تین چیزوں سے پورا کرنا تھا۔ اس کی یہ خفیہ کارروائی  امی کو کم ہی پتا چلتی تھی اور وہ عموما حیران ہوتی تھیں کہ فیس پاوڈر وغیرہ اتنی جلدی کیسے ختم ہوجاتے ہیں۔  باقی چیزیں کم کم ہی استعمال ہوتی تھیں بس فیس پاوڈر وہ ہر دفعہ خوب خوب لگاتی تھی۔ اب بھی کافی دیر تک لیپا پوتی کرتی رہی۔ جب احساس ہوا کہ امی اٹھنے والی ہیں تو چھوٹے سے آئینے میں دیکھ کر اپنے حساب سے میک اپ کو فائنل ٹچ دیا اور باہر آکر واش بیسن کے اوپر لگے آئینے میں دیکھا۔ کمرے کی دھیمی روشنی میں کیا گیا میک اپ دن کی روشنی میں ایک دم بہت واضح نظر آنے لگا۔ اسے خود ہی اپنی شکل دیکھ کر ہنسی آگئی۔ بالکل سفید چہرے پہ رنگوں سے عجیب سے نقش و نگار بنے ہوئے تھے جسے میک اپ بالکل بھی نہیں کہا جاسکتا تھا۔ اسے تھوڑی مایوسی ہوئی مگر یہ بھی کوئی نئی بات نہیں تھی ہربار ہی وہ سوچتی کہ کم روشنی میں تو ایسا ہی میک اپ ہوگا۔ بس جب وہ تقریب والے دن صحیح روشنی میں میک اپ کرے گی تو سب کے ہوش اڑ جائیں گے۔  اس نے جلدی سے منہ دھویا اور شام کی چائے کہ تیاری میں لگ گئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments