امرتسر ٹی وی پہ “مغل اعظم“ اور لاہور


واٹس ایپ پہ کوٹ ادو کے صحافی رضوان گورمانی کا بھیجا سعودی عرب میں کنسرٹ کے داخلہ کے لئے بے چین مرد وزن کے فوٹو کے نیچے فقرہ تھا، ” مجھے حاجی سلطان راہی کی فلموں کے افتتاحی شو یاد آگئے ” اس کو تو یہی جواب دیا کہ عزیزم کاش آپ نے دلیپ کمار اور نادرہ اور نمی کی فلم “آن ” کے افتتاحی دنوں کے رش کی آن بان اور شان دیکھی ہوتی، مگر اگلے فقرہ میں محمد بن سلیمان اور سلمان خان کے ذکر نے ذہن کے پردے پہ چنیوٹ کے حاجی سلیمان کا “مغل اعظم ” دیکھنے لاہور جانا لا کھڑا کیا۔
لاہور ٹی وی کا زور ختم کرنے کے لئے امرتسر ٹی وی چالو کیا گیا تو چند ہفتے بعد ہی آج کل کی لیک شدہ خصوصی ویڈیوز کے پھیلنے کے دورانیہ سے بھی کم وقت میں، سوشل میڈیا کی غیر موجودگی کے باوجود، لاہور اور ملحقہ اضلاع میں خبر پھیل چکی تھی کہ فلاں شام امرتسر ٹی وی پر دلیپ اور مدھوبالا کی فلم مغل اعظم چلے گی۔ اور ہر زبان پہ یہ ہی موضوع تھا۔ شام گھر پہنچتے ہی ہماری حمید نظامی اور ثاقب زیروی کی گلی میں پلی بڑھی نوبیاہتا بیگم پوچھ رہی تھیں کہ یہ مغل اعظم کون ہے جو آ “رہی ” ہے۔ دوپہر کے بعد سے ہی تمام محلے سے پیغام آ رہے ہیں کہ ہم نے بھی دیکھنے آنا ہے۔ پورے بی بلاک پیپلز کالونی میں ابھی چند گھروں نے ہی یہ مصیبت مول لی تھی (اور ہم تو جلد ہی لاہور بڑے بھائی کے حوالے کر آئے تھے۔ ) اب آج سے اکاون باون سال قبل کا وہ زمانہ جب لاہور ٹی وی فیصل آباد میں دیکھنے کے لئے بادل بارش کی دعا کی جاتی ( بلکہ شائد کچھ شوقین نماز استسقاء کی حد تک جانے کا بھی سوچتے ہوں ) اور موسم صاف ہو تو تین افراد ڈیوٹی پہ ہوتے۔ ایک چھت پر انٹینا کا بانس پکڑے اوپر سے نیچے صحن والے سے پوچھتا کہ آ گیا اور وہ اندر والے پوچھ بتاتا کہ بس تھوڑا اور گھمائیں، آگیا، ابھی نہیں آیا کے شور میں شوں شاں شڑپ کی آوازیں نکالتے ڈوبتی ابھرتی شکلوں کو دس بارہ ہمسائیوں اور بچوں کے ساتھ ٹی وی دیکھا جاتا۔ لاہور سے چالیس پچاس کلو میٹر کے بعد ہی یہ حال تھا تو امرتسر تو بہت دور بھی اور اس کی لہروں کی طاقت بھی کم۔ لہذا سارے محلہ میں منادی پھرائی گئی کہ پوری دنیا لاہور بھاگ رہی ہے آپ بھی بھاگ جگائیں اور لاہور جا دیکھیں۔
اگلی صبح اپنی آٹو پارٹس کی دکان پر جا بیٹھے ہی تھے کہ بس سٹینڈ سے اطلاعات آنا شروع ہو گئیں کہ لاہور کی بسوں پر جگہ نہیں مل رہی دوپہر تک تمام ٹرانسپورٹر اپنے دوسرے روٹوں سے بسیں نکال لاہور بھجوا رہے تھے۔ ادھر لاہور میں ہر اس گھر میں جہاں ٹی وی ہونے کا شائبہ بھی ہو سکتا تھا اپنے دوسرے شہروں سے متوقع مہمانوں کی خوش دلی سے استقبال اور تواضع اور لاہوری کھابوں کے ساتھ فرشی بستروں اور محفلوں کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ شہر کے تمام ہوٹل شام سے قبل بھر چکے تھے۔ لاری اڈہ سمیت شہر اور مضافات کے ریسٹورینٹس ہوٹلوں اور ڈھابوں نے سامنے سڑکیں صاف کر کرسیاں لگا اور ٹی وی سجا رکھے تھے۔ کسی اخبار میں یا پوسٹر میں یا بینر پر یا جھنڈے اٹھائے جلوس نکالتے گلا پھاڑتے ” چلو چلو، لاہور چلو” کا نعرہ لکھا دکھائی دیا نہ سنائی دیا پھر بھی دو بجے دوپہر تک شہر سنسان، گلیاں سُنجیاں ہو چکی تھیں اور شہری مغل اعظم دیکھنے لاہور سدھار چکے تھے۔ خالی بیٹھے دوسرے نزدیکی شہروں میں ہمارے فون جا اور وہاں سے آرہے تھے اور ہر جگہ سے یہی اطلاع تھی لوگ وہیں جا چکے جہاں مرزا یار نے دیدار دینا تھا۔ اور مدھوبالا نے، محبت کی جھوٹی کہانی پہ رونے، کے ساتھ، پیار کیا تو ڈرنا کیا، کی ہلا شیری دلانی تھی۔
اگلی صبح سے دوپہر تک لاہور کے تمام ناشتہ فروش پھجے کے پائے، فلانے کے نان چھولے، فلاں کی نہاری، فلاں کا ہریسہ بونگ فلاں کو کلچہ حلوہ پوری وغیرہ وغیرہ مہمانوں کے پیٹوں میں اتروا چکے تھے۔ لاری اڈہ پر ہاکرنصف شب کے بعد فلم ختم ہوتے ہی ” چلو چلو، لاہور سے چلو کے فلک شگاف نعرے شروع کرہے تھے اور لاہوری مغل اعظم دیکھ جانے والوں کو الوداع الوداع کا پرانا گیت سنا رہے تھے۔
اسی شام ہمارا چنیوٹ کا آٹو پارٹس کا دوکاندار اور تین چار ٹرکوں کا مالک اپنی کہانی سنا رہاتھا۔ انہوں نے دوپہر تک اپنے تمام ٹرکوں پر چنیوٹ دریائے چناب سے ریت بھر لی تھی۔ ریت کے اوپر اور چھت پر ترپال ڈال رات سونے کا سامان بستر وغیرہ رکھ لئے تھے دو ٹی وی دو اینٹینا ساتھ تھے چنیوٹ ٹرک سٹینڈ کے کئی دوکاندار، مکینک وغیرہ دھما چوکڑی مچاتے شام سے قبل لاہور سے آگے نکل واہگہ بارڈر کے بالکل نزدیک کسی مشہور ڈھابے پہ جہاں بجلی بھی تھی ٹرک کھڑے کر ٹرک کے اوپر اینٹینا لگا ڈھابے پہ کھانا کھاتے خود بھی مغل اعظم بالکل صاف دیکھ چکے تھے اور دکھا چکے تھے۔ اگلی صبح یہ ٹرک ریت ٹھکانوں پہ اتار واپس آ اب حاجی سلیمان اپنی فلم کی کہانی سنا رہا تھا۔
ہم کوئی مزید دو دہائیاں بعد وی سی آر پر مغل اعظم کا سواد لینے میں کامیاب ہو سکے۔ مگر حاجی سلیمان نے جس سواد سے یہ فلم دیکھی۔ ہمیں اب تک حسرت ہے کہ اس کے ساتھ چلے جاتے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments