ہوم سویٹ ہوم الون! کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے


ہوم الون یا گھر میں اکیلے ایک کرسمس کلاسک فلم ہے۔ خواہ آپ عیسائی ہوں یا نہ ہوں بین الاقوامی چینلوں تک رسائی کی وجہ سے ہر کرسمس یا اس کے ارد گرد کے دنوں میں یہ فلم دیکھ ہی لیتے ہوں گے۔ یہ فلم خاص طور پر نوے کی دہائی میں بڑے ہونے والے بچوں کی پسندیدہ فلم ہے۔ جیسے مائیکل جیکسن، میڈونا یا نازیہ و زوہیب حسن ہیں۔ یہ فلم فاکس سٹوڈیوز نے بنائی تھی۔ جب سنہ 1990 ء میں فلم ہوم الون سینماؤں میں پیش کی گئی تو اس نے فوراً ہی سب کو مات دے دی۔

یہ فلم کرسمس سنہ 1990 سے کچھ دن پہلے سینماؤں میں پیش کی گئی تھی اور یہ اپریل سنہ 1991 میں ایسٹر کے تہوار کے بعد تک لگی رہی۔ اس فلم کی وجہ سے ان دنوں پیش کی گئی باقی تمام فلموں کی کمائی متاثر ہوئی تھی اور اس وجہ سے ہالی ووڈ میں ایک نئی اصطلاح وجود میں آئی جسے کسی ”فلم کا ہوم الون ہونا“ کہتے ہیں۔ یعنی کوئی فلم جس کی زیادہ کامیابی کے امکانات نہ ہوں لیکن وہ بہت زیادہ کامیاب ہو جائے اور باقی فلموں کی کمائی اس سے متاثر ہو۔

یہ فلم اسی وقت سے ایک ہالی ڈے اور کرسمس کلاسک کا درجہ حاصل کر گئی تھی اور آج بھی یہ کرسمس کے دنوں میں ضرور بہ ضرور دیکھی جانے والی فلموں میں شمار ہوتی ہے۔ اس فلم کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ میکاؤلی کولکن کی شاندار اداکاری تھی۔ اور اس کے بعد آنے والے اداکار بچے میکاؤلی کولکن جیسی شاندار اور بے ساختہ اداکاری نہ پیش کرسکے۔ ہوم الون کے سلسلے کی جتنی فلمیں میکاؤلی کولکن کے بغیر بنائی گئی ہیں، وہ سب اس فلم کے چاہنے والوں نے انتہائی ناپسند کی ہیں۔

خاص طور پر چوتھی اور پانچویں فلم تو انتہائی بری بنی ہیں۔ پھر ایک صنفی امتیاز یہ برتا گیا ہے کہ چھ کی چھ فلموں میں ایک بچہ یا لڑکا ہی دکھایا گیا ہے۔ کسی فلم میں لڑکی نہیں دکھائی گئی ہے۔ کیا کسی بچی کو ایسا ذہین یا شرارتی نہیں دکھایا جاسکتا ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ اس یکسانیت کی وجہ سے بھی اگلی فلمیں ناظرین کو پسند نہیں آئی ہیں۔

سنہ 2019 میں فاکس سٹوڈیو اور اس کے فلمی اثاثہ جات کی خریداری کے بعد ڈزنی سٹوڈیو نے ہوم الون سلسلے کی چھٹی فلم اپنے ویڈیو سٹریمنگ ذریعے ڈزنی پلس پر پیش کرنے کے لیے نئی فلم بنانے کا اعلان کیا تو اس فلم کے پرستار پہلے ہی کہنا شروع ہو گئے تھے کہ اس فلم کے اچھا بننے کا امکان کم لگتا ہے لیکن یہ فلم سب کے اندازوں سے زیادہ بری ثابت ہوئی ہے۔ عموماً فلموں پر تعارفی یا تنقیدی تحریر لکھتے ہوئے شروع میں لکھا جاتا ہے کہ اگر آپ نے یہ فلم نہیں دیکھی تو آگے مت پڑھیں کیونکہ آگے کہانی کے اہم حصوں کا بیان آتا ہے لیکن ہم اس طرح کا انتباہ نہیں لکھ رہے کیونکہ یہ فلم واقعتاً دیکھنے کے قابل نہیں ہے۔

موجودہ ہوم سویٹ ہوم الون اس سلسلے کی چھٹی فلم ہے۔ یہ نئی فلم ”بورات“ فلم بنانے والے ہدایت کار نے لکھی ہے۔ اگر اس فلم کا نام ہوم الون نہ رکھا گیا ہوتا تو بھی یہ زیادہ تنقید کا شکار نہ ہوتی۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ فلم سازوں نے ایک کلاسک فلم کو نئے انداز سے بنانے کی کوشش کی ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے اسے نہایت ہی بھونڈے انداز میں بنانے کی کوشش کی ہے۔

موجودہ فلم سے پہلے والی ہوم الون فلموں میں چلو ایک بات تو ہوتی تھی کہ اس میں دکھائے گئے چور یا ولن اس بات کے مکمل حق دار ہوتے تھے کہ ان کے ساتھ اس فلم میں دکھائے گئے سخت ظالمانہ قسم کے پھندے اور دیگر حربے جیسے کہ رنگ کے ڈبے لٹکا کر چوٹ مارنا، برف میں سیڑھیوں کو پانی سے گیلا کر دینا یا گرم استری وغیرہ مارنا کے حق دار ہوتے تھے لیکن اس نئی فلم میں لکھاری نے تبدیلی کرتے ہوئے چوروں کو جیف اور پیم میکنزی کی شکل میں ایک ایسا جوڑا دکھایا ہے جو قابل رحم حالت میں ہوتے ہیں۔

دونوں ہی کسی صورت ولن نہیں لگتے۔ میاں ایک ڈیٹا مائیگریشن کا ماہر ہوتا ہے لیکن اس وقت بے روزگار ہوتا ہے۔ جبکہ بیوی ایک سکول کی استانی ہوتی ہے۔ وہ دونوں اپنا چاؤ سے تیار کیا گیا گھر قرضے میں ڈوبے ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں سے چھپ چھپا کر بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اور پھر ان کے میکس کے گھر میں گھسنے کی وجہ بھی باقاعدہ چوری کی نیت نہیں بلکہ غلط فہمی دکھائی گئی ہے کہ انہیں یہ شبہ ہوتا ہے کہ میکس نے ان کے گھر سے ایک قیمتی و نایاب گڑیا چرائی ہے جس کی قیمت اتنی ہے کہ انہیں اپنا پیارا گھر فروخت کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

یہ پچھلی فلموں سے بالکل ہی تین سو ساٹھ درجے کے زاویے سے منہ موڑ لینے والی بات ہے۔ اب بظاہر تو لکھاری اور ہدایت کار نے اس سلسلے کی دیگر فلموں سے ہٹ کر چوروں کو معاشرے کا ایک اچھا قابل رحم فرد دکھانے کی کوشش کی ہے لیکن وہ یہ بھول گئے یا توجہ نہیں دی کہ ہوم الون سلسلے کی فلموں میں چوروں کے ساتھ جو سخت متشدد سلوک ہوتا ہے، وہ ناظرین کو صرف اس لیے اچھا لگتا ہے کہ وہ ایسے سلوک کے مستحق دکھائے جاتے ہیں لیکن یہاں اس فلم میں چوروں کی غلط فہمی وبے بسی دکھا کر لکھاری نے ناظرین سے وہ خوشی بھی چھین لی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ دونوں میاں بیوی اس فلم کے سب سے اچھے کردار لگتے ہیں۔ دونوں فلم میں جس انداز سے ”کلاؤ“ کی وجہ سے جیف کے بے روزگار ہونے کا تذکرہ کرتے ہیں، وہ شاید اس فلم کا بہترین لطیفہ ہے۔

اس فلم کا مرکزی کردار آرچی یاٹیز جو میکس مرسر نامی بچے کا کردار ادا کرتا نظر آتا ہے، اداکاری کے لحاظ سے کولکن کی اداکاری کا پاسنگ بھی نہیں ہے۔ آرچی یاٹیز کوئی اچھا اداکار بچہ ہو گا لیکن اس فلم کے لیے اس کا انتخاب بالکل ہی غیر مناسب تھا۔ بھلا ایک موٹا سا گول مٹول برطانوی بچہ کولکن کی جگہ کیسے لے سکتا ہے۔ ؟ بظاہر تو فلم میں اسے منتخب کرنے کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ جب جیف اورپیم پہلی مرتبہ اس کے گھر میں گھستے ہیں تو وہ آپس میں کسی بدصورت اور موٹے بچے کو دو لاکھ ڈالر کے عوض فروخت کرنے کی بات کر رہے ہوتے ہیں جسے میکس اپنی طرف اشارہ سمجھتا ہے لیکن اصل میں وہ اس گڑیا کی بات کر رہے ہوتے ہیں کہ جو وہ سمجھتے ہیں کہ میکس نے ان کے گھر سے چرائی ہے۔

اب اگر فلم ساز کسی بچے کو اس غلط فہمی کا شکار کرنے کے لیے بدصورت اور بھدا دکھانا چاہتے تھے تو یہاں پر بچے کی بجائے کسی بچی کو دکھانا بہتر ہوتا۔ کہ اس سے ایک تو یہ ریت ختم ہو جاتی کہ اب تک کی تمام فلموں میں بچہ ہی دکھایا گیا تھا، دوسرا وہ اسے خوش شکل ہونے کے باوجود دانتوں پر چڑھے ہوئے بریسز اور بالوں کے غلط انداز کی وجہ اور دیگر طریقوں سے زیادہ بھدا اور بدصورت دکھا سکتے تھے۔ جیسا کہ ”اگلی بیٹی“ یا بدصورت بیٹی نامی ڈرامہ سیریل کی مرکزی اداکارہ کو بدصورت بنا کر دکھایا گیا تھا جو اصل میں اتنی بھی بدصورت نہیں ہے۔

اور اس فلم کو دیکھتے ہوئے کئی جگہوں پر یوں محسوس ہوا کہ ہدایت کار نے جان بوجھ کر پہلی فلم کا مذاق اڑانے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً فال اون یور نیز ”یا اپنے گھٹنوں پے جھک جاؤ نامی حضرت عیسیٰ کی تعریف میں کہے گئے قصیدے کو ہدایت کار نے اس وقت استعمال کیا جب فلم کے نام نہاد چور میاں بیوی میکس کے گھر میں گھسنے کی کوشش کر رہے تھے اور اپنی حماقتوں کی وجہ سے بار بار گر رہے تھے اور اس منظر کو جس طرح سے فلمایا گیا ہے، وہ اس قصیدے کے بولوں کا مذاق اڑانے جیسا لگتا ہے۔

اسی طرح دوسری ہوم الون فلم میں جب کیون کبوتر والی خاتون کے ساتھ اس کے ٹھکانے پر جاتا ہے جہاں کلاسیکی موسیقی کا آرکسٹرا بج رہا ہوتا ہے، کے منظر کا بھی اس فلم میں مذاق اڑانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس میں جیف اور پیم میکنزی بزرگوں کے ایک اولڈ ہوم میں ان کا دل بہلانے کے لیے بہت سے پڑوسیوں وغیرہ کے ہمراہ ہاتھ سے بجنے والی کرسمس گھنٹیوں کے ذریعے کرسمس کا خصوصی گیت گانے جاتے ہیں لیکن آپس میں میکس کے گھر گھسنے یا نہ گھسنے کی بحث میں دھن صحیح نہ بجا کر بے سرے ہو جاتے ہیں۔ یوں سبھی سننے والے بزرگ بدمزہ ہو جاتے ہیں۔ البتہ“ سم وئیر ان مائی میموری ”یا میری یادوں میں کہیں نامی گانے کو بہت اچھی جگہ استعمال کیا گیا ہے جب پیم میکنزی اپنے گھر میں گزاری گئی پچھلی خوش گوار یادوں کو یاد کرتی ہے۔

اور یہاں چلو اگر چوروں کو مظلوم ہی دکھانا تھا تو ان کے ساتھ وحشیانہ قسم کا ہونے والا سلوک اپنی شدت کے اعتبار سے کم کر دیا جاتا تو بھی غنیمت تھا لیکن یہاں تو اسے مزید متشدد شکل دے دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر میکس، پیم میکنزی کے چہرے پر ایک قسم کی سوئیاں پھینکنے والی بندوق سے سوئیاں مارتا ہے اور اس پر ناظرین کے زخموں پر مزید نمک یہ چھڑکا جاتا ہے کہ وہ بندوق پیم کے اپنے بیٹے نے چرچ کو عطیہ کی ہوتی ہے جہاں سے حالات کی ستم ظریفی سے وہ میکس کو ملی ہوتی ہے۔

اسی طرح جیف میکنزی جب میکس کے پیچھے بھاگتا ہے تو وہ مکان کی چھت کے کناروں سے لٹکتے ہوئے برف کے نوک دار کونوں کو جنھیں اس نے پانی ڈال کر سخت کیا ہوتا ہے، جیف پر گرانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ دونوں مناظر کسی ایسے شخص کو تو پسند آ سکتے ہیں جس کی فطرت اذیت پسند ہو لیکن عام آدمی کو چوروں کی پٹائی ہوتا دیکھ کر تسکین کی بجائے کراہت محسوس ہوتی ہے۔ اب اگر لکھاری نے مجرموں کو اچھا فرد دکھانے کا فیصلہ کر لیا تھا تو پھر اس نوعیت کے شدید تشدد والے حربے استعمال کرنے سے اجتناب رکھنا بہتر تھا۔

پھر فلم کے آخر میں جب انہیں پتا چلتا ہے کہ میکس گھر میں اکیلا ہے تو وہ اسے اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ وہ تو میکس پر مہربان ہوتے ہیں لیکن میکس ان کی برے طریقے سے پٹائی کرنے پر معافی مانگتا نہیں دکھائی دیتا۔ جس سے تاثر کچھ اس قسم کا بنتا ہے کہ ایک امیر کبیر گھرانے کا بگڑا بچہ ان مظلوموں کی اتنی پٹائی کرنے کے بعد بھی شرمندہ نہیں ہے۔ صرف یہی نہیں میکس اپنی والدہ سے بدتمیزی سے بات کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے جیف اور پیم میکنزی کے گھر باتھ روم کے استعمال کے بعد اصل میں ان کے گھر سے گڑیا کی بجائے ایک سوڈا مشروب کا کین چرایا ہوتا ہے۔

یعنی اس فلم میں ہیرو بچے کو بدتمیز اور بگڑا ہوا دکھایا گیا ہے جو چوری کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ جبکہ پہلی ہوم الون فلم میں کیون غلطی سے دکان سے دانت صاف کرنے والا برش چرا لیتا ہے لیکن اس کی وجہ بڑے میاں مارلے سے ڈرنا ہوتا ہے کیونکہ وہ بز کی جھوٹی کہانی کی وجہ سے اسے ایک سیریل کلر سمجھتا ہے۔ یہاں یاد رہے کہ پہلی اور دوسری فلم میں کیون صرف اس وقت ماں سے احتجاج کرتا ہے جب اسے بز کی جانب سے اس کا پیزا چرانے اور دوسری فلم میں اس کے کرسمس سولو گیت کو خراب کرنے کے باوجود گھر والوں کی جانب سے کیون کو قصور وار قرار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو اس فلم کا حقیقی ولن میکس اور ہیرو چور دکھائے گئے ہیں جو کہ پچھلی فلموں کے بالکل ہی الٹ ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ فلم دیکھتے ہوئے ناظر کی ساری ہمدردی ان نام نہاد چور میاں بیوی کے لیے ہوتی ہے۔ اور جو بظاہر ہیرو بچہ ہے، وہ کہیں سے ہیرو نہیں لگتا۔

اسی طرح میکس کے گھر پر رہ جانے کے عمل کو بھی بالکل ہی الٹ کر دیا گیا ہے ۔ اس کے گھر پر رہ جانے کی وجہ یہ دکھائی گئی ہے کہ اس کے گھر والوں کو ٹوکیو جانے والی دو مختلف پروازوں کے ٹکٹ دیے جاتے ہیں۔ پھر میکس گھر والوں کے شورو غل سے تنگ آ کر خود ہی گیراج میں کھڑی بی ایم بلیو میں بیٹھ کر پچھلی نشست کی سکرین پر لونی ٹونز کارٹون دیکھنے لگتا ہے اور پھر تھک کر وہیں سو جاتا ہے۔ اس سے کہانی کا وہ حصہ بالکل ہی ختم ہوجاتا ہے کہ جب کیون کے گھر والے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے اور اس سے ناظرین کی شروع سے ہمدردی وابستہ ہو جاتی ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ گھر والے نہ صرف چھوٹے بچے کو تنگ کرتے ہیں بلکہ اسے خواہ مخواہ سزا دے کر تیسری منزل کے کمرے میں تنہا سونے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔

اور اگلی صبح دیر سے جاگنے کی افراتفری میں اسے ساتھ لے جانا بھول جاتے ہیں۔ جبکہ یہاں میکس اپنی مرضی سے گیراج میں گیا ہوتا ہے۔ اسے گھر والوں کی طرف سے کسی برے سلوک کا سامنا نہیں ہوتا۔ یوں یہ نظر آتا ہے کہ میکس کو گھر پر اکیلا چھوڑنے میں اس کے گھر والوں کی کوئی غلطی نہیں تھی۔ وہ واقعی اسے دو پروازوں پر سوار ہونے کی افراتفری میں بھول گئے ہوتے ہیں۔ یعنی نہ میکس کے گھر والوں کو اس کی صحیح معنوں میں دوری کا درد دکھایا گیا ہے کہ انہیں اس سے اچھا سلوک کرنا چاہیے تھا اور نہ خود میکس کو گھر والوں کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔ جبکہ اس فلم سیریز کا سب سے بڑا سبق ہی گھر والوں کی قدر کرنے کا ہے۔

کیون کے بڑے بھائی بز کا پولیس افسر کا چھوٹا سا کردار اس فلم میں لوگوں کو پسند نہیں آیا۔ کیونکہ انہیں اس کے گھر جاتے دیکھ کر وہ منظر یاد آیا کہ جب فرانس میں اسے اپنے سگے بھائی کی سلامتی کی کوئی فکر نہیں تھی۔ بز کا کردار بھی کسی سنجیدہ پولیس افسر کا نہیں بلکہ بالکل پہلی ہوم الون میں بز کے رویے جیسا تھا جو کہ کوئی چالیس سال کی عمر میں بھی بچگانہ اور نا اہل پولیس افسر دکھتا ہے۔

اب چونکہ اس فلم کے شائقین کو یہ باتیں پتا ہیں تو ان کے لیے بز کے میکس کے گھر جانے والے پولیس افسر کا کردار ایک بھونڈے مذاق جیسا ہے۔

اسی طرح مشہور زمانہ ”اینجلز ود فلتھی سولز“ نامی نقلی فلم کو یہاں ایک خلائی ویسٹرن ڈرامے یا فلم میں تبدیل کر دیا گیا جس پر خود فلم میں جیف کے بھائی کا کردار تبصرہ کرتا ہے کہ آخر یہ لوگ ہر اچھی کلاسک فلم کو دوبارہ سے کیوں بنانے کی کوشش کرتے ہیں جو کبھی اچھی نہیں بنتی۔ اور یہی تبصرہ اس نئی ہوم الون فلم پر منطبق بھی ہے۔

اگر آپ پہلی دو فلموں کو دیکھیں تو دیگر اداکاروں کی اداکاری بھی بہت جاندار اور جدا گانہ تھی جو کہ اس نئی فلم میں نظر نہیں آئی۔ میکاؤلی کولکن لاکھوں میں ایک تھا۔ اس کی اداکاری اتنی عمدہ اور جاندار تھی کہ لگتا تھا کہ وہ اس دنیا میں اسی کردار کو ادا کرنے آیا تھا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کیون مک کیلسٹر کا کردار جان ہیوز مرحوم نے خصوصی طور پر کولکن کے لیے لکھا تھا۔ اس کی وجہ سمجھنے کے لیے آپ کو سنہ انیس سو اٹھاسی میں آنے والی فلم ”انکل بک“ دیکھنا پڑے گی۔

اس فلم کے ایک منظر میں کولکن اور اس کی چھوٹی بہن گھر پر اکیلے ہوتے ہیں اور ان کا چچا اپنی گرل فرینڈ کو ان کی دیکھ بھال کے لیے ان کے پاس بھجواتا ہے لیکن کولکن اس کے لیے دروازہ کھولنے سے قبل اس کی شناخت کا ثبوت دیکھنے کے لیے اس سے ڈرائیونگ لائسنس دروازے میں بنے خطوط ڈالنے کے سوراخ سے دکھانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس منظر میں کولکن کی اداکاری اتنی بے ساختہ اور جاندار تھی کہ اس فلم کا لکھاری اور ہدایت کار جان ہیوز سوچ میں پڑ گیا کہ کیوں نہ وہ اگلی فلم ایک بچے کے گھر میں اکیلے ہونے پر بنائے۔

چنانچہ اس نے یہ کہانی لکھی۔ فاکس سٹوڈیوز نے اس کی ہدایت کاری کا کام کرس کولمبس کے سپرد کیا۔ وہ جان ہیوز کی بات سے متفق نہ تھا کہ کولکن ہی اس فلم کا ہیرو بچہ ہو۔ اس نے کوئی ایک ہزار بچوں کا آڈیشن لیا تھا اور تب وہ بھی جان ہیوز سے متفق ہوا کہ واقعی کولکن کا انتخاب ٹھیک تھا۔ اگر آپ نے فلم کے شروع میں مچ مرفی نامی بچے کو دیکھا ہو جس کو غلطی سے کیون کی کزن، ہیدر، کیون گن لیتی ہے تو آپ کی اطلاع کے لیے بتاتے چلیں کہ وہ بھی کیون مک کیلسٹر کے کردار کے لیے آڈیشن دینے والے بچوں میں شامل تھا۔ اب ذرا سی دیر کے لیے اس تنگ کرنے والے بچے کو کولکن کی جگہ دیکھیے۔ کیا وہ اس طرح کی اداکاری کر سکتا تھا۔ ہر گرز نہیں۔ اگر وہ بچہ یہ کردار ادا کرتا تو فلم ہی بری طرح ناکام ہو جاتی۔

اس نئی فلم میں ایک بڑی خامی بے ساختگی کی ہے۔ مثال کے طور پر پہلی فلم کی ابتداء میں جب کیون کی بہن اسے فرانسیسی میں ”لیس انکمپیتوں“ یعنی بالکل ہی ناکارہ کہتی ہے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خود فرانسیسی زبان سیکھ رہی تھی۔ اور کیا آپ کو معلوم ہے کہ کیون جو کاغذ پر چوروں کے خلاف اپنا جنگی منصوبہ بناتا ہے۔ وہ جان ہیوز نے نہیں لکھا تھا۔ یہ خود کولکن کی اپنی اختراع تھی۔ اسی طرح جب کولکن چوروں کو اپنے گھر کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر کہتا ہے کہ بس اب تمھاری پیاس بجھ گئی یا ابھی مزید کی ضرورت ہے (یعنی ابھی مزید پٹائی کروں ) تو وہ بھی کولکن نے اپنی طرف سے اضافہ کیا تھا۔

جان کینڈی مرحوم نے گس پولنسکی کے کردار میں کیون کی والدہ کو جو واقعہ سنایا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ایک کفن دفن کرنے والے ادارے میں بھول گیا تھا تو یہ بھی اس نے اپنی جانب سے خود اضافہ کیا تھا۔ اسی طرح کیتھرین اوہار نے کیون کی ماں کا کردار نہایت بے ساختگی سے ادا کیا تھا کہ وہ کیون کی حقیقی طور پر پریشان حال ماں لگتی تھی حالانکہ پہلی دونوں فلموں کے وقت نہ تو اس کی شادی ہوئی تھی اور نہ کوئی بچے تھے۔ اس کی شادی سنہ 1992 ء میں دوسری فلم کے بعد ہوئی تھی اور بچے بھی بعد میں ہوئے تھے۔

یہ اور دیگر اداکاروں کی جانب سے اپنی طرف کے اضافہ جات فلم کو چار چاند لگا گئے تھے۔ جبکہ اس نئی فلم میں اداکاروں کی جانب سے اپنی طرف سے کسی منظر میں بہتری کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آئی۔ ایلسنگ بیا جو اس فلم میں میکس کی ماں بنی ہیں، نے اپنے سکاٹش لہجے کو برطانوی تو کر لیا لیکن سکاٹ لوگوں کی بیٹھی ہوئی مخصوص آواز کو تبدیل نہ کر سکی اور فلم میں اس کا کردار میکس کے بھول جانے پر پریشان سے زیادہ غصے والا لگتا ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ماں بیٹے کو ایک ساتھ سکرین پر وقت بھی بہت کم دیا گیا ہے حالانکہ ہوم الون فلموں کا ایک اہم حصہ ماں اور بیٹے کا بہت مضبوط تعلق بھی ہوتا ہے۔

یہ فلم اتنی بری ثابت ہوئی ہے کہ اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے اس سال دو دفعہ اصل ہوم الون دیکھنا پڑے گی۔

میری کرسمس *************اینڈ اے ہیپی نیو ایئر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments