امریکہ آنے والے سٹوڈنٹس کی تعداد میں کمی کیوں آنے لگی؟


امریکی ادارے دی انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اور یو۔ ایس ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹس، بیورو آف ایجوکیشن اینڈ کلچرل آفئیرز ہر سال دینا بھر سے تعلیم کی غرض سے امریکہ آنے سٹوڈنٹس کے متعلق اپنی تفصیلی رپورٹ دسمبر کے مہینے میں جاری کرتے ہیں۔ رواں ماہ جاری کی جانے والی ”اوپن ڈورز“ رپورٹ کے مطابق سال 2020۔ 2021 کے دوران مجموعی طور پر دینا بھر سے نو لاکھ چودہ ہزار پچانوے ( 914095 ) طلباء تعلیم کی غرض سے امریکہ آئے۔ ہر سال ایسے طلباء عام طور پر ایف، جے اور ایم ویزہ کیٹگریز پر امریکہ پڑھنے کے لیے آتے ہیں۔

یہ تعداد گزشتہ تعلیمی سال 2019 / 2020 کے مقابلے میں پندرہ فیصد کم رہی۔ گزشتہ تعلیمی سیشن میں امریکہ آنے والے ایسے طلباء کی مجموعی تعداد دس لاکھ پچھتر ہزار چار سو چھیانوے ( 1075496 ) تھی۔

گزشتہ سالوں کی طرح اس بار بھی چین اور بھارت کے طلباء سر۔ فہرست رہے جن کے سب سے زیادہ سٹوڈنٹس امریکہ پہنچے۔ چین سے تین لاکھ سترہ ہزار دو سو ننانوے ( 317229 ) جبکہ بھارت سے ایک لاکھ سرسٹھ ہزار پانچ سو بیاسی ( 167582 ) طلباء امریکہ پڑھنے کے لیے آئے۔ ایک لاکھ اکسٹھ ہزار چار سو ایک ( 161401 ) کم آنے والے طلباء کے متعلق یہی بتایا گیا ہے کہ ایسا 2020 / 21 میں کرونا، (کوڈ۔ 19 ) کی وجہ سے ہوا ہے۔

پاکستان کے حوالے سے ایک بات حوصلہ افزاء رہی وہ یہ کہ 2020 / 21 کے دوران پاکستان سے ( 7475 ) طلباء امریکہ آئے۔ اس سال امریکہ سٹوڈنٹس بھیجنے والے ٹاپ 25 ممالک میں پاکستان کا نمبر 18 واں ہے۔ جبکہ گزشتہ سال 2019 / 20 کے تعلیمی سیشن میں پاکستان کا 7939 طلباء کے ساتھ ٹاپ 25 میں 22 واں نمبر تھا۔ اس لحاظ سے پاکستان سے 465 یعنی ( 5.8۔ ) کم طلباء امریکہ آئے۔ چونکہ دوسرے ممالک سے امریکہ آنے والے طلباء کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آئی۔ اس لیے پاکستان سے کم طلباء آنے کے باوجود پاکستان کی ٹاپ 25 میں پوزیشن بائیس سے اٹھارہویں نمبر پر آ گئی ہے۔

مجموعی طور پر پندرہ فیصد کم سٹوڈنٹس امریکہ آنے کی وجہ سے اس سے جڑے اسٹیک ہولڈرز کو دس بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

اوپن ڈورز کی رپورٹ کے مطابق نئے آنے والے طلباء کی تعداد میں کمی کی وجہ سے امریکہ کے بعض کالجوں اور یونیورسٹیوں میں 45.6 فیصد تک کمی دیکھنے کو ملی۔ صرف دو ممالک چین اور بھارت سے جہاں سب سے زیادہ طلباء امریکہ آتے ہیں۔ تاہم وہاں سے بھی بلترتیب 14.8 اور 13.2 فیصد کم سٹوڈنٹس امریکہ پہنچے۔

اسی طرح امریکہ سے بھی ہر سال ایک کثیر تعداد میں سٹوڈنٹس دنیا کے دوسرے ممالک میں تعلیم کی غرض سے جاتے ہیں۔ امریکی طلباء کی زیادہ تر دلچسپی کے ممالک میں میں یورپی ممالک سر فہرست آتے ہیں۔ 2020 / 21 کے سال میں بہت کم امریکی سٹوڈنٹس تعلیم کے لیے دوسرے ممالک میں گئے۔ صرف ایک لاکھ باسٹھ ہزار چھ سو تینتیس ( 162633 ) امریکی طلباء تعلیم کے لیے دوسرے ممالک گئے۔ جبکہ گزشتہ سال 2019 / 20 میں ایسے طلباء کی تعداد تین لاکھ سنتالیس ہزار ننانوے ( 347099 ) تھی۔ تقریباً ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد طلباء کی کمی دیکھنے میں آئی۔

امریکہ آنے والے ٹاپ 25 طلباء فہرست میں چین اور بھارت کے بعد تیسرا نمبر ساؤتھ کوریا کا ہے جہاں سے انتالیس ہزار چار سو اکانوے ( 39491 ) طلباء امریکہ کے مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخل ہوئے۔ دیگر ممالک میں کینیڈا سے ( 25143 ) ، سعودی عرب سے ( 21933 ) ، ویت نام سے ( 21633 ) ، تائیوان سے ( 19673 ) ، بریزائل سے ( 14000 ) ، میکسیکو سے ( 12986 ) نائجیریا سے ( 12960 ) جاپان ( 11785 ) ، نیپال سے ( 11172 ) ، ایران سے ( 9614 ) ، بنگلہ دیش سے ( 8598 ) ، ترکی سے ( 8109 ) ، انگلینڈ سے ( 8028 ) ، انڈونیشیا سے ( 7489 ) ، پاکستان سے ( 7475 ) ، کولمبیا سے ( 7107 ) ، کویت سے ( 6846 ) ، وینزویلا ( 6122 ) ، ہانگ کانگ ( 5878 ) ، سپین ( 5781 ) ، فرانس ( 5643 ) ، اور جرمنی سے ( 5363 ) سٹوڈنٹس امریکہ آئے۔

امریکہ آنے والے سٹوڈنٹس میں نمایاں کمی کی وجہ کرونا (کوڈ۔ 19 ) کے علاوہ کئی ایک دیگر وجوہات بھی ہیں جن میں کئی ممالک کے طلباء گزشتہ چند سالوں سے اب امریکہ کے مقابلے میں دیگر ممالک جیسے، کینیڈا، آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور چین کو بھی زیادہ ترجیح دینے لگے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود اکثر ممالک کے طلباء و طالبات کوالٹی ایجوکیشن سمیت دیگر وجوہات کی بنا پر اب بھی امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے دیوانے نظر آتے ہیں۔

عام طور پر خیال یہ کیا جاتا ہے ہے کہ ایسے ممالک کی ویزا سمیت دیگر پالیسیاں امریکہ کے مقابلے میں نسبتاً نرم ہیں۔ جبکہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ بعض پابندیوں کے باوجود جتنی آسانی سے جینوئن سٹوڈنٹس کو امریکی ویزا اب مل جاتا ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

کئی دہائیوں سے امریکی یونیورسٹیوں میں آنے والے غیر ملکی سٹوڈنٹس یہاں کی معاشرت میں جدت اور یہاں کے کلچر میں آگے رہے ہیں۔ امریکہ میں وسیع تکنیکی اور سماجی ترقی ان غیر ملکی طلباء کی طرف سے پیدا کی گئی جو تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ آئے اور پھر گوگل، ٹیسلا، جانسن اینڈ جانسن، اے ٹی اینڈ ٹی اور ٹیکساس انسٹرومنٹس جیسی دیگر کمپنیاں بنائیں یا پھر ان میں کام کیا۔

ریسرچر، کمپیوٹر سائنس میں پی۔ ایچ ڈی اور نیویارک کی سنٹ جان یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر و ڈائریکٹر آف ہیلتھ کیئر انفارمیٹیکس، ڈاکٹر سید احمد چن بخاری کا کہنا ہے کہ امریکی کالجز اور یونیورسٹیوں میں غیر ملکی طلباء کے داخلوں میں کمی کی دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں امریکہ میں تعلیم گزشتہ کئی سال سے بہت مہنگی ہو گئی ہے۔ تعلیم کا حصول سکالرشپس کے بغیر بہت مشکل ہو گیا ہے۔ جبکہ کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپ کے بعض ممالک میں طلباء کے اخراجات امریکہ کے مقابلے میں کم ہیں۔

پروفیسر بخاری کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ویزا کے حصول میں بھی طلباء کو کئی طرح کی غیر ضروری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں چین نے اپنا تعلیمی نظام کافی حد تک بہتر بنایا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سے غیر ملکی سٹوڈنٹس اب وہاں کا رخ کرنے لگے ہیں۔ تیسری ایک بڑی وجہ امریکہ میں پوسٹ ایجوکیشن کے بعد کے حالات ہیں۔ ڈگری کی تکمیل کے بعد او۔ پی۔ ٹی (آپشنل پریکٹیکل ٹریننگ) اور کام کرنے کا ورک پرمٹ تو مل جاتا ہے۔ مگر امیگریشن کے حصول کے لیے پہلے ایچ ون۔ بی پر ملازمت اور پھر گرین کارڈ کا حصول ایک مشکل اور سال ہا سال پر محیط ایک صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔

ایک اور اہم وجہ ”وائٹ سپر میسی“ کے نعرے اور خصوصاً سابق امریکی صدر ٹرمپ کے بعض اقدامات کی وجہ سے امریکی امیج دینا بھر میں کافی متاثر ہوا ہے جس کی وجہ سے اب بعض سٹوڈنٹس دوسرے ممالک کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ پروفیسر بخاری کے خیال میں اگر یہ ساری چیزیں ریورس کر لی جائیں تو مرحلہ وار حالات میں کافی بہتری لائی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments