کچھ نور جہاں کے بارے میں


21 ستمبر 1926 کو پیدا ہونے والی اللہ وسائی کی 23 دسمبر 2021 کو ، اکیسویں برسی ہے۔ وہ کوٹ مراد خان ضلع قصور میں مدد علی اور فتح بی بی کے گھر پیدا ہونے والے 11 بچوں میں سے ایک تھیں۔ وہ اپنی بہنوں عیدن بائی، حیدر بندی، گلزار بیگم اور اندام بیگم میں سب سے چھوٹی تھیں۔ پانچ یا چھے سال کی عمر سے ہی ان کی گانے میں دلچسپی عیاں تھی۔ کم عمر اللہ وسائی اپنی قابلیت کے پیش نظر اپنی ماں کی خاص توجہ کی مستحق ٹھہریں۔ اللہ وسائی، جنہیں آنے والے سالوں میں ملکہ ترنم نور جہاں بن کر مشرقی موسیقی کے آسمان کا چاند ہونا تھا، اپنی دیہاتی ماں سے تربیت حاصل کرنے لگیں۔

ان کا کیرئیر 60 سال سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہونے والا تھا۔ وہ ایک گلوکارہ، اداکارہ اور ہدایت کارہ تھیں۔ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے عظیم ترین موسیقاروں میں سے ایک تھیں۔ وہ پاکستان کی پہلی خاتون فلم ہدایتکار اور پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ گانے گانے والی صداکار بھی تھیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک ایسی تربیت کار اور عظیم استاد بھی تھیں جنہوں نے خود سے صرف ایک ہفتہ چھوٹی لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے سمیت برصغیر کی خوبصورت ترین آوازوں کو پروان چڑھایا۔

وہ ہندوستانی موسیقی کے پٹیالہ گھرانے سے تعلق رکھنے والی مشہور غزل گائیکہ، مختار بیگم، جو بذات خود اردو کے مشہور ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری کی زوجہ تھیں، کی سرپرستی میں بھی رہیں۔ اپنی پیشرو کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے عمر کے آخری حصے میں وہ انہیں کی طرز پہ ساڑھی پہنا کرتیں۔ کلکتہ میں ان کی شہرت کی وجہ سے انہیں پنجاب میل (پنجاب سے آنے والی ریل گاڑی) بھی کہا جاتا۔ اپنی پہلی فلم ”پنڈ دی کڑی ( 1935 )“ میں اپنی کم عمری کی وجہ سے انہیں بے بی کہا جانے لگا۔

بطور ہیروئن ان کی پہلی فلم خاندان 1942 میں آئی۔ اس فلم کے تخلیق کار اور ہدایت کار کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ 15 سالہ بے بی نور جہاں، جن کا کردار ایک بچے کے طور پر ناظرین کے ذہنوں میں نقش ہو چکا تھا، کو کیسے بطور نوجوان ہیروئن پردے پر پیش کریں؟ تاہم نور جہاں کے بھاری ڈیل ڈول اور بھری پری جسامت نے یہ مشکل آسان کر دی۔ یہ اس فلم کے ہدایت کار شوکت حسین رضوی کی بھی پہلی فلم تھی جنہوں نے بعد میں نور جہاں سے شادی کر لی۔

1945 میں اپنی فلم ”بڑی ماں“ کی شوٹنگ کے دوران وہ عدم اعتماد کا شکار، کم گو اور گمنام، لتا منگیشکر کو گانا گانا سکھایا کرتیں۔ لتا کو خود اعتمادی سے نوازنے کے لیے انہوں نے فلم کے اراکین کے سامنے لتا کی تعریف ان الفاظ میں کی، ”میرے الفاظ یاد رکھیے گا، یہ لڑکی ایک دن عظیم گلوکارہ بنے گی“ ۔ ان کے الفاظ نے 36 سے بھی زیادہ جنوبی ایشیائی زبانوں میں 1000 سے زیادہ فلموں کے لیے 50000 سے زیادہ گانے گانے والی لتا کو شہرت کی بلندیوں سے نواز دیا۔ آج بھی لتا منگیشکر کے اولین گانوں میں اللہ وسائی ملکہ ترنم نور جہاں کا اثر چھلکتا نظر آتا ہے۔ ان کی وفات پہ لتا منگیشکر کا کہنا تھا کہ نور جہاں ہمیشہ سے ترنم کی ملکہ تھیں اور ہمیشہ رہیں گی۔

1947 میں وہ فلم ”جگنو“ میں ٹریجڈی کنگ، بالی وڈ کے پہلے خان، پشاور سے تعلق رکھنے والے یوسف خان المعروف دلیپ کمار جو ہندوستانی سینما میں ابھی اپنی جگہ بنانے کی جدوجہد کر رہے تھے، کے ساتھ جلوہ گر ہوئیں۔ اسی فلم میں نور جہاں نے بھارتی سینما کے سب سے بڑے پس پردہ صداکاروں میں سے ایک، محمد رفیع، جو اس وقت اپنی پہچان بنا لینے سے ابھی کوسوں دور تھے، کو پہچان دی۔ متحدہ ہندوستان میں ان کی آخری فلم، تحصیل سمندری ضلع فیصل آباد، اس زمانے کے لائل پور جسے ہندوستان کا سب سے بڑا گاؤں بھی کہا جاتا تھا، سے تعلق رکھنے والے پرتھوی راج کپور (راج کپور، ششی کپور اور شمی کپور کے والد، رشی اور رندھیر کپور کے دادا اور کرشمہ اور کرینہ کپور کے پردادا) ، جن کے والد بشیشور ناتھ کپور اور دادا کیشوامل کپور سرکاری ملازم تھے اور جن کی اولاد نے بالی وڈ کے سب سے بڑے خاندان، کپور خاندان، پر مشتمل ہونا تھا، کے ساتھ تھی۔

پاکستان ہجرت کے بعد انہوں نے چند فلموں میں اپنے جوہر دکھانے کے بعد فلم سے کنارہ کشی اختیار کر لی کیونکہ اب تک وہ چھے بچوں کی ماں بن چکی تھیں اور ان کی خاندانی ذمہ داریاں بڑھ گئیں تھیں۔ تاہم انہوں نے صداکاری جاری رکھی۔ فیض جیسے عظیم شعراء کی شاعری کو اپنے ترنم سے دوام بخشنے کے علاوہ انہوں نے اپنے وقت کے بہترین موسیقاروں، جن میں احمد رشدی، مہدی حسن، مسعود رانا، نصرت فتح علی خان، مجیب عالم اور عالم لوہار شامل ہیں، کے ساتھ کام کیا۔ انہوں نے براہ راست کنسرٹس میں استاد سلامت علی خان، استاد فتح علی خان اور روشن آراء بیگم کے ساتھ بھی فن کا مظاہرہ کیا۔ نہ صرف یہ بلکہ 1991 میں وہ البرٹ ہال لندن میں فن موسیقی کا مظاہرہ کرنے والی پہلی پاکستانی فنکارہ بھی تھیں۔

1982 میں ان کے اولین دورہ بھارت پہ بھارتی وزیراعظم اندرا (پریادرشنی) گاندھی نے دہلی میں بذات خود ان کا استقبال کیا۔ بمبئی میں ان کے استقبال کے لیے لتا منگیشکر، فلمساز و موسیقار نوشاد، بیگم سردار اختر، سائرہ بانو اور دلیپ کمار جیسے ستارے موجود تھے۔ 35 برس بعد بھی ان کی دمک ماند نہیں پڑی تھی۔ بمبئی کے سحر (موجودہ چھتراپتی شیواجی مہاراج) ہوائی اڈے پر ان کے قدم رکھتے ہی فضا screen goddess کے نعروں سے گونج اٹھی۔ ہندی سینما کے 50 سال پورے ہونے کی خوشی میں شان مکھ نندا ہال میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس کی وہ مہمان خصوصی تھیں۔

آج علاقے کے پروقار ضلع کونسل ہال میں بیٹھے دو اعلیٰ سرکاری حضرات ان کی برسی کی خبروں پہ بات کر رہے تھے۔ ٹی وی پہ چلتی خبروں کو دیکھ کر ایک صاحب استہزائیہ انداز میں گویا ہوئے، ”اور چلاؤ اس کی موسیقی، اس کے گانے تاکہ اس کی مغفرت ہو۔“ یہ سن کر اعلیٰ شخصیات پر مشتمل سامعین زور سے ٹھٹھا لگاتے ہیں اور ان کے بیچ بیٹھے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے پاکستان کے پرچم میں موجود سفید رنگ جھلملا جاتا ہے۔ جانے کیوں میں جو گندرا ناتھ منڈل سے لے کر جنید حفیظ اور مشعل خان سے لے کر پریانتھا دیاوردنا کمارا کو سوچنے لگتا ہوں۔

نا چاہتے ہوئے بھی میری یاداشت میں وہ واقعہ تازہ ہو جاتا ہے جب ان کے اس بیان پر کہ وہ موسیقی کو عبادت سمجھتی ہیں، لاہور کے ایک معروف مذہبی ادارے کے مفتی اعظم نے ان پر توہین مذہب کا فتویٰ صادر کر دیا۔ یہ بتلانا کہ پاکستانی معاشرے میں مبینہ توہین مذہب کی سزا کم از کم بھی کیا ہو سکتی ہے، بالکل اسی طرح بلا ضرورت ہے جیسے ان کی اس وضاحت کو کہ ہر شخص کو اپنے کام کے ساتھ اپنے مذہب کی طرح مخلص ہونا چاہیے، کو بلا ضرورت سمجھا گیا۔

تفصیل برطرف، اگر قصور کی اللہ وسائی، ملکہ ترنم اور نور جہاں بن سکتی ہے تو آپ بھی زندگی میں وہ سب کر سکتے ہیں جس کے خواب آپ نے دیکھے ہیں۔ اللہ وسائی کی کہانی ہمیں طاقت دیتی ہے کہ ہم کبھی نہ جھکیں، ہمیشہ دوسروں کے لیے با سہولت بنے رہیں اور انہیں آگے بڑھنے میں مدد کریں۔ دوسروں کی ٹانگ کھینچنے کی بجائے ان کا بازو پکڑیں۔ انہیں ان کی رفعتیں چھو لینے کے لیے اپنا کندھا پیش کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments