کلیسا, صیہونی طاقتیں اور انقلاب فرانس


قرون وسطیٰ میں یورپ میں جو اجتماعی نظام اس وقت غالب تھا وہ جاگیر دارانہ نظام تھا. دولت کا ارتکاز عوام میں فقط تین گروہوں کی طرف ہو ریا تھا. جاگیر دار, کلیسا اور صیہونی ساہو کار. یقینی طور پر یہ اس وقت کا سرمایہ دارانہ نظام تھا. عوام پوری طرح سے اس استحصالی نظام کا شکار تھی. جہاں ایک طرف کسان بمشکل گزارہ کرتے تھے, ان سے اکثر بلا معاوضہ کام کروایا جاتا تھا اور جو معاوضہ دیا جاتا وہ بھی صرف جسم اور جان کا تعلق برقرار رکھتا تھا. کسی مزارعے کو نقل مکانی کی اجازت نہ ہوتی تھی. دوسری طرف کلیسا کے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے مذہبی پیشوا بخشش کے پروانے بانٹتے اور وہ خود جاگیروں کے مالک جب کہ عوام کو راہبانہ زندگی گزارنے کا کہتے, اور تیسری طرف صیہونی ساہوکار تھے جو عوام کو سود پر قرضے دیتے تھے. چونکہ یہ لوگ عوام کے دکھوں کا ظاہری طور پر مداوا کرتے تھے اس لیے عوام ان کے اصل منصوبوں سے بے خبر تھی. ایسے میں بادشاہ لوگ اپنی حکمرانی کے نشے میں ڈوبے ہوئے تھے. بادشاہ لوگ جاگیرداروں پہ بھاری ٹیکس لگاتےاور یہ دونوں مل کے عوام کا استحصال کرتے تھے. سونے پر سہاگہ کہ جغرافیائی اعتبار سے فرانس اسلامی اندلس سے متصل تھا. صلیبی جنگوں کی وجہ سے عام عوام مسلمانوں کے عادلانہ نظام کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے. تو یہ وہ عوامل تھے جو انقلاب فرانس کی وجہ بنے.
اس طرح کسانوں کا پہلا انقلاب سترہویں صدی میں آیا. اگرچہ یہ کلیسا نے ناکام کروایا مگر عوام میں تبدیلی کی لہر چل چکی تھی. کلیسا نے جاگیر دارانہ غلامی کو قدیس تھامس اکوینی کے ذریعے سے ختم کروانے کی کوشش کی. اس کا نظریہ یہ تھا کہ انسان آدم کی خطا کی بنا پر پیدائشی غلام ہے. ویلز کے مطابق عوام اصل میں میں دین کے خلاف نہیں تھی بلکہ کلیسا کے کرتا دھرتا کی عیاشی کے خلاف تھی. دوسری تحریک مارٹن لوتھر کی تھی جس نے انجیل کا ترجمہ کیا. اگرچہ لوتھر خود بھی جاگیرداری کے حق میں تھا اور ایسے باغیوں کو واجب القتل قرار دیتا تھا مگر اب حالات بدلتے جارہے تھے. پھر نت نئی ایجادات سے شہر آباد ہونے لگے اور کارخانے لگنے لگے. اور یہ کارخانے لگانے واے کوئ اور نہیں بلکہ خود صیہونی ساہوکار تھے. ایسے میں انقلاب برپا ہونا ان کے حق میں تھا. اس انقلاب میں کسان, محنت کش, چھوٹے پادری سب شامل تھے. ایسے میں ایک ایسی ریاست وجود میں آئ جس میں حاکمیت عوام کی نہ کہ اللہ کی, جس کا مذہب قومیت نہ کہ مسیحت, جس کا اخلاق شخصی جس کی آزادی انفرادی نہ کہ مزہبی بندشوں میں پابند ذندگی. اس انقلاب نے جاگیریں لوٹ لیں, راہبانیت ختم کروادی, مذہب کو ریاست سے جدا کر دیا, کلیسا کا جاہ و جلال ختم کردیا.
اس لادینیت سے تین مکاتب فکر سامنے آئے. اول علمی مکتبہ فکر جس کے لکھاریوں نے انسائکلوپیڈیا ترتیب دیا. دوسرا معاشرتی اور سیاسی مکتبہ فکر جس کے قائد روسو اور مونٹیسکو تھے. ان کے نظریات افلاطون کی جمہوریت, تھامس مور کی یوٹوپیا سے اخذ شدہ تھے. تیسرا گروہ عقل اور فطرت پرست لوگوں کا تھا. جن میں میکیاولی اور سپائ نوزا کے نظریات پیش پیش تھے. والٹیر نے فطری دین کی تکمیل کی. پھر جرمن فلاسفر کانٹ, ولیم گاڈون کے نظریات بھی زیر بحث تھے. چنانچہ عوام کو پیسہ کارخانوں کے مالک دیتے اور افکار فلاسفر دیتے. ایسے میں ان پڑھ لوگ فلسفیانہ موشگافیوں کو تو سمجھ نہ پاتے مگر یہ ضرور سمجھ لیتے کہ اپنے حقوق کیسے چھیننے ہیں.
تب عوام میں ایک نعرہ مقبول تھا فقط روٹی. بعد میں مزید نعرے شامل ہوئے جیسا کہ حریت, مساوات اور اخوت. اس سے بڑھ کر کہ رجعت پسندی کو ختم کیا جائے مطلب مذہب کو ختم کیا جائے. اس آخری نعرے کا مقصد کلیسا کی طرف سے صیہونی تعصب کو زائل کرنا تھا. حقیقت تو یہ ہے کہ صیہونیوں پر کلیسا کی طرف سے مظالم بھی بہت ہوئے. دوسری طرف صیہونی اپنی کتاب تلمود پر عمل پیرا تھے. اپنے آپ کو خدا کی سب سے افضل قوم سمجھتے تھے اوراب بھی سمجھتے ہیں. فرانس میں یہ لوگ حقیر سی اقلیت میں تھے. علم, عقل, پیسہ سب میں بہت آگے تھے. ان کے پاس سب کچھ تھا سوائے ایک ریاست کے. اسی ریاست کی تکمیل کے لیے یہ سب کھیل کھیلےگئے. صیہونی طاقتیں ہر مجلس میں داخل ہوئیں. معاشرے کے ہر ہر پہلو پر دھیان دینے لگے. جن کو پروٹو کولز میں پڑھا جاسکتا ہے.
انقلاب فرانس کے بعد تو پورے یورپ میں انقلابات جوالہ مکھی کی طرح ابل پڑے. پھر سیاست کیا, قانون کیا, اقتصاد کیا, علم کیا, معاشرت کیا, عورت کیا, ادب و فن کیا گویا ہر شعبہ زندگی یکسر تبدیل ہو گیا. اب مذہب صرف اتوار کے دن چھٹی منانا اور چرچ جاکر چند ایک رسومات کر کے واپس آجانے تک محدود ہوگیا. مذہب فقط ذاتی معاملہ بن کر رہ گیا اور اجتماعیت سے غائب ہو گیا. اب ہر وہ کام شروع ہو گیا جس کی شریعت میں ممانعت تھی. شریعت کی بجائے آئین بنے, سود حرام تھا تو حلال ہوگیا, حاکمیت اللہ کی بجائے انسان کی ہوگئ, دنیا کے خالق کے قوانین کی بجائے سائنس اور عمرانیات کے قوانین بنائے گئے, عورت جو چار دیواری کے اندر پردہ کرکے رہتی تھی وہ کارپوریٹ سیکٹر کی زینت بن گئ (جاری ہے)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments