ملکہ ترنم نورجہاں: ایک طلسماتی شخصیت


صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی ( 1965 )

تمغہ امتیاز ( 1965 )

ستارہء امتیاز ( 1996 )

اور

15 سے زیادہ نگار ایوارڈ حاصل کرنے والی

اپنی نوعیت کی اپنی مثال آپ

سحر انگیز طلسماتی شخصیت

ملکہ ء ترنم نورجہاں

21 ستمبر 1926 سے 23 دسمبر 2000

میڈم نورجہاں بلا شبہ ایک طلسماتی شخصیت تھیں۔ بہت ساری باتیں ایسی نہیں ہیں جیسی ان کے بارے میں کہی جاتی ہیں۔ ٹھیک ہے انہوں نے جلالی طبیعت پائی تھی لیکن مجھے گلوکارہ مہنازنے خود بتایا : ”ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ تمام وقت ہی غصہ ناک پر دھرے گھومتی رہتی تھیں۔ وہ میری استاد بھی تھیں“۔ یہ طے ہے کہ اُن میں پیار محبت اور غصہ برابر برابر موجود تھا۔ کسی کے لئے مدد کو آئیں تو تمام اصول و قاعدے اور مروجہ طریقے ایک طرف رکھ کر کام کروا لیتی تھیں۔ کسی کا حقہ پانی بند کرنا ہو تو اللہ کی پناہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج میں اِ س طلسماتی شخصیت کے کچھ واقعات پیش کرتا ہوں۔ کچھ کا تو میں خود عینی شاہد ہوں اور کچھ مستند اور معتبر فلمی لوگوں نے بتائے۔ میڈم کا اپنا ایک مقام ہے اس خاکسار کی تحریر سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ اِن کے مقام کو کم کیا جا رہا ہے۔ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ چند واقعات کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اپنی مثال آپ تھیں۔ پاک و ہند میں ایسی دبنگ اور کرشماتی شخصیت ڈھونڈے نہیں ملے گی۔

میرا علی سفیان آفاقی سے ملنا:

یہ خاکسار ملک کے معروف موسیقار نثار بزمی کا مشکور ہے کہ انہوں نے مجھے علی سفیان آفاقیؔ سے ملوایا۔ اُن سے یہ میرا ملنا نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ اِس وقت جو آپ یہ سطور پڑھ رہے / رہی ہیں وہ اُن کی اِس کمتر پر نظرِ عنایت اور حوصلہ افزائی کی مرہونِ منت ہی ممکن ہوا ہے۔ یہ سب بہت ہی عظیم لوگ تھے۔ ’فیملی میگزین‘ جِس دِن پریس میں جاتا، میں اُس سے اگلے روز آفاقیؔ صاحب کے دفتر میں چلا جاتا۔ وہ اکثر اِس ناچیز کو وقت دیتے۔ راقِم نے اُن سے بہت کچھ سیکھا۔ وہ اخبا ر ’آفاق‘ کی مناسبت سے آفاقی کہلاتے تھے۔ لیکن مجھے تو وہ خود ایک آفاق نظر آئے۔ کیا ادارت، کیا فیچر، کیا رپورٹنگ، کیا منظر نامہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماشا اللہ! کتنا اچھا حافظہ پایا تھا۔ اندازِ بیان ایسا بیساختہ کہ جناب کیا ہی کہنے۔

بات سے بات پھر اس بات کے اندر سے بات نکالنے کا اُنہیں ملکہ حاصل تھا۔ علی سفیان آفاقیؔ نے ملکہ ء ترنم نورجہاں کا کوئی ذکر کبھی اداکار اور فلمسازاعجاز درانی کے بغیر نہیں کیا۔ گھوم پھر کر اِس پر بات پر آجاتی کہ یہ دونوں میاں بیوی جہاں جاتے، جدھر بھی بیٹھتے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے ہوئے ہوتے۔ دونوں کا یہ انداز کبھی بھی نہیں بدلتا تھا۔ آفاقیؔ صاحب کے بقول ”ایسا لگتا جیسے میڈم نے اعجاز کو پکڑ رکھا ہے اور اعجاز بھاگنے یا ہاتھ چھُڑانے کی کوشش کر رہے ہیں“۔

اُس زمانے کی تصویروں میں اپنے شوہر اعجاز کے لئے میڈم کی آنکھوں میں وارفتگی صاف نظر آتی ہے۔ اُس دور کے لوگ ( جیسے ہدایتکار داؤد بٹ ) جو اللہ کے فضل سے ابھی حیات ہیں، بتاتے ہیں کہ نورجہاں اعجاز کی ہر بات مانتی تھیں۔ اعجاز سے اس قدر لگاؤ اور التفات نے بار ہا اُن کی ’انا‘ اور ’رعب‘ پر کاری ضرب لگائی۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ میڈم کبھی کسی کے آگے جھکیں نہ اپنی مرضی کے خلاف کوئی بات ہونے دی۔ علی سفیان آفاقیؔ، داؤد بٹ صاحب اور دوسرے ہم عصر کہتے ہیں : ”میڈم نے اپنے شوہر اعجاز کے لئے اپنے تمام اصول ایک طرف لپیٹ کر رکھ دیے تھے“۔ آپ خود اندازہ لگائیے کہ نورجہاں جیسی شدید ترین ردِ عمل دینے والی شخصیت نے اداکارہ فردوس اور اپنے شوہر اعجاز کی دوستی کس طرح ٹھنڈے پیٹوں برداشت کی ہوگی! وہ اعجاز جو میڈم پر مرے جاتے تھے ابانہوں نے میڈم کی حاکمیت اور چودھراہٹ کو جوتے کی ٹھوکر سے اُڑا دیا۔

فلم ”ہیر رانجھا“ میڈم نورجہاں، فردوس اور اعجاز

آفاقیؔ صاحب نے 2008 میں فیملی میگزین کے دفتر میں مجھے خود بتایا : ”جب اعجاز نے فلمساز کی حیثیت سے فردوس کو ہیروئن لے کر فلم“ ہیر رانجھا ” ( 1970 ) بنانے کا اعلان کیا تو میڈم نورجہاں نے ڈنکے کی چوٹ کہا کہ وہ اس فلم کے لئے گانے نہیں گائیں گی“۔ میڈم کو اس بات کا علم تھا کہ مذکورہ فلم کے ہدایتکار مسعود پرویز اور موسیقار خواجہ خورشید انور ہیں۔ یہ دونوں ہی دبنگ افراد تھے۔ میڈم کو اپنے ذرائع سے مکمل معلومات مل رہی تھیں کہ اعجاز اور فردوس کے علاوہ اس فلم میں منور ظریف، زمرد وغیرہ بھی کام کریں گے۔

یہ بھی معلوم تھا کہ اعجاز کے ساتھ مسعود پرویز بھی شریک فلمساز ہیں۔ فلم کے گیتوں کے بارے میں وہ علم رکھتی تھیں کہ تمام گیت اور فلم کے مکالمے احمد راہی لکھ رہے ہیں۔ یہ بھی کہ خواجہ صاحب نے گیتوں کی اچھی خاصی رسیلی دھنیں بنائی ہیں۔ اُن کو یہ اطلاع بھی پہنچ گئی تھی کہ اس فلم کے ڈانس ڈائریکٹر حمید چوھدری ہیں۔ یہ بھی کہ فلم مکمل ہونے کے بعد ضمیر قمر صاحب سے ایڈیٹ کروائی جائے گی۔ گانوں کی صدا بندی کے لئے میڈم کے ذرائع نے ان کو بتا دیا تھا کہ یہ کام معروف ساؤنڈ ریکارڈسٹ سی منڈوڈی صاحب اور واجد علی شاہ کریں گے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب جب یہ گیت میڈم نے نہیں گانے تھے تو خواجہ صاحب نے کس گلوکارہ کو سامنے رکھتے ہوئے دھنیں بنائی تھیں؟ اور یہ کہ ایسا کیا ہوا جس نے میڈم کے اس فلم میں فردوس کے لئے گانا نہیں گانے کے اعلان کو واپس لے کر کھلے عام اپنی شکست تسلیم کروائی؟

پاکستانی فلمی دنیا کی واحد انہونی مثال:

اس سے آگے کی بات مجھے ایور نیو فلم اسٹوڈیوز میں اُس وقت کے متحرک افراد نے بتا ئی۔ خواجہ صاحب نے فردوس پر فلمائے جانے والے گانے خصوصی طور پر میڈم کے لئے ہی کمپوز کیے تھے۔ اُن کے ذہن میں اندر کہیں یہ بات محفوظ تھی کہ خواہ کچھ بھی ہو وہ گانے نورجہاں ہی گائیں گی۔ بہر حال اُن گانوں کی ریہر سل کے لئے مالا کو کہا گیا۔ مجھے ان تمام واقعات کے شاہدین نے بتایا کہ مالا سب سے پہلے خود چل کر نورجہاں کے پاس پہنچیں اور تمام ماجرا سُنایا کہ یہ گانے بنے تو آپ کے لئے تھے لیکن مجھے ان کو گانے کا کہا جا رہا ہے۔ اب آپ کے پاس آئی ہوں۔ بتائیے کیا کروں؟ میڈم نے مالا کو یہ گانے، گانے اجازت دے دی۔ ریکارڈنگ والے روز جب میوزیشن اپنے ساز درست کر رہے تھے اور مالا ریکارڈنگ کے لئے تیار ہو رہی تھی تو اچانک میڈم آندھی طوفان کی طرح جلالی کیفیت میں ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں داخل ہوئیں۔ لوگ دم بخود ہو گئے۔ مالا کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے ہی رہ گیا۔ سب سے پہلے میڈم نے مالا کو یہاں سے چلے جانے کو کہا۔ وہ بے چاری ’جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو‘ پڑھتے ہوئے سر پر پیر رکھ جو بھاگی تو پھر مُڑ کر نہیں دیکھا کہ پیچھے والوں کا کیا ہوا۔

۔ ۔ ۔ ۔ میڈم سیدھا خواجہ صاحب کے پاس پہنچیں اور کہا : ”خواجہ صاحب گانا بتائیں کون سا گانا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ خواجہ صاحب نے کسی قسم کا کوئی ردِ عمل نہیں ظاہر کیا۔ گویا وہ جانتے ہوں کہ اب ایسا ہی ہو گا۔ بہر حال گانا بتایا گیا اور میڈم صدابندی کے لئے تیار ہو گئیں۔ یوں میڈم نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی آن اور انا کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی طے ہو گیا کہ فردوس اعجاز کو جس قدر چاہتی تھی اُس سے کئی درجے زیادہ میڈم اعجاز کو چاہتی تھیں۔

اعجاز کی خاطر میڈم نے گویا آگے بڑھ کر خوش دلی سے اپنی شکست مان لی۔ اعجاز سے علیحدگی کے بعد بھی اُن کے دل میں اعجاز کے لئے جگہ تھی۔ میڈم کے تذکرہ نگار یہ کہتے ہیں کہ اپنی بیماری میں اور انتقال تک اُن کے لبوں پر اعجاز ہی کا نام تھا۔ اعجاز نے بھی میڈم کی بیماری کے زمانے میں اُن کی خدمت اور آرام میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی تھی۔

آفاقی ؔ صاحب اعجاز اور فردوس کے ساتھ جنگ کے سارے عمل کو پاکستان کی فلمی تاریخ میں ”انہونی“ مِثال کہتے تھے۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ کوئی میڈم نورجہاں کی مخالفت کے باوجود فلموں میں قائم و دائم نظر آ تا رہا۔ بے شک یہ انہونی ہی بات ہے اِس تمام عرصے فردوس فلموں میں چھائی رہی۔ ورنہ بڑے بڑے طرم خان نورجہاں کے تیور دیکھ کر ہی کانپ جاتے تھے۔ کتنے ہی چھوٹے بڑے لوگ میڈم کی وجہ سے فلمی دنیا سے باہر کر دیے گئے تھے۔ دور کیوں جائیے مجھے خود ملک کے نامور موسیقار نثار بزمی نے اپنے عروج کے زمانے میں نورجہاں کی وجہ سے لاہور سے علاقہ آؤٹ ہو کر کراچی آ بسنے کا قصہ سنایا۔

موسیقار نثار بزمی کا لاہور آؤٹ ہونا:

اکتوبر 1980 میں یہ خاکسار پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرامز سے منسلک ہوا۔ چند ماہ ہی گزرے ہوں گے جب میں نے پروڈیوسر سلطانہ صدیقی کے ساتھ موسیقی کا پروگرام ”سر سنگم“ شروع کیا۔ ایسے ہی ایک پروگرام میں سلطانہ صدیقی اور پروگرام منیجر شہزاد خلیل کو اعتماد میں لے کر موسیقار نثار بزمی سے اس پروگرام کروانے کی اجازت حاصل کی۔ ہفتہ دس دن کی بھاگ دوڑ کے بعد پروگرام کی آڈیو ریکارڈنگ بھی کر وا لی۔ یہ بزمی صاحب کا پی ٹی وی کراچی میں موسیقی کا پہلا باقاعدہ پروگرام تھا۔ یہ آٹھ دس دن محاورتاً میں نے بزمی صاحب کی دہلیز پر گزار ے۔ بس پھر جب تک یہ خاکسار کراچی میں رہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُن کی شفقت حاصل رہی۔ ایک روز باتوں باتوں میں انہوں نے میڈم نورجہاں سے اپنے لاہور آؤٹ ہونے کا ماجرا سُنایا:

” ریڈیو پاکستان لاہور سے میرا ایک انٹرویو نشر ہوا۔ اس کو نہ جانے کِس منطق کے لحاظ سے کِسی ’مہر بان‘ نے متنازعہ بنا دیا۔ جب کہ اِس میں تنازعہ کی سرے سے کوئی بات ہی نہیں تھی۔ اگلے روز حسن طارق میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ نے اپنے ریڈیو انٹرویو میں ایسا کیا کہہ دیا کہ میڈم نورجہاں غصہ میں ہیں! میں نے حسن سے کہا کہ میڈم کے بارے میں تو میں نے کوئی بات ہی نہیں کی۔ وہ آخر کس بات پر غصے میں آ گئیں؟ ۔ اس پر حسن طارق بے ساختہ بولے یہی تو بات ہے کہ آپ نے اُن کے بارے میں بات کیوں نہیں کی!

میں نے حسن سے پوچھا کہ کیا آپ نے وہ انٹرویو سُنا؟ حسن طارق کہنے لگے کہ میں نے تو نہیں سنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ابھی گئے ہی تھے کہ پرویز ملک کا فون آ گیا۔ کم و بیش یہی بات انہوں نے بھی پوچھی۔ اسی پر بس نہیں خود میڈم کا خصوصی پیغام بھی آ گیا کہ میں اُن کے بارے میں کہی ہوئی بات واپس لوں اور یہ کہ پریس کلب میں پریس کانفرنس بلائی جائے جس کے تمام اخراجات میڈم خود برداشت کریں گی۔ اس میں، میں یہ کہوں کہ ریڈیو پاکستان نے میرا انٹرویو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔

اور میڈم کے بارے میں جو کہاگیا اُس کی نفی کی جائے۔ میں نے پیغام لانے والے سے پوچھا کہ کیا میڈم نے وہ انٹرویو سُنا تھا؟ کہنے لگا کہ اس کا علم نہیں۔ کچھ دیر بعد ایک اور معروف فلمی شخصیت آئی۔ اور اب ایک نئی بات کہی گئی کہ میں میڈم سے معافی مانگوں۔ یہ تو عجیب و غریب صورتِ حال ہو گئی۔ کئی لوگ ایک کے بعد ایک آ رہے تھے۔ پہلے صرف یہ پوچھنے کے لئے کہ میں نے ایسا کیا کہہ دیا جو میڈم کی ناراضگی کا باعث بن گیا۔ اب میڈم نورجہاں سے معافی مانگنے کی باتیں ہونے لگیں۔ مسرورؔ انور بھی آئے اور کم و بیش وہی ساری باتیں دھرائی گئیں اب کی دفعہ ایک اور بات کا اضافہ ہو گیا کہ چونکہ میں نے ابھی تک میڈم سے معافی نہیں مانگی ہے لہٰذا نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہوں۔ اب تو مجھے بھی تشویش ہوئی کہ اس معاملہ کے پیچھے ہے کیا! میڈم تک میں نے اپنا پیغام پہنچایا کہ کچھ اتا پتا تو معلوم ہو کہ آخر میں معافی کس چیز کی مانگوں! معلوم ہوا کہ میڈم نے تو وہ انٹرویو سنا ہی نہیں تھا۔

اُن کو بتایا گیا تھا کہ میں نے میڈم کی تضحیک کی تھی۔ قاصد آ رہے ہیں قاصد جا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عجیب صورتِ حال ہوتی جاتی تھی۔ مزید یہ معلوم ہوا کہ جب مجھ سے ریڈیو انٹرویو میں یہ سوال پوچھا گیا کہ میں تو بھارت میں بھی فلموں کی موسیقی ترتیب دیتا رہا ہوں تو پاکستان آکر مجھے کِس گلوکار نے متاثر کیا؟ میں نے مہدی حسن اور رونا لیلیٰ کا نام لیا۔ میڈم کے بارے میں تو ایک لفظ نہ پوچھا گیا نہ ہی کہا گیا۔ اِس پر یہ کہا گیا کہ مذکورہ سوال کے جواب میں نور جہاں کیوں نہیں کہا گیا!

لیجیے قصہ ہی تمام ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے قاصد وں کے علاوہ مسرورؔ انور کو بھی کہا کہ وہ جا کر میڈم سے کہیں کہ آپ کا اِس کل کی بچی سے کیا مقابلہ؟ میں نے تو آج کی آوازوں کو سامنے رکھتے ہوئے جواب دیا تھا۔ لیکن ’زمین جنبد، نہ جنبد گل محمد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ یعنی زمین اپنی جگہ سے ہل سکتی ہے لیکن گل محمد نہیں۔ میں نے آخری مرتبہ کچھ لوگوں کو بیچ میں ڈال کر میڈم سے پوچھا کہ مجھے یہ تو بتایا جائے کہ معافی کس چیز کی مانگوں؟

اِس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اب میڈم کے بقول کہ میں ’شریف‘ آدمی ہوں، میری کم سے کم سزا یہ ہو گی کہ میری موسیقی میں میڈم اب کوئی بھی فلمی گیت نہیں گائیں گی۔ یہی نہیں بلکہ حسن طارق، پرویز ملک اور دوسرے ہدایتکاروں کو بھی مجھے اپنی فلموں میں کام دینے کی ممانعت ہو گئی۔ یہ سب میرے پاس آئے کہ میں کوئی بیچ کا راستہ نکالوں۔ میں نے اُلٹا اُن ہی سے پوچھا کہ آپ ہی کوئی بیچ کا راستہ بتا دیجئے! ایک ایسا کلام جو میں نے کیا ہی نہیں میں اس کی معافی کیوں مانگوں!

۔ آخری دفعہ کچھ کرم فرما آئے اور حالات کی سنگینی کا اشارہ دیا۔ میں نے اُن سے کہا کہ آپ میڈم سے کہہ دیجئے کہ معافی تو میں ہر گز بھی نہیں مانگوں گا۔ میرے اس انکار پر میڈم نورجہاں نے مجھے پیغام بھجوایا کہ چونکہ میں شریف آدمی ہوں اس لئے میری سزا یہ تجویز ہوئی ہے کہ میں فوراً لاہور بدر ہو جاؤں۔ اور کیسی فلمیں؟ کہاں کی موسیقی؟ اب میں اِس سب کو بھول جاؤں اور باقی زندگی اللہ اللہ کروں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”۔

” حیرت ناک کہانی ہے! پھر کیا ہوا؟ “۔ بات کو کریدتے ہوئے میں نے اُن سے سوال کیا۔

” پھر کچھ بھی نہیں ہوا! کراچی میں میرا اپنا مکان تھا (بی 80، بلاک آئی، نارتھ ناظم آباد ) ۔ اس کے ساتھ بُرے وقتوں کے لئے حیدری مارکیٹ میں دو ا یک دُکانیں تھیں۔ اللہ توکل میں اپنے خاندان سمیت کراچی منتقل ہو گیا۔ اب میں اشتہارات کی موسیقی دیتا ہوں“۔ اُس وقت انہوں نے ایک معروف مشروبِ مشرق کے اشتہار کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ اور اسی ایڈورٹائزنگ کمپنی کے لئے مزید کام کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے میوزک کی ٹیوشن کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ یہ سب اپنی جگہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ایک موسیقار سے عین اُس کے عروج کے زمانے میں دھونس زبردستی سے شہر اور انڈسٹری بدر کر دینا کسی بھی حساب سے نہایت ہی نامناسب بات تھی۔ یہ لاہور بدری غالباً 1980 میں ہوئی تھی۔

مجھے میڈم نورجہاں سے تھپڑ لگتے لگتے رہ جانا

یہ اکتوبر 1991 کا زمانہ تھا۔ بزمی صاحب کسی کام سے لاہور آئے ہوئے تھے۔ مجھے بھی کسی کام کے لئے کراچی سے لاہور آنا تھا۔ موقع پا کر میں بزمی صاحب سے ملنے اُن کے ہوٹل گیا۔ وہ مجھے نگار ایوارڈ کے روحِ رواں اور مدیر الیاس رشیدی صاحب سے ملاقات کروانے فلیٹیز ہوٹل لے گئے۔ اُس زمانے میں نگار پبلک فلم ایوارڈ برائے سال 1990 کی تقریب ہونے جا رہی تھی۔ اِس میں ملکہء ترنم نورجہاں کو اُن کی 40 سالہ خدما ت کے صلے میں خصوصی ایوارڈ دیا جانا تھا۔ فلیٹیز ہوٹل میں بزمی صاحب نے میری ملاقات فلمی دنیا کی کئی ایک شخصیات سے کروائی۔ میں اور بزمی صاحب ناہید اختر کے کمرے میں تھے جب ( غالباً ) ہوٹل انتظامیہ سے کوئی شخص آیا اور کہاکہ بزمی صاحب سے میڈم نورجہاں بات کرنا چاہتی ہیں۔

وہ ہوٹل انتظامیہ کے آفس کی جانب چلے میں بھی اُن کے ساتھ ہو لیا۔ میڈم نورجہاں نے اُن کو اپنے پاس ملاقات کے لئے بلوایا تھا۔ میں نے بھی میڈم سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ہم دونوں میڈم سے ملنے چلے۔ وہ بہت تپاک سے ملیں۔ ا دھر اُدھر کی باتوں میں الجھنے کے بجائے فوراً بزمی صاحب کو اپنے خرچے پر حج بیت اللہ کرانے کی پیشکش کی۔ بزمی صاحب نے کہا کہ وہ حج کر چکے ہیں۔ میڈم نے بات دھراتے ہوئے کہا کہ دوسرا حج کروا دیتی ہوں۔

بزمی صاحب نے کہا کہ میڈم میں دوسرا حج اپنی والدہ ( یا والد ) کو کاندھے پر بٹھا کر، کر چکا ہوں۔ اب میڈم کیا کریں! حکمتِ عملی بدلتے ہوئے کہنے لگیں کہ آج کل کیسیٹوں کا زمانہ ہے۔ ابھی تک میں نے کسی کے لئے بھی کیسیٹ ریکارڈ نہیں کرایا۔ آپ کوئی سے سات آٹھ گانے تیار کریں میں آپ کے لئے یہ کام کروں گی۔ اِس پر بزمی صاحب کہنے لگے کہ میڈم میں تو دس بارہ سال سے فلمی دنیا سے ریٹائر ہو چکا۔ اِس دوران میڈم بزمی صاحب کے لئے اپنے ہاتھ سے پھل کاٹ رہی تھیں۔

چائے دانی سے بزمی صاحب کے لئے پیالی میں چائے بنائی اور خرا ماں خراماں پیالی اُٹھائے اُن کے پاس آئیں۔ چائے پیش کرتے ہوئے اُن سے ( ارادتاً ) کچھ چائے بزمی صاحب کی کولاپوری چپل پر گر گئی۔ میڈم اُن کی چپل کی جانب لپکیں اور قیمتی ساڑھی کے پلو سے اُن کی چپل صاف کرنے لگیں۔ بزمی صاحب گھبرا کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ میڈم یہ کیا کر رہی ہیں۔ لیجیے! میڈم نے اُن کی چپل اُٹھائی اور اپنے سر پر رکھ لی۔ ۔ ۔

۔ ۔ اور موٹے موٹے آنسوؤں کے ساتھ رونے لگیں۔ کبھی کبھی یہ جملہ بھی کہہ جاتیں کہ اب مجھے کچھ تو خدمت کرنے دیں۔ اس پر بزمی صاحب نے برملا کہا : ”میڈم آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ چھوڑیں! جو ہوا سو ہوا“۔ لگتا ہے میڈم بس یہی جملہ سننا چاہتی تھیں۔ اس جملے نے اکسیر کا کام کیا اور یک دم میڈم پہلے والے خوشگوار موڈ میں آگئیں۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا کہ یہ کون ہے؟ اب اصولاً مجھے کوئی جواب نہیں دینا چاہیے تھا۔

جِس کا بزمی صاحب نے مجھے منع بھی کیا تھا۔ سوال جواب تو بزمی صاحب سے ہی کیے جا رہے تھے۔ میں نے اپنے بارے میں ایک آدھ جملہ کہا اور ایک دوسرا فاؤل کر دیا۔ میں نے کہا: ”میڈم آج کا دن تو میرے لئے خوشیوں کا پیغام لایا۔ مجھے 3 شخصیات سے ملنے کا ارمان تھا۔ وہ آج پورا ہو گیا۔ لیجیے! میڈم غصہ میں لال پیلی ہو کر کھڑی ہو گئیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تو، توحید کی علمبردار ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے تین شخصیات کا ذکر کیوں کیا؟ یہ کیوں نہیں کہا صرف ایک ہی شخصیت میڈم نورجہاں سے ملنے کا ارمان تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُن کا ایک ہاتھ فضا میں اُٹھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے تخیل میں نظر آیا کہ ایک زناٹے دار گھومتا ہوا ہاتھ پڑا اور میرے 14 طبق تھپڑ کھائے بغیر ہی روشن ہو گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقین کیجئے کہ میں نے چاہا بھی کہ سر پر پیر رکھ کے بھاگ نکلوں۔ لیکن میری حیثیت اُس کبوتر کی سی تھی جو بلی کے سامنے آنکھیں میچے بیٹھ جاتا ہے۔ اِس منجمد لمحے میں کتنی صدیاں گزر گئیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ اندازہ نہیں۔ کہیں دور سے بزمی صاحب کی آواز آتی سنائی دی کہ میڈم ہمیں اجازت دیجئے۔

اس طرح مجھ پر طاری جمود ٹوٹا اور میں اپنی دنیا میں واپس آ گیا۔ بزمی صاحب پہلے ہی کھڑے ہو گئے تھے میرا ہاتھ پکڑا اور باہر کی جانب کو چلے۔ مجھے جاتے جاتے بھی سلو موشن میں سارا منظر نظر آ رہا تھا کہ میڈم کا اوپر اُٹھا ہوا ہاتھ نیچے گیا۔ انہوں نے بزمی صاحب کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ باہر آ کر میری تو جیسے جان میں جان آ گئی۔ لیکن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک بات تو طے ہے کہ اگر میڈم کا ایک بھر پور ہاتھ مجھے پڑ جاتا تو میں بھی سُر تال میں آ جاتا!

بزمی صاحب کے چہرے سے شدید غصے کا اظہار ہو رہا تھا۔ پورے راستے انہوں نے کوئی بات نہیں کی۔ اُن کو ہوٹل چھوڑتے وقت انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا: ”میں اُن چند خوش نصیبوں میں سے ہوں جن کے سامنے میڈم نے کبھی کسی کو ’سخت سست‘ نہیں کہا۔ نہ ہی کبھی بدزبانی کی۔ آج۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو تم نے میری تمام عمر کی ریاضت کو خاک میں ملانے کی کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی تھی“۔ بزمی صاحب سخت غصے میں تھے۔ اِن کو منانے کا بھی ایک دلچسپ قصہ ہے جو پھر سہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اپنے طبلے والے کو میڈم کا رقمِ کثیر دینا

مجھے موسیقار اختر اللہ دتہ نے میڈم کی دریا دلی کا ایک دلچسپ قصہ سنایا: ”میرے والد (ریڈیو پاکستان کے مشہور طبلہ نواز اُستاد اللہ دتہ) نے ہمیں بتایا کہ ایک مرتبہ میڈم کے ساتھ طبلہ بجانے والے علیل ہو کر میو اسپتال لاہور کے کسی جنرل وارڈ میں داخل تھے۔ میرے والد صاحب اُن طبلہ نواز کے سرہانے بیٹھے ہوئے تھے کہ دفعتاً میڈم نورجہاں ظلِ ہما کے ساتھ وارڈ میں داخل ہوئیں۔ اپنے ماسٹر صاحب اور میرے والد صاحب کی خیریت معلوم کی اور اپنے پرس سے ایک موٹا تگڑا لفافہ نکال کر اپنے طبلہ نواز کو دیا۔

وہ اُسے اپنے تکیہ کے نیچے رکھنے لگے تو میڈم بیساختہ بولیں کہ اسے کھولیں اور گنیں۔ اُس غریب نے کیا گننا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اتنی بھاری رقم تھی کہ اُس بے چارے نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھی ہو گی۔ گھبرا کر اُس نے میڈم سے سوال کیا کہ کیا یہ اُس کے لئے ہے؟ میڈم کے ا ثبات میں سر ہلانے سے ظلِ ہما، جو اُس وقت 13 سال کی ہو گی چپ نہ رہ سکی اور اپنی والدہ سے کہا ”اِن ماسٹر صاحب کو اتنے زیادہ پیسے؟ “۔ جواب میں میڈم نے اپنی بیٹی کو بہ آوازِ بلند بہت سخت سست کہا جو تمام وارڈ نے سُنا اور پھر یہ تاریخی جملہ ادا کیا: ”تجھے کیا علم! ارے! میں جو کچھ بھی ہوں انہی ہاتھوں کی وجہہ سے ہوں! چل اُٹھ! “۔ پھر غصہ کی حالت میں بغیر سلام دعا لئے وہاں سے چل دیں۔

ڈھاکہ میں ہوٹل کے ملازمین کے لئے میڈم کا خصوصی طور پر گھنٹوں گانا :

مجھے ایک دفعہ آفاقی ؔ صاحب نے بتایا: ”میڈم نورجہاں، اداکار اعجاز، اداکارہ نیلو، رتن کمار اور میں (آفاقیؔ صاحب ) کسی تقریب میں لاہور سے ڈھاکہ پہنچے۔ وہاں ایک اچھے ہوٹل میں ہمارا قیام و طعام کا انتظام تھا۔ ایک روز میڈم نے کھانے کی تعریف کر دی اور کہا کہ باورچی کو بلاؤ۔ یہ آیا تو میڈم نے اُسے پرس سے کچھ رقم نکال کر دی۔ لوہا گرم دیکھ کر اُس نے کہا کہ اُس کا اور ہوٹل کے تمام چھوٹے بڑے اسٹاف کا بھی دل چاہتا ہے کہ وہ آپ کو گانا گاتے ہوئے دیکھے۔

میڈم بھی فیاضی پر آئی ہوئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میں کل رات صرف آپ لوگوں اور آپ کی فیملی کے لئے گانا گاؤں گی۔ اگلی صبح گورنر ہاؤس سے پیغام آیا کہ رات کو ڈنر پر میڈم اور اعجاز مدعو ہیں۔ میڈم تک بات پہنچی تو انہوں نے دو ٹوک کہہ دیا کہ رات کو تو ہوٹل کے ملازمین اور اُن کے خاندان والوں کے لئے گا رہی ہوں۔ اور گورنر ہاؤس جانے کی معذرت کر لی۔ پھرگورنر نے خود میڈم سے ٹیلی فون پر یہی بات کہی لیکن میڈم نے بھی دو ٹوک جواب دے کر اُن کو لاجواب کر دیا کہ میں تو ہوٹل ملازمین اور اُن کے اہل ِ خانہ کو رات گانے سنانے کا وعدہ کر چکی ہوں۔

بہرحال رات کا پروگرام زور و شور سے شروع ہوا۔ میڈم بھی خوب مزے لے لے کر محفل کو ساتھ لے کر چل رہی تھیں۔ لوگ پرانے گانوں کی فرمائیشیں کر رہے تھے۔ میڈم سنائے جا رہی تھیں۔ اسی دوران اُن باورچی بابا نے میڈم سے اس گانے کی فرمائش کی : ’کس طرح بھولے گا دل اُن کا خیال آیا ہوا، جا نہیں سکتا کبھی شیشے میں بال آیا ہوا‘ ۔ بابا جی یہاں بھی فاؤل کھیل گئے جب انہوں نے یہ جملہ بھی شامل کر دیا کہ ’اُس وقت میں چھوٹا تھا جب یہ گانا سنتا تھا‘ ۔ میڈم کبھی برداشت نہیں کرتی تھیں کہ کوئی ان کو عمر رسیدہ کہے۔ اُن کے تیور تھوڑی دیر بدلے لیکن حیرت انگیز طور پر پُر سکون ہو گئیں۔ اُن بابا کو بھی بھی اپنے اس فاؤل کا احساس ہو گیا تھا۔ میڈم نے صورتِ حال پر قابو پاتے ہوئے کہا ’ہاں میں بھی اُس وقت بہت چھوٹی تھی‘ ۔

گلو کار اخلاق احمد کی بیماری اور اُن کے لئے میڈم کی بھاگ دوڑ:

غالباً 1984 کا زمانہ تھا۔ میں پی ٹی وی کراچی مرکز کے مرکزی دروازے پر کھڑا تھا کہ مجھے اخلاق احمد اور مجیب عالم نظر آئے۔ اِن دونوں میں تکرار ہو رہی تھی۔ مجیب بھائی نے آواز دے کر مجھے بلایا اور کہا : ”یہ ڈاکٹر کو نہیں چیک کرا تا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو کیا حالت ہو گئی ہے“۔ اِسی رات لاہور سے مسرورؔ بھائی کراچی آئے۔ پتہ نہیں کس رو میں اخلاق احمد کا ذکر چھڑ گیا۔ کہنے لگے کہ اس بے چارے کو خون کا مرض لاحق ہے۔ اخلاق کی بیگم پی آئی میں تھیں۔ لندن کے آنے جانے کے ٹکٹ تو آ سکتے تھے لیکن علاج کی رقم؟ فارن کرنسی کے قوانین۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسرور ؔ بھائی نے میڈم نورجہاں سے بات کی۔ میڈم نے طلسماتی چھڑی جو گھمائی تو ایک اور انہونی ہو گئی:

میڈم نے لاہور کے تمام فلمی نگار خانوں، آؤٹ دور گئے ہوئے فلم یونٹوں میں وہ تمام لوگ جن کو دیکھنے فلم بین سنیما میں آتے ہیں اُن کو تین دن کے نوٹس پر لاہور کے ایک ہال میں آنے کا کہہ دیا۔ اِن میں اداکار، اداکارائیں، ڈانسر، کامیڈین وغیرہ شامل تھے۔ یہ بھی منادی کروا دی کہ جو نہیں آئے گا یا آئے گی تو پھر وہ اپنے آپ کو فلموں سے باہر سمجھ لے۔ اخلاق احمد کے لئے یہ پروگرام منعقد ہوا۔ ٹکٹ پر کوئی ا یکسائز، کوئی ٹیکس نہیں لگا۔ راتوں رات جتنی رقم جمع ہو ئیء سب کو اسٹیٹ بینک کے افسران کو آفس ٹائم کے بعد بلوا کر قانون کے تقاضے پورے کرائے گئے۔ اور چوتھے دن اخلاق احمد لندن میں تھا۔

1965 کی جنگِ ستمبر اور میڈم

یہ حقیقت ہے کہ 1965 کی جنگ میں میڈم کا بھی بھرپور حصہ ہے۔ فوج اور عوام کا حوصلہ بڑھانے میں جنگ کے آغاز ہی سے میڈم نے ریڈیو پاکستان میں اپنا مورچہ لگا لیا تھا۔ کیا گیت لکھے گئے۔ کئی ایک گیتوں کی دھنیں بھی انہوں نے خود ہی بنائیں۔ ملکہ ء ترنم نورجہاں کو 1957 میں فلم ”انتظار“ میں اداکاری اور گلوکاری پر پر یزیڈنٹ ایوارڈ حاصل ہوا۔ 1965 میں انہیں جنگِ ستمبر میں جنگی ترانے گانے پر خصوصی نگار ایوارڈ دیا گیا۔

یہ ملکہء موسیقی روشن آراء بیگم کے بعد پاکستان کی دوسری خاتون ہیں جنہیں گانے پر صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی دیا گیا۔ اسی سال 1965 میں جنگ کے دوران حوصلہ بڑھانے پر فوج کی جانب سے میڈم کو تمغہ ء امتیاز دیا گیا۔ یہ پاکستان کی سب سے پہلی گلوکارہیں جس نے 1991 میں رائل البرٹ ہال لندن میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس کے علاوہ بھی انہیں بہت سے ایوارڈوں اور خطابات سے نوازا گیا۔

میڈم نورجہاں کا وقتِ آخر

معتبر ذرائع سے علم ہوا کہ میڈم کی وصیت تھی کہ جہاں میرا انتقال ہو وہیں مجھے جلد سے جلد دفن کر دیا جائے۔ وہ 26 رمضان تھا جب ان کا انتقال ہوا۔ جمہ کی نماز کے فوراً بعد میڈم کی نمازِ جنازہ ادا ہوئی۔ انہیں قبرستان کی جانب لے جایا گیا۔ وہاں اطلاع ملی کہ ان کے بیٹے کو کسی وجہ سے رات سے پہلے کی کسی پرواز کا ٹکٹ نہیں ملا اور وہ رات گئے پہنچیں گے۔ اب آپ دیکھئے کہ یہ بھی کس قدر خوبصورت مصلحت تھی کہ میڈم کی تدوین دن میں نہیں ہوئی۔ مغرب کے بعد چاند کی 27 شروع ہو گئی۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ جب میڈم کو سپردِ خاک کیا گیا تب شب کے 2 : 30 ہو رہے تھے۔ اگر وہ مبارک رات تھی تو میڈم کتنی خوش قسمت ہوئیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments