کرسمس ایک عالمگیر تہوار


Dr Shahid M shahid
25 دسمبر اہل جہاں کے لیے ایک مقدس تہوار کی لاثانی اور لافانی  حثیت رکھتا ہے ۔ جسے دنیا بھر میں ہر سال قومی اور بین الاقوامی سطح پر بڑے جوش و خروش اور عزت و وقار کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔جو اپنی عالمگیریت اور ہمہ گیریت میں تمام تر رعنائیوں اور جلوؤں کے ساتھ خوشخبری دیتا ہے تاکہ ہم اس کے دیدار کے طالب ہوں ۔
یکم دسمبر شروع ہوتے ہی کرسمس منانے کی تیاریاں عروج پر شروع ہوجاتی ہیں ۔دنیا بھر میں جہاں جہاں مسیحی قوم آباد و شاد ہے ۔ وہ ولادت المسیح کا جشن دوبالا کرنے کے لئے اقدار و روایات کی روشنی میں بڑی شان اور عقیدت کا برملا اظہار کرتے ہیں ۔ گرجا گھروں کو برقی قمقموں کا لباس پہنا دیا جاتا ہے ۔ گھروں اور چرچز  میں کرسمس ٹری ، ستارہ، چرنی بنا کر اپنی اقدار و روایت کی آرائش کی جاتی ہے ۔بازار  اور گلیاں  جھنڈیوں اور روشنیوں سے سجا دی جاتی ہیں ۔ سرکاری اور نیم سرکاری ادارے کرسمس کی تقریبات کا بڑے جوش وخروش سے انعقاد کرتے ہیں ۔جگہ جگہ کیک اور مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں ۔ چرچز میں شام پرستش اور ڈرامے پیش کیے جاتے ہیں ۔الغرض مشرق ہو یا مغرب جہاں بھی دیکھیں ہر زبان پہ یسوع نام کی رٹ اور زبان پر  اس کے نغمے  گنگنانے کی معموری  شامل ہوتی ہے۔کیونکہ یہ دن اپنی ہمہ گیریت، آفاقیت ، عالمگیریت ، اور لاثانیت میں ایک معجزاتی اور کرشماتی خصوصیت کا درجہ رکھتا ہے ۔جو ہر دور میں یکساں مقبول اور افادیت کا حامل رہا ہے اور جب تک دنیا قائم ہے یہ دن اپنی تاریخ دہراتا رہے گا اور ہم سب کو اس بات کی یاد دہانی کرواتا رہے گا کے منجی دو عالم یسوع مسیح کا جنم نجات کا باعث ہے۔
یہ بات امتیاز سے بالاتر نظر آتی ہے کہ کوئی امیر ہو یا غریب ان کے دل و دماغ  یسوع مسیح کی محبت سے سرشار اور امید و بہار سے جگمگانے لگتے ہیں ۔ اس دن ہر کوئی مارے خوشی کے اتحاد و یگانگت کا لباس زیب تن کر لیتا ہے ۔ عزیز و اقارب کے درمیان مبارک بادوں اور تحائف کا ایک بابرکت سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔مارے خوشی کے ہر کوئی ایک دوسرے کو خوش آمدید کہتا ہے ۔ہر دل اس کی محبت سے معمور ہو کر کھل اٹھتا ہے۔ اس کی محبت سانسوں میں  خوشبو بن کر دوسروں کے نتھنوں کو بھاپ دیتی ہے اور اس بات کا احساس فراہم کرتی ہے کہ خدا محبت ہے ۔
چونکہ یہ دن اپنی کوکھ سے ایسی  کرامات و کرشمات یعنی امن،  محبت اور صلح کو جنم دیتا ہے ۔یہ افق پر بننے والی  مثلث کے خوبصورت ترین زاویے ہیں جو اپنے اندر تعلیمی معنویت اور مقصدیت کا مفہوم ظاہر کر کے  ہماری جسمانی و روحانی تربیت کرتے ہیں ۔تاکہ ہر ایک مسیحی کا دل و روح مسیح کی  محبت سے سرشار ہوجائے ۔یہ خوشیاں اور محبتیں بانٹنے کا لاثانی اور لافانی دن ہوتا ہے تاکہ ہر مسیحی اپنے دل سے نفرت و فرق مٹا کر اپنی زندگی کا منفرد نمونہ پیش کر سکے اور اس بات کا دلچسپ پہلو یہ ہے جہاں خوشی اور محبت روٹھ گئی ہو وہاں منزہ جذبوں کے چشمے پھوٹ پڑیں تاکہ بہت سے لوگ اپنی پیاس بجھانے کے لیے اس ابدی چٹان  یعنی المسیح کے پاس آسکیں ۔بلاشبہ اس کا تجسم نجات کے بھید سے معمور و محکوم ہے۔ جس کی آفاقیت و صداقت رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گی ۔جسے تاریخ ، روایات ، اور ثقافت نے بھی شہر ت و بقا ضامن بنایا ہے اور اس دن کا  حسن و جمال اپنی چمک اور کشش میں  ساری دنیا کو  منور کرتا ہے ۔
کتاب مقدس کا درس و تدریس نا صرف دنیاوی زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھاتا ہے بلکہ ابدیت کی خوشخبری سے  بھی ہمارے دل منور کرتا ہے اور بائبل مقدس خدا کی بادشاہی کے بھیدوں کو جن شواہد کی روشنی میں بیان کرتی ہے ۔ وہ اپنی ذات و عرفان میں ازلی و ابدی مقام و مرتبہ رکھتے ہیں ۔کیونکہ مذہب ہر انسان کا نفسیاتی سہارا ہے جس میں زندگی کی امید ، شفا کاعمل  ، آخرت پر بھروسا ، روحانی عناصر ، ایمان و عمل ، تروتازگی ، نشان و معجزات ، اثر قبولیت ، خدا کی بادشاہی ، موت پر فتح ، تماثیل ، اور ابدیت کا سفر جیسے خوبصورت موضوعات داخلی اور خارجی پہلوؤں کی نشاندہی اور دلچسپی برقرار رکھتے نظر آتے ہیں تاکہ ہماری ترجیحات کا آنچل اس کی محبت سے معمور اور روحانی برکات و فضائل سے بھر جائے۔
کتاب مقدس دو عہدوں پر مشتمل ہے ۔پہلا  عہد عتیق اور دوسرا  جسے عہد جدید کہا جاتا ہے۔ دونوں شریعت اور فضل کی دولت سے معمور ہیں اور ان دونوں عہدوں کی خوبصورتی اور حسن وجمال کا منفرد اور دلچسپ پہلو  یہ ہے کہ وہ مسیح کی الوہیت اور جائے پیدائش کی بابت روشنی ڈالتے  ہیں ۔جو قائرین کتاب مقدس کو بلاناغہ پڑھنے  کے عادی اور  دلچسپی رکھتے ہیں ۔وہ عہد عتیق میں ان تمام پیشگوئیوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں جن پر انبیاء اکبر اور انبیاء اصغر نے الہاتی صداقتوں پر  روشنی ڈالی ہے ۔
آپ کی مطالعاتی وسعت ، مشاہداتی آنکھ ، ایمانی قوت ،
 اور یسوع مسیح سے محبت آپ کے قول و
اقرار کا منہ بولتا ثبوت ہے ، کہ آپ اس حقیقی چٹان کو جاننے کی کتنی جستجو و امنگ کا چراغ جلاتے ہیں ۔تقریبا آسمان و زمین کی وسعتوں میں آج سے دو ہزار اکیس ٢٠٢١ سال پہلے  جبرائیل فرشتہ کی معرفت یہ خوشخبری دی گئی تھی کہ تمہارے گناہوں کی معافی کے لئے ایک نجات دہندہ پیدا ہوگا جو سارے جہان کا بوجھ اٹھا کر ہماری نجات کا بندوبست کرے گا ۔فرشتہ نے اس مقصد کو مقدس یوسف اور مقدسہ مریم پر ظاہر کیا اور الگ الگ بتایا کہ خدا نے تمہیں بیٹے کی پیدائش کے لئے چنا ہے ۔
اگر اس بات کو شریعت کے آئینے میں دیکھا جائے تو دونوں اس بات سے خوف زدہ تھے کہ یہ کیوں کر ہو سکتا ہے ؟ البتہ مقدس متی اس واقع کو الہیاتی تناظر  میں یوں بیان کرتا ہے ۔
” اب یسوع مسیح کی پیدائش اس طرح ہوئی کہ جب اس کی ماں مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوگی تو ان کے اکٹھے ہونے سے پہلے وہ روح القدس کی قدرت سے حاملہ پائی گئی ۔پس اس کے شوہر یوسف نے جو راست باز تھا اور اسے بد نام کرنا نہیں چاہتا تھا اسے چپکے سے چھوڑ دینے کا ارادہ کیا ۔وہ ان باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ خداوند کے فرشتہ نے اسے خواب میں دکھائی دے کر کہا اے یوسف ابن داود ! اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر کیونکہ جو اس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت سے ہے ۔اس کی بیٹا ہوگا اور تو اس کا نام  یسوع رکھنا کیونکہ وہی اپنے لوگوں کو ان کے گناہوں سے نجات دے گا “
( متی کی انجیل ) ١: ١٨ تا ٢١
مقدس متی جو یسوع مسیح  کا شاگرد بھی تھا ۔اس نے اپنے خالق کے آباواجداد یعنی اس کے شجرہ نسب کو جس باریک بینی سے تاریخ کے آئینے میں دیکھا اسے من و عن بیان کردیا ۔مذکورہ حوالہ میں تین کردار جواس کی پیدائش کی صداقت کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی افادیت اور روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ یسوع مسیح کنواری مریم کے بطن یعنی روح القدس کی قدرت سے پیدا ہوئے ۔یعنی یسوع مسیح یو سف کا جسمانی بیٹا نہیں تھا۔
کیونکہ بائبل اس صداقت کا پرچار کرتی ہے کہ مریم روح القدس کی قدرت سے حاملہ ہوئی اور خدا تعالیٰ نے اپنے بیٹے کی پیدائش کے لیے مقدس یوسف اور مقدسہ مریم کو چنا۔ چونکہ ان دونوں کے لئے یہ بات تعجب خیز  تھی جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تاریخ میں اس سے قبل کوئی ایسا عجیب واقع رونما نہیں ہوا تھا ۔ جس کی وجہ سے دونوں پر خوف کے بادل منڈلانے لگے اور وہ تعجب کرنے لگے کہ یہ کیوں کر ہو سکتا ہے ؟ ان کے شکوک و شبہات دور کرنے کے لیے خدا نے اپنا فرشتہ جبرائیل کو ان دونوں کے پاس الگ الگ بھیجا اور فرشتہ باری باری ان سے ہم کلام ہوا اور ان کے دلوں سے تمام شکوک و شبہات دور کیے تاکہ وہ خدا کے منصوبے کو پورا کر سکیں  ۔پس انہوں نے ویسا ہی کیا جیسا خدا کے فرشتہ نے انہیں حکم دیا تھا ۔
کتاب مقدس ان باتوں کا خوب پرچار کرتی ہے کہ یسوع مسیح کی پیدائش پر آسمان و زمین پر عجیب نشانات ظہور پذیر ہوئے خاص طور پر انہیں اس حوالہ میں پڑھیں۔
“اسی  علاقہ میں جو چرواہے تھے جو میدان میں رہ کر اپنی گلا کی نگہبانی کر رہے تھے ۔اور خداوند کا فرشتہ ان کے پاس آ کھڑا ہوا اور خداوند کا جلال ان  کے چوگرد چمکا اور وہ نہایت ڈر گئے ۔مگر فرشتہ نے ان سے کہا ڈرو مت کیونکہ دیکھو میں تمہیں بڑی خوشی کی بشارت دیتا ہوں جو ساری امت کے واسطے ہوگی ۔کہ  آج داؤد کے شہر میں تمہارے لئے ایک منجی پیدا ہوا ہے یعنی مسیح خداوند ۔اور اس کا تمھارے لیے یہ نشان ہے کہ تم ایک بچہ کو کپڑے میں لپٹا اور چرنی میں پڑا ہوا پاؤ گے ۔
اور یکایک اس فرشتہ کے ساتھ آسمانی لشکر کی ایک گروہ خدا کی حمد اور یہ کہتی ظاہر ہوئی کہ ۔
” عالم بالا پر خدا کی تمجید ہو اور زمین پر ان آدمیوں میں جن سے وہ راضی ہے صلح ” (لوقا کی انجیل ٢:  ٨ تا ١۴ )
مذکورہ حوالہ کی روشنی اور شواہد میں یہ بات یقینی امر اور اطمینان  کا باعث ہے کہ یسوع کی پیدائش بنی نوع انسان کے لئے امن محبت اور صلح کا پیغام ہے ۔ان تین لفظوں میں روحانیت کا لبادہ چھپا ہوا ہے جس کا اظہار و عقیدت بنی آدم کی نفسیات کے ساتھ نتھی ہے۔
البتہ ہم سب بدن کے وطن میں کمزور اور لاچار ہیں ۔اکثر و بیشتر گناہ میں گر جاتے ہیں ۔ہم سے اکثر غلطیاں اور گناہ سرزد ہو جاتے ہیں ۔بشر ہوتے ہوئے ہمیں اپنی نادانیوں، کمزوریوں، لاچاریوں، خامیوں، مجبوریوں ، بدعتوں ، علتوں، خطاؤں ، ناچاقیوں ، غلطیوں اور گناہوں کا ایک دوسرے سے اقرار کرنا چاہیے ۔اور اپنے دلوں سے تمام رنجشیں ، نفرتیں اور کدورتیں مٹا کر  حقیقی کرسمس منانا چاہیے ۔کیونکہ جب تک ہمارے دل کی چرنی پاکیزہ نہیں ہوگی وہ اس وقت تک  ہمارے دلوں میں پیدا نہیں ہوگا ۔اور پھر جس کا جنم دن ہو اور وہ موجود نہ ہو تو اس کی سالگرہ کیسے منائی جائے ؟
کرسمس عالمگیر دن ہوتے ہوئے عالمگیر واقعات پر روشنی ڈالتا ہے اور ہماری توجہ اس جانب مبذول کرواتا ہے کہ ہم اس کی نجات بخش پیدائش میں شامل ہو سکیں  ۔آئیں  اپنے دلوں سے گناہوں کی  گندگی و غلاظت کا ڈھیر صاف کرکے اس کی ولادت کے جشن میں شامل ہو جائیں ۔ہوسکتا ہے یہ سال ہماری زندگی کے سفر کا آخری سال ہو ۔ہم آنے والا نیا سال دیکھ سکیں یا نا ۔اس بات کا بھید تو خدا ہی جانتا ہے ۔البتہ ہمیں اپنے تمام تر گلے شکوے اور شکایتیں مٹا کر ایک دوسرے کو گلے سے لگانا ہے ۔ان باتوں کا قول واقرار کرنا ہے تاکہ ہم روحانی طور پر مضبوط بنیں اور ابلیس کے کاموں کو شکست دینے کے لیے امن ،محبت اور صلح کا چراغ جلائیں تاکہ اس کی روشنی دوسروں کو فیض دے سکے ۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments